درندے(نظم)

سنا ہے کہ
درندوں کے نگر میں بھی
کوئی دستور ہوتا ہے
انہیں جب بھوک لگتی ہے
وہ تب جا کر کسی کو پھر ستاتے ہیں
کسی کی جان لیتے ہیں کسی کو قتل کرتے ہیں
مگر جب پیٹ بھر جائے
یا پھر گر بھوک نا ہو تو
وہ بالکل شانت رہتے ہیں
کسی کو کچھ نہیں کہتے

مگر دیکھو ۔۔۔۔
اسی دنیا میں سنتے ہیں
ہے ایسا اک درندہ بھی
جسے انسان کہتے ہیں
یہ کہنے کو تو انساں ہیں
مگر ظالم درندے ہیں
کسی کی جان لینے میں ذرا تامل نہیں کرتے
بھری دنیا میں چاہے سب سسکتے ہوں تڑپتے ہوں بلکتے ہوں
انہیں معلوم ہے اتنا
کہ تسکینِ ہوس سب سے ضروری ہے۔۔

ہوس لے کر یہ سینوں میں
محبت کے یہ نغمے گنگناتے ہیں
یہ خودغرضی میں جیتے ہیں
انہیں احساس ہی کب ہے
کسی کی جان لینے کو یہ اپنا حق سمجھتے ہیں
یا پھر شاید درندے ان سے بہتر ہوں
انہیں گر بھوک نا ہو تو
وہ بالکل شانت رہتے ہیں

مگر انسان ایسا اک درندہ ہے جو بھوکا نہ بھی ہو چاہے
کسی کی جان لینے سے کسی کو قتل کرنے سے
کسی کو دیکھ کے بسمل
اسے تسکین ملتی ہے
یہ کہتا ہے میں افضل ہوں
یہ کہتا ہے کہ دنیا میں مرا ہمسر نہیں کوئی
میں حیراں ہوں اسے یہ زعم کیسا ہے
جسے مطلب نہیں معلوم انساں کا
اسے دعوی ہے انساں ہوں۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حسیں جذبوں کے
لبادوں میں
ہوس کو پال رکھا ہے
سبھی انسانی قدروں کو
یہاں لالچ نے گھیرا ہے
یہ مانا کہ سبھی حیوان انسانوں سے افضل تو نہیں لیکن
مگر جب دیکھتا ہوں میں تو لگتا ہے
کہ اس انسان سے حیوان بہتر ہے
سنا حیوان بہتر ہے۔۔
چلو اب مان بھی لو سب
کہ اب حیوان بہتر ہے !

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply