• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) وادء ی بابوسر ۔ بابو سر ٹاپ پر جانا شِنا شاعری سے ذرا تعارف ۔ گھریلو زندگی کے رنگ داریل کا فرس خان-سلمیٰ اعوان/قسط5

میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) وادء ی بابوسر ۔ بابو سر ٹاپ پر جانا شِنا شاعری سے ذرا تعارف ۔ گھریلو زندگی کے رنگ داریل کا فرس خان-سلمیٰ اعوان/قسط5

چوتھی قسط

سوزوکی ڈرائیور بڑا گرانڈیل جوان تھا۔ اس کا رنگ سرخ اور بال بھورے تھے۔ اس کی ٹوپی پر سجا تازہ پھول گویا خوش آمدید کہتا تھا۔ پتہ چلا تھا کہ اس کا تعلق داریل وادی سے ہے۔ داریل کے لوگ پھولوں اور موسیقی کے بہت دلدادہ ہیں۔
صاحب خانہ نے سامان کی لدلدائی کروائی,بیوی بچوں کو بٹھایا۔ انہیں چند دن ٹھہر کر جانا تھا۔
عاشقوں کے جذبے اگر صادق ہوں تو پھر خدا خود مسبب الاسباب بن جاتا ہے۔ گاڑی نے ابھی فرلانگ بھر فاصلہ طے نہیں کیا تھا کہ گل جان کے دونوں چھوٹے بھائی مچل اٹھے کہ وہ آگے ڈرائیور کے پاس جائیں گے۔ ماں نے شنا (مقامی زبان کا نام) میں بہتیرا ڈانٹا ڈپٹا پر ضدی لڑکے اڑیل ٹٹو کی طرح اکڑے رہے۔ مجبوراً صادق پیچھے آیا اور وہ دونوں آگے بیٹھے۔ میں نے دیکھا تھا گل جان کی چادر کے ہالے میں لپٹی سیاہ چمک دار آنکھوں میں خوشی صبح کی کرنوں کی مانند جھلملائی تھی۔
ٹیپ کا بٹن آن ہوا اور شنا کا ایک گیت فضا میں گونجا۔
مے سخ گہ ثکے لو گے جمریل گہ ثکے
اژ واجا اسما نرمہ توٹے سوری ہانس
گیت غالباً رومانی تھی۔ دونوں نے چور آنکھوں سے ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔ میں ہنسی۔ صادق بھینس کے آگے بین بجانے والی بات مت کرو۔ مطلب تو بتاؤ۔ وہ کچھ خفیف سا ہو گیا۔ میرے اصرار پر بولا۔
محبوبہ عاشق سے کہتی ہے۔ میرے چہرے کو دیکھو اور میرے چہرے پر بکھری سنہری زلفوں کو بھی دیکھو۔ آسمان گھنے بادلوں میں گھرا ہوا ہے۔ ان (بادلوں) میں مَیں تیرے لیے ایک چمکنے والا سورج ہوں۔
میں تخیّل کی بلندی پر حیرت زدہ ہو گئی تھی۔ زلفوں کو بادل اور چہرے کو آفتاب کے ساتھ تشبیہ نے شعر کے حسن کو دو چند کر دیا تھا۔
کچھ یہی حال باقی اشعار کا تھا۔

دیامر کی مختلف وادیوں ‘داریل کے عبدالحق ‘سازین کے صفدر۔ تھک کے گل اور گوہر آباد کے مولوی حسین کی خوبصورت شاعری شینا زبان کا قیمتی اثاثہ ہے۔ صادق افسوس  رہا کہ شنا چونکہ تحریری زبان نہیں۔ اسی لئے کلام سینہ بہ سینہ چلتا ہے۔ اور یوں بہت سا ضائع بھی ہو جاتا ہے۔ بیشتر شعرا پڑھے لکھے نہیں تھے۔ بھیڑ بکریاں چرانے اور کھیتوں میں ہل چلاتے چلاتے ان پر آمد ہوتی۔ ایسے خوبصورت اور اعلیٰ معیار کی نظمیں’ غزلیں وجود میں آتیں کہ لفظوں کی بندش پر سادہ لوح شاعروں کی فنکارانہ گرفت پر انسانی عقل دنگ رہ جاتی تھی۔

ہمارا سوزوکی ڈرائیور بھی بڑے اچھے شعر کہتاہے۔ صادق نے میری معلومات میں مزید اضافہ کرتے ہوئے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا۔
‘‘کوشش کریں گے کہ بابو سر میں ایک مجلس (شعر گوئی) کی نشست ہو جائے۔’’

میں نے باہر جھانکا۔ فضا پر سکون اور سناٹا تھا۔ اس سناٹے کو توڑنے والی آواز سوزکی کی کھڑر کھڑر تھی۔ سڑک کچی بھی تھی اور خراب بھی۔ ۱۹۴۸ء میں اسے بنایا گیا تھا۔ پی ڈبلیو ڈی شاید اسے اب مرمت کے قابل نہیں سمجھتی۔

وادی بابو سر کی وجہ تسمیہ بھی بڑی دلچسپ معلوم ہوئی تھی۔ سرشنا زبان میں جھیل کو کہتے ہیں۔ اس علاقے میں سڑک کی تعمیر کا جب سوال پیدا ہوا تو ایک وجیہہ سا آفیسر سروے کے لئے آیا۔ راستہ بہت دشوارگزار اور کٹھن تھا۔ اس نے جان جوکھوں میں ڈال کر علاقے کی دو جھیلوں کو عبور کیا اور آگے پہنچا۔ سیدھے سادے دیہاتی لوگوں نے اسے بابو بابو کہتے کہتے علاقے کو ہی بابو سر کہنا شروع کر دیا۔

جل نامی جگہ پر گاڑی رک گئی۔ ہم لوگوں نے ابھی گیارہ میل کا فاصلہ طے کیا تھا۔ یہاں چند دکانیں اور ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا۔ چائے نے اس ماحول میں بہت لطف دیا۔
گل جان کے دونوں بھائی اب پیچھے آگئے تھے۔ اس نے انہیں خفگی سے گھورا اور بولی۔
‘‘تم لوگوں نے کیا تماشا بنا رکھا ہے؟ چلو اپنی جگہ پر جاؤ’’۔
بچے اب پھر مچل گئے کہ نہیں ہم تو اب یہیں بیٹھیں گے۔ گل جان کے جذبات کا بھلا مجھ سے بڑھ کر کسے اندازہ ہو سکتا تھا۔ میں نے فوراً پیشکش کر دی۔
‘‘مت ڈانٹو انہیں۔ بچے ہیں۔ میں آگے چلی جاتی ہوں’’۔

ہولی ہو کس کے پھولوں کی طرح مسکراتے چہرے والا فرس خان اپنی ذات کی پرتوں میں کیسے کیسے غم چھپائے ہوئے تھا۔ اس کا اندازہ مجھے اس سے باتیں کرنے کے بعد ہوا۔ انسان کا اندر بھی سمندر کی تہہ میں پڑی ہوئی بند سیپی کی طرح ہے۔ جسے حاصل کرنے کے لئے نیچے تہوں میں غوطہ خوری کرنا پڑی ہے۔

وادی داریل کا فرس خان ستمبر ۱۹۸۱ء کی ایک سہانی صبح چھ دن گھر پر گزارنے کے بعد چلاس جانے کے لئے نکلا تھا۔ وہ ان دنوں چلاس میں ڈرائیونگ سیکھ رہا تھا۔ ماں نے اپنے کھردرے ہاتھوں میں اس کا سرتھام کر کہا تھا۔
‘‘جلدی چکر لگانا۔ پتہ نہیں دل کیوں گھبراتا رہتا ہے؟۔ وہ ہنسا ماں کے ہاتھ چومتے ہوئے بولا۔ بوڑھی ہو گئی ہے اب تو۔

اپنے ٹھکانے پر پہنچنے سے پہلے اس نے اپنے آپ سے کہا کہ وہ آج کی رات تو اپنے جگری یار منان کے پاس گوہر آباد گزارے گا۔ لیکن ابھی گوہر آبا دکے گاؤں میں داخل ہی ہوا تھا کہ اس قیامت کے بارے میں جان کر بے کل ہو گیا۔ بھاگا بگٹٹ بھاگا۔ جو سواری ملی اسے پکڑا۔ وہی سڑک جس پر ابھی چند گھنٹے قبل گزر کر آیا تھا۔ بند تھی۔
وادی داریل میں زلزلہ آیا تھا۔ ایسا ہولناک کہ وادی سمندر میں کشتی کی طرح ہچکولے کھاتی تھی۔ پہاڑوں کی چوٹیاں چکنا چور ہو کر زمین بوس ہوئیں اور اپنے ساتھ ہزاروں افراد ‘ جانوروں کو بھی لے ڈوبیں۔
جب امدادی پارٹیوں نے آکر جانے کا راستہ بنایا تب اس نے دیکھا اور جانا ۔وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ گھراور گھر کے مکین ‘سبز آنکھوں والی منگیتر اور اس کا خاندان ‘ڈھور ڈنگر‘زمین ‘درخت کچھ بھی نہیں تھا۔

اس نے خون رستی آنکھوں کو پونچھا اور واپس لوٹ آیا۔ وہ کھاتا پیتا ہے۔ ہنستا مسکراتا ہے۔ اچھے کپڑے بھی پہنتا ہے۔ پیسے بھی کما تا ہے اور جمع کرتا ہے۔ پر جیسے ٹوٹے ٹوٹے ہو گیا ہو اور سمجھ نہ پاتا ہو کہ ان ٹکڑوں کو کیسے جوڑے کہ وہ پہلے والا فرس خان بن جائے۔
میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ کھڑکی سے باہر تھک کوٹ کی خوبصورت وادی کے حسین نظارے اداسی کے سایوں میں لپٹے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔

تھک کوٹ شینا زبان میں آباد جگہ کو کہتے ہیں۔ یہاں گھروں کی بھی بہتات تھی اور خود رو درختوں کی بھی۔ چھ میل آگے لوشی کی وادی تھی۔ یہاں صادق کا گرمائی گھر اور تھوڑی سی زمین تھی۔ لوشی قدرتی جنگلات کی وجہ سے شہرت رکھتی ہے۔ کھیتی باڑی کے قابل زمین البتہ کم ہے۔

صادق چاہتا تھا کہ سب لوگ ان کے گھر تھوڑی دیر آرام کریں۔ چاہتی تو میں بھی یہی تھی کہ لوشی کے گھر دیکھوں۔ جنگلی جانور یہاں بہت زیادہ ہیں۔ شاید کسی کی جھلک مجھے بھی نظر آجائے۔ لیکن نہ تو صادق اپنی خواہش کو زبان دے سکا اور نہ ہی میں۔ گاڑی آگے چل پڑی تھی۔ تین میل آگے بابو سر کی وادی تھی۔

تقریباً تیس کلو میٹر کے اس سفر میں سڑک کی حالت زار‘ راستے کی دشواری ‘سوزوکی کی ضعیفی و ناداری اور راستے کی وادیوں کے حسن و جمال کے تحیر نے مجھے تھور ہیر ڈاہل کی ان مہموں کی یاد دلائی جو اس نے ‘‘پولی نیسا’’ کے جزائر سر کرنے کے لئے کی تھیں۔

بابو سر کی وادی میں داخلے کے وقت ڈھائی بج رہے تھے۔ وادی کا حسن اس کنواری حسین دوشیزہ کی مانند تھا۔ جس پر نگاہ ڈالنے سے اپنی آنکھوں کی غلاظت کا احساس ہونے لگتا ہے۔ آدھ فرلانگ چوڑی اور ڈیڑھ فرلانگ لمبی اس وادی پر شام کے سائے سہ پہر کو ہی قبضہ کئے بیٹھے تھے۔ وادی میں رونق تھی۔ مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ اکاّ دکا خستہ حال غیر ملکی بھی نظر آتے تھے۔ چھوٹا سا بازار گزر گیا۔ سوزوکی ایک گھر کے سامنے رک گئی۔ گل جان کے چچا کا گھر۔

انجن بند ہوتے ہی چھوٹے چھوٹے بچے بچیاں گاڑی کے اردگرد یوں اکٹھے ہو گئے جیسے پولیس کسی چور ڈاکو کے گرد اپنا گھیرا تنگ کر لیتی ہے کہ مبادا وہ کہیں بھاگ نہ نکلے۔

بڑے سے چوبی دروازے پر دو عورتوں نے استقبال کیا۔ ایک جوان اور دوسری بوڑھی تھی۔ نوجوان عورت کے سر پر رکھی ٹوپی نظر نہیں آتی تھی۔ لیکن خلافِ رواج اُس کا صاف ستھرا لباس دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ ٹوپی خوبصورت کڑھت سے مزین ہو گی۔ گرم سرخ چادر کو یوں اوڑھا گیا تھا کہ دائیں اور بائیں پلو سر پر جا کر جھالریں سی بن گئے تھے۔ اس کی سرخی مائل رنگت چادر کے عکس سے کچھ اور بھی سرخ ہو گئی تھی۔

دونوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔ گل جان کی ماں نے تعارف کروایا تو محبت بھری مسکراہٹ ان کے ہونٹوں اور آنکھوں میں پھیل گئی۔
کمرے میں اونی دری بچھی تھی۔ دری کا رنگ و روپ سب مٹ مٹا چکا تھا۔ گھر سر سے پیر تک چوبی پیرہن پہنے ہوئے تھا۔ دیواریں چھت فرش سبھی بتا رہے تھے کہ لکڑی یہاں کتنی ارزاں ہے۔ انگنائی کی دیواریں بھی پتھروں کی بجائے لکڑی کے بڑے بڑے شہتیروں کو اوپر نیچے رکھ کر بنائی گئی تھیں۔

چائے نمکین تھی۔ ساتھ میں میٹھے بسکٹ تھے۔ چائے اور ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر میں صادق اور فرس خان کے ہمراہ بابو سر کا چکر لگانے کے لیے تیار تھی۔ بوڑھی عورت نے ہنستی آنکھوں سے کچھ کہا تھا۔ صادق فوراً ترجمان بن گیا۔
‘‘پوچھتی ہیں کہ رات کو کیا کھائیں گے؟’’
‘‘جو آپ کھلا دیں’’۔ میں نے صادق کی طرف دیکھا۔
ہم دونوں ہنس پڑی تھیں۔

اچانک گل جان اٹھی۔ اس نے چادر ٹھیک کی اور ماں سے کچھ کہنے لگی۔ ماں نے ابروؤں کو اوپر چڑھاتے ہوئے خفگی سے گھورُا۔ اس کے تیز لہجے میں ڈانٹ بھی محسوس ہوتی تھی۔ معمر عورت گو خاموش تھی لیکن سینے پر ہاتھ باندھے خط مستقیم کی طرح اکڑی کھڑی چہرے پر ابھرتے تاثرات کے ساتھ اس سارے عمل میں حصہ لے رہی تھی۔
عقدہ کھلا کہ گل جان ہمارے ساتھ جانا چاہتی ہے۔ ماں روکتی تھی۔ لیکن باپ کی عدم موجودگی میں وہ ماں کو خاطر میں نہیں لا رہی تھی۔ اور وہ ساتھ جانے میں کامیاب ہوئی۔ نوجوان عورت کی اسے شہہ حاصل ہوئی تھی۔ نوجوان عورت صادق کی حقیقی خالہ اور گل جان کی چچی تھیں۔

جس وقت گھر سے نکلے اس وقت گھڑی تین بجا رہی تھی۔ دھوپ پہاڑوں کی چوٹیوں پر تھی۔ وادی پر سائے کسی خوبصورت نازنین کے چہرے پر پڑی نقاب کی طرح تھے۔ بازار چھوٹا سا تھا۔ ذرا اُوپر چند ضلعی دفاتر کی عمارات نظر آتی تھیں۔

وادی میں کھڑے ہو کر اوپر دیکھا جائے تو بابو سر ٹاپ نظر آتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دید کی اس کشمکش میں سر چکرانے لگتا ہے اور گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے۔ پہاڑ مٹی کے ہیں اور ان پر گھنے جنگلات ہیں۔ جن میں صنوبر دیودار‘پڑتل اور کائل کے درختوں کی بہتات ہے۔

فرس خان کی سوزوکی بھاگتی جا رہی تھی۔ وادی میں جا بجا کاغذی اخروٹوں کے درخت تو نظر آتے تھے۔ لیکن سیب اور خوبانی کے پیڑ نہیں تھے۔
گل جان بڑی جیالی لڑکی تھی۔ اس وقت چادر سے منہ ڈھانپے باہر دیکھ رہی  تھی۔
گندم کے کھیتوں میں پودوں کی اونچائی ڈھائی تین بالشت سے زیادہ نہ تھی۔ ہریالی نمایاں تھی۔ کٹائی کا عمل کہیں ستمبر میں جا کر ہونا تھا۔
گندم کے کھیت پیچھے رہ گئے تھے۔ تھک نالے کا شور کانوں کے پردے پھاڑ رہا تھا۔ راستہ زگ زیگ کی طرح بل کھاتا تھا۔

ہم لوگ بابو سر ٹاپ جا رہے تھے۔ ۱۳۶۹۴ فٹ بلندی پر صادق مجھے گٹی داس کا میدان بھی دکھانا چاہتا تھا جو ٹاپ سے تقریباً تین فرلانگ اترائی پر تھا۔

ایسا خوفناک راستہ سچی بات ہے میں دم سادھے بیٹھی تھی۔ تیسرے کلمے کے ورد نے میری زبان خشک کر دی تھی۔ گل جان ہنستی تھی۔ پہاڑوں کی بیٹی جس کے لئے یہ سب ایک معمول کی طرح تھا۔
ٹاپ پر جیب رک گئی۔ ہمارے سامنے کوئی ڈیڑھ پونے دو سو گز لمبا گلیشیئر تھا۔ برف کا پہاڑ۔ میں اس پہاڑ پر کھڑی تھی۔ میں اسے چھو سکتی تھی۔ اسے دونوں ہاتھوں سے تھام سکتی تھی۔ عجیب سا تحیر ‘ایک انوکھی اور نرالی چیز دیکھنے کی خوشی کے احساس نے مل جل کر مجھے ایک ایسی مسرت سے ہمکنار کیا تھا جو کسی چھوٹے بچے کو پہلی بار کھلونا ہاتھ میں پکڑنے سے ہوتی ہے۔

چوٹی کے پہاڑ شکل و صورت میں انڈے کی مانند تھے۔ اب اترائی شروع ہوئی۔ اترائی چڑھائی سے زیادہ خطرناک تھی۔ راستہ ڈھلانی تھا۔ لیکن فرس خان بھی ماہر ڈرائیور تھا۔ اس کا بس چلتا تو کاغان کی وادیوں تک جا پہنچتا۔

‘‘ گٹی داس کا میدان۔ گل جان کہتی تھی بہار کے اوائل میں اس گھاس سے خوشبو نکلتی ہے۔’’

ہم سب پاس پاس کھڑے تھے۔ چپ چاپ’ لیکن اتنا میں جانتی تھی کہ میں اگر اس خوبصورت میدان میں کھلے رنگ برنگے پھولوں کے حسن سے اپنی عشق دنیا داری میں لپٹی روح کو عشق حقیقی میں بدلنے کی تگ و دو میں مصروف تھی’ وہیں صادق عشق مجازی میں جذب ہو رہا تھا۔ حسن فطرت سے آنکھیں سینکنے کی اسے بھلا کیا ضرورت تھی۔
گل جان کا چہرہ حشر سامانیوں کے ساتھ اس کے سامنے تھے۔
فرس خان نے مغرب کی جانب انگشت شہادت سے اشارہ کرتے ہوئے کہا ‘‘وہ دیکھے’’۔
میں نے دور بین آنکھوں سے لگائی اور سبزہ زاروں پر دوڑتا پھرتا ایک خوبصورت سا جانور میری بصارت کی زد میں آیا۔ اسے مقامی زبان میں توشوں کہتے ہیں۔ یہ صرف صبح اور شام اپنا پیٹ بھرنے کے لیے نکلتا ہے۔

واپسی میں فرس خان نے مجھے زیرے کے پودے دکھائے۔ یہ شکل صورت میں ہمارے ہاں کے برسین یا چٹالے کے پودے کی مانند ہوتا ہے۔ سفید یا کالے تلوں کے بوٹوں سے جس طرح تل گرتے ہیں بعینٰہ اس میں سے زیرہ گرتا ہے۔
ڈھلانی پہاڑوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ جیپ ایک بار پھر رک گئی۔ صادق نے بیری نما درختوں کے جھنڈ دکھاتے ہوئے بتایا۔

یہ چلغوزے کے درخت ہیں۔ پھل کو توڑنا بڑا دلچسپ عمل ہے۔ لوگ ٹولیوں کی صورت میں پہاڑوں پر آتے ہیں۔ دنوں یہاں رہتے ہیں۔ توڑتے وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہاتھوں کو سریش جیسا مادہ لگ جاتاہے۔ جو چھٹائے نہیں چھٹتا۔ آگ کے الاؤ دہکائے جاتے ہیں۔ توڑے ہوئے خول اس میں ڈالنے سے ان کے منہ کھل جاتے ہیں۔ چھن چھن کرتے ہوئے جب وہ چادروں پر گرتے ہیں۔ تب سچی بات ہے بہت لطف آتا ہے۔ رت جگا ہوتا ہے۔ رقص اور گیت چلتے ہیں۔

اس وقت شام گہری ہو رہی تھی۔ گھنے جنگلات کا سلسلہ اندر ہی اندر پھیلتا چلا جاتا تھا۔ چشموں کا شور فضا کو پر اسرار بنا رہا تھا۔ باوجود یکہ شیر ‘برفانی چیتوں’ ریچھوں اور مارخوروں کا احساس رگ و پے میں خوف کی بجلیاں سی دوڑا رہا تھا۔ پھر بھی میں چاہتی تھی کوئی من چلا شیر یا چیتا جیپ کے آگے آجائے اور نہیں تو مرغ زریں ہی جھلک دکھا دے۔

وادی کے پولو گراؤنڈ میں لڑکے والی کھیل کر اب گھروں کو واپس جا رہے تھے۔ سردی خاصی بڑھ گئی تھی۔ مہم جوئی کے شوق میں سیاحت کے محاذ پر نکلتے ہوئے میں نے مختلف جگہوں کے موسم کا خیال نہیں کیا تھا۔ تن پر ایک قمیص اور گل جان کی چادر ساڑھے تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر سردی کی لہروں کو روکنے میں بہت بودی ثابت ہوئی تھیں۔ میرے شانوں کے اکڑاؤ کی کیفیت کچھ جولا ہے کے جنوائی کی لاش جیسی تھی جو غریب جوانمردی دکھانے کے شوق میں پوہ ماگھ کی ٹھٹھرتی رات میں کوٹھے پر جا سویا تھا۔ ٹانگیں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کسی بیکار شے کو گھسیٹا جا رہا ہو۔ اور ناک کی پھنگی تو جیسے کہیں راستے میں گرگرا لگتی تھی۔

دہلیز میں قدم رکھتے ہی میرا دل چاہا کہ میں بھی اس دیو کی طرح جو گھر میں داخل ہوتے وقت ‘‘آدم بو آدم بو’’ کی صدائیں لگاتا ہے۔ روٹی روٹی کی آواز لگاؤں۔ لیکن افسوس تو یہ تھا کہ میں دیو نہیں انسان تھی۔ پردیسی انسان جو روٹی کے لئے دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔

کمرے کے بیچوں بیچ آگ جلتی تھی۔ چولہے پر روٹیاں پکتی تھیں اور اودے اودے دھوئیں کے بادلوں نے چھت پر قبضہ جما رکھا تھا۔ میں نے آگ کے پاس بیٹھتے ہی اپنے دونوں ہاتھ جلتی لکڑیوں پر یوں پھیلائے جیسے میں انہیں بھی آگ میں جھونک دینا چاہتی ہوں۔ بڑی سی ہنڈیا چولہے کے پاس پڑی تھی۔ ڈھکنے پر رکھی ڈوئی کو جو آمیزہ چمٹا ہوا تھا وہ ہنڈیا کے اندر پکے ہوئے سالن کی کچھ کچھ نشاندہی کر رہا تھا۔ یہ بجھیا تھی۔ لکڑی کے چوکور ڈبے میں گندھے آٹے سے معمر عورت پیڑے بناتی تھی۔

بُھوک میری آنکھوں میں ندیدہ پن لے کر اتری ہوئی تھی۔ بس نہ چلتا تھا کہ کیونکر جھپٹا مار کر ساری روٹیاں اپنے آگے کر لوں۔ بھوک کیسی خوفناک شے ہے اس کا حقیقی انکشاف مجھ پر اس شب ہوا تھا۔
گل جان ہنستے ہوئے میرے پاس آئی اور بولی۔
‘‘چنی ماں (خالہ) نے مردوں کو دیس   نکالا  دے دیا تھا۔ بیچارے شام سے گھر میں نہیں داخل ہوئے۔ میں انہیں کہہ کر آئی ہوں کہ مہمان خاتون کون سا پردہ کرتی ہیں؟’’
مجھے خفت محسوس ہوئی کہ صرف میری وجہ سے بیچارے شام کے ان پر مسرت لمحوں سے محروم ہو رہے ہیں۔ میں نے فوراً کہا۔
‘‘گل جان انہیں کہو کہ اندر آئیں۔’’
روغنی ہنڈیا کے پاس پڑی پتیلی کا ڈھکن اٹھا کر گل جان نے اندر جھانکا۔ ناگواری سے نتھنے پھلائے اور بولی۔
‘‘چنی ماں نے کیا ہند (پالک جیسی سبزی جو ذائقے میں قدرے کڑوی ہوتی ہے) پکا لیا ہے کون کھائے گا اسے۔’’
ماں نے غالبا اسے ڈانٹ دی تبھی وہ اٹھ گئی تھی۔

دو مرد اندر آئے۔ ایک نے گرم شوقہ (چوغہ) پہن رکھا تھا۔ دوسرے نے چادر کی بکل ماری ہوئی تھی۔ ان کی شلواروں کے پائنچے کھلے کھلے اور پاؤں میں بوٹ تھے۔
میں گل جان کے کہنے پر وہاں آکر بیٹھ گئی تھی۔ جہاں رضائیاں تہ در تہ رکھی ہوئی تھیں۔ گل جان کھانا لے کر آئی۔ دو پلیٹیں ایک میں آلو گوشت کا شوربہ اور دوسری میں ہند کی بھجیا۔ روٹیاں موٹی موٹی تھیں۔

میں نے سر جھکا کر کھانا شروع کیا اور تب اسے اوپر اٹھایا جب گل جان نے قریب آکر کہا۔
چنی ماں (خالہ) کہتی ہیں ہند کو مسکہ (تازہ گھی) کا تڑکا لگا دیں۔ ‘‘ارے نہیں میں نے آلو اور شوربے میں نوالہ لتھیڑتے ہوئے کہا۔ اس وقت میرا دل کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ سوائے کھانے کے۔ آلو نہایت لذیذ تھے۔ بابو سر کے آلو اپنے ذائقے کے اعتبار سے بہت لذت رکھتے ہیں۔ ہند کو میں نے چکھا ضرور لیکن اس کی کڑواہٹ نے مجھے اس کی طرف ہاتھ بڑھانے سے روک دیا تھا۔
گل جان کی سب سے چھوٹی چچی پشمہ بیگم جو قریب ہی رہتی تھیں ملنے آئیں۔ اس نے فرن (پٹو کی لمبی قمیض) جس کے دامن اور گلے پر رنگارنگ دھاگوں کی کڑھائی لالٹین کی روشنی میں بھی اپنے رنگوں کی نمائش کر رہی تھی پہن رکھی تھی۔ اس کی چمک دار نیلگوں غلافی آنکھوں میں عجیب سا سحر تھا۔ بولتی آنکھیں’ بولتے ہونٹ’ بولتا چہرہ اداؤں کے بانکپن سے شکار کرنے والی عورت ۔پشمہ بیگم ‘میں نے ازحد دلچسپی اور حیرت سے اس کردار کو دیکھا تھا۔

گھر کے مرد کھانا کھا رہے تھے۔ بڑی سی پرات کے گرد بیٹھے تھے۔ بوٹیاں ہاتھوں میں تھیں اور روٹی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں شوربے میں ڈوبی ہوئی تھی۔
کھانے کا یہ عمل ایک طرح اخوت و محبت کی بہترین مثال تھی۔ لیکن مجھے تھوڑی سی گھن آئی۔ یہ یقینا نئی روشنی نے میرے اندر پیدا کی تھی جو جھوٹ سے جراثیم اور بیماریاں پھیلنے کا سبق دیتی ہے۔
گل جان کی چھوٹی بہن کو بخار تھا۔ چولہے پر جوشاندہ سا پک رہا تھا۔ معلوم ہوا تھا کہ یہاں ڈاکٹری دوائیوں کا رواج نہیں۔ بس جڑی بوٹیوں سے کام چلتا ہے۔ آرٹی میشا ایک بوٹی موسمی بخار کے لئے اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔

گل جان نے چائے کا پیالہ میرے ہاتھوں میں پکڑایا۔ گھونٹ گھونٹ چائے پیتے ہوئے دفعتاً مجھے محسوس ہوا تھا جیسے میں اسی ماحول کا ایک حصہ ہوں۔ زمانوں سے یہاں رہتی چلی آرہی ہوں۔ماضی سے میرا کوئی ناطہ نہیں۔ لیکن ان محسوسات کی عمر بس چند لمحوں کی ہی تھی۔

چائے کا خالی پیالہ دری پر رکھنے کے بعد میں نے پشت رضائیوں کے ساتھ ٹکائی۔ چادر میں اپنے آپ کو لپیٹا۔ پتہ نہیں کب مجھے نیند آگئی۔ یقینا گل جان نے رضائی میرے اوپر ڈالی ہو گی۔ تکیہ بھی اس نے رکھا ہو گا۔

جب میری آنکھ کھلی۔ لالٹین کی لو مدھم تھی۔ آگ یقینا بجھی ہوئی تھی۔ کمرے میں تیرتی پھرتی ٹھنڈک اپنے آپ کا احساس دلا رہی تھی۔ رات کا پتہ نہیں کونسا پہر تھا۔ لیکن چند لمحوں بعد میری پوری کھلی آنکھوں کی کیفیت نے مجھے یہ بتایا کہ صبح قریب ہے۔ کسلمندی یا بے خوابی کا ہلکا سا اثر بھی مجھے خودپر محسوس نہیں ہوتا تھا۔ میں نے پوری نیند لی تھی۔
اچانک مجھے گھبراہٹ سی ہوئی۔ ایک نیا سفر پھر میرے سامنے تھا۔ فرس خان سے یہ طے ہوا تھا کہ وہ مجھے علی الصبح بابو سر سے لے کر چلے گا۔ چلاس سے میں کسی بھی ویگن کے ذریعے گلگت جا سکتی ہوں۔

باہر چشموں کا شور تھا۔ اس شور کو سنتے سنتے مجھے اذان کی آواز سنائی دی۔ یہ مانوس آواز جس کی موجودگی میں مختلف زبانوں ‘اجنبی جگہوں ‘مانوس لوگوں اور فاصلوں کی دوریاں سبھی مٹ جاتی ہیں۔
میں نماز کے لئے اٹھنا چاہتی تھی۔ لیکن سب لوگ ابھی خراٹے لے رہے تھے۔ میں دم سادھے پڑی رہی۔ تھوڑی دیر بعد نی سانے آگ جلائی۔ میں نے رضائی پرے پھینکی۔ چشمے کا پانی ٹھنڈا یخ تھا۔ وضو کیا’ نماز پڑھی’ دعائے خیر مانگی۔ چائے کا پیالہ ابھی ہاتھوں میں ہی تھا کہ فرس خان اپنی جیپ کے ساتھ باہر آگیا تھا۔ صادق مجھے بلانے آیا۔ سوئی سوئی گل جان کے ماتھے پر میں نے بوسہ دیا۔ اس کی آنکھیں کھلیں۔ بازو میرے گلے میں آگئے۔ اس کی آنکھوں میں جوانی کی نیند کی یلغار تھی۔
‘‘اللہ تمہیں ڈھیر سارے سکھ دے۔’’

صادق کو خدا حافظ کہتے ہوئے میں نے اس کے لئے ڈھیر ساری نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور اسے لاہور آنے کی دعوت دی۔ گھر کی عورتوں نے مجھے گلے سے لگایا اور الوداع کہی۔
دھیرے دھیرے میں ایک ایسی دنیا سے دور ہوتی جا رہی تھی۔ جہاں کے پہاڑ جنگلات سے بھرے ہوئے ہیں۔ جہاں سلاجیت’ زمرد’ نیلم ’ ابرق جیسی قیمتی اشیاء پائی جاتی ہیں۔ جہاں کے لوگ قدامت پسند اور اپنی روایت پر مرمٹنے والے ہیں۔ جہاں خاندان در خاندان دشمنوں کے سلسلے چلتے ہیں۔ جہاں کے لوگ قول کے پکے اور سچے مسلمان ہیں۔
گلگت کے لئے ویگن میں بیٹھنے سے قبل میں نے فرس خان کے کاندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔ میرے لہجے میں ممتا جیسی شفقت امنڈ آئی تھی۔ جب میں نے کہا تھا۔

‘‘فرس خان زندگی نے تمہیں دُکھ دئیے ہیں تو اس کے پاس تمہارے لئے خوشیاں بھی ہیں۔ دکھوں کا بوجھ تو تم نے اٹھا لیا ہے لیکن خوشیوں کا حصہ وصول کرنے سے کیوں گھبراتے ہو؟ شادی کرو۔ گھر بساؤ۔ زندگی کی ہما ہمی میں کھو جاؤ۔
‘‘ہاں کبھی نیچے آؤ تو میرے گھر ضرور آنا۔’’

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply