جبلت ِ مرگ (1)-احمر نعمان

فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدودِ  وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

( شکیب جلالی)
اردو کے جن بڑے شعراء  نے سلویہ پلاتھ کی طرح اپنی زندگی کا خاتمہ کیا، ان میں شکیب جلالی سرفہرست ہیں جنہوں نے محض ۳۲ برس کی عمر میں ٹرین کے آگے کود کر زندگی  خاتم  کرلی ۔ اس شعر میں حدود وقت، تازہ لہو، چھینٹے، پر غور کیجیے؛ موت یعنی اختتام نہیں، بلکہ وقت کی حدود سے آگے نکلنے کا نام ہے؛ جدید غزل کو جدید یقیناً  شکیب نے بنایا اور جس مقام پر وہ چھوڑ گئے، تاحال مجھے ان سے آگے کیا، برابر کا بھی کوئی نہیں نظر آتا۔

مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
جس طرح سایہ دیوار پہ دیوار گرے

ہاتھ آیا نہیں کچھ رات کی دلدل کے سوا
ہائے کس موڑ پہ خوابوں کے پرستار گرے

شکیب کا تعلق علی گڑھ کے ایک قصبے جلال سے تھا،ان کے والد پولیس میں ملازمت کرتے تھے، پیری مریدی کے چکر میں نوکری ترک کی اورمجذوب ہو گئے،بریلی میں اپنے بچوں کے سامنے اپنی بیوی اور ان کی والدہ کو ٹرین کے آگے دھکیل دیا جن کی گود میں دو برس کی دودھ پیتی بچی بھی تھی، ان کی ٹانگیں کٹ گئیں اور ان کی وفات ہو گئی۔ شکیب محض نو برس کے تھے اور سوچ سکتے ہیں کہ ایک نو برس کے بچے پہ اس آنکھوں دیکھے ‘حادثے’ کا کیسا اثر رہا ہو گا۔ والد بنارس اور بریلی کے پاگل خانے میں داخل رہے اور شکیب اپنی بہنوں کے ساتھ پاکستان آ گئے۔ وہ 66 ء  تک وہیں رہے۔
انہی کے ہم عصر اور جدید شاعری کا ایک اور بڑا نام شہزاد احمد لکھتے ہیں کہ شکیب کے والد کے دوستوں کا بھی شکیب پر اثر رہا جو ہندوستان میں رہتے تھے، والد کی وفات پینسٹھ کی جنگ کے بعد ہوئی، ان کے والد کے دوست ملنے بھی آئے اور ایک راوی کے مطابق چند خطوط ایسے آئے، جنہوں نے کایا پلٹ دی،جسمیں لکھا تھآ کہ کہ تمہارے والد وقت کے قطب تھے، اب یہ ذمہ داری تمہاری ہے، اب تم اپنی عزیز ترین شئے کی قربانی دو۔

ان کی خودکشی کے عوامل میں ایک یہ بھی ممکن رہا ہو کہ شاید انہوں نے پہلے بیٹے کی قربانی کا سوچا، پھر اپنے والد کی طرح بیوی کا مگر آخر میں اپنی قربانی دے دی۔

شہزاد احمد چونکہ ماہر نفسیات بھی ہیں اور شکیب کے قریب بھی رہے، اس لیے ان کی بات قرین قیاس ہے، وہ کہتے ہیں کہ فرائڈ انسان کی دو جبلتیں بتاتا ہے ایک جبلت حیات جس کے تحت انسان اپنے آپ کو خطروں سے محفوظ رکھتا ہے، جیسے ہر جانور میں ہوتی ہی ہے، مگر انسان میں ایک اور جبلت بھی ہے، جسے جبلت مرگ کہتے ہیں، اس میں وہ اپنی پہلی حالت ،یعنی جماداتی حالت میں لوٹنا چاہتا ہے۔ شہزاد احمد کہتے ہیں کہ یہ دونوں جبلتیں اپنی اصل حالت میں بہت کم ظہورپذیر ہوتی ہیں عام طور پر انسان جو کیفیات محسوس کرتا ہے اس میں دونوں رحجانات ملے جلے ہوتے ہیں۔ شہزاد احمد نے تاریخ خود کو دہراتی ہے کا ذکر کیا اور کہتے ہیں کہ ثقافتی سطح پر بھی دہرانے کا عمل قوی ہے، اور خاندانی روایات کا اعادہ بھی اکثر باربارکیا جاتا ہے، موسیقارکےگھر موسیقار، موچیوں کے خامدان میں موچی اور مولویوں کے گھر مولوی پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہے، شکیب کے ساتھ جو واقعہ وقوع پذیر ہوا وہ بھی اعادہ تھا، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی ٹانگیں بھی اسی جگہ سے کٹیں جہاں ان کی والدہ کی کٹیں تھیں۔ فرق صرف اتنا کہ والدہ کو والد نے دھکا دیا تھا مگر شکیب نے خودکشی کی اور بیک وقت دونوں کردار نبھائے، یعنی مرنے والے کا کردار بھی اور مارنے والے کا بھی؛ اپنے والد اور والدہ دونوں کے کردار یکجا کر دیے۔

شکیب کی شاعری موت پر بھی بہت ہے، مگر دل گرفتگی اور یاس سے زیادہ ایک شان کے اشعار ہیں۔ جیسے ایک جاننے والے نے لکھا کہ شکیب اپنا ہاتھ انہیں دکھاتے کہ اس کو تو پڑھو، مجھے لگتا ہے اس میں خودکشی کی لکیر ہے؛ یہی بات انہوں نے بزبان شعر یوں کہی؛
میں ہاتھ کی لکیریں مٹانے پہ ہوں بضد
گو جانتا ہوں نقش نہیں یہ سلیٹ کے

Advertisements
julia rana solicitors

ان کے ایک اور ہم عصر سلیم مرزا اس حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ اس دور میں انہیں ڈپریشن کے مرض کا علم نہیں تھا مگر اب وہ شکیب کی باتیں یاد کرتے ہیں تو تیقن سے کہہ سکتے ہیں کہ شکیب ڈپریشن کے مریض تھے، ان کے ذہنی توازن کو نقصان ان شعرا نے پہنچایا جو ان کی بڑھتی مقبولیت اور اچھوتے کلام سے اتنے خائف تھے کہ ان کے نام سے عامیانہ شاعری لکھ کرمختلف جرائد کو بھجواتے، پھر وہ اس گھٹیا شاعری پرٹھٹھہ لگاتے۔ اسی بارے میں شاید ان کی خود کشی اور اس شعر میں اشارہ ہے؛
تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
(جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply