نقوش پائے رفتگاں…..تبصرہ ء کتب۔۔۔ احمد رضوان

ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی امسال تین کتب زیورِ طبع سے آراستہ ہوئی ہیں۔ نوے برس کی عمر میں اگر انسان کا تخلیقی وفور اس قدر  توانا  ،  بھرپور  و متنوع ہو تو انسان  کو اپنی خوش نصیبی پر نازاں ہونا چاہئے۔ پہلی کتاب “روبرو غالب”  جس میں انہوں نے غالب کے  وہ اشعار  جو تفہیم کے درجہء عالی و غالی کے محتاج ہیں ، انہیں اپنی نظموں  میں سمو کر  اسے  قاری کے لیے آسان فہم بنانے کی کوشش کی ہے۔دوسری کتاب بھی نظموں پر مشتمل ہے جس کا نام ” مائی چھبیلاں اور دوسری نظمیں “ہے۔تیسری کتاب “نقوش پائے رفتگاں” ان کی اپنے اساتذہ و ہم نشینوں کی بابت  ہے جن میں  ستیہ پال آنند کچھ دیکھے ،جانے ،جانچے حالات و واقعات کی روشنی میں ان شخصیات کے متعلق قلم کشا ہیں ۔ ان قد آور  ادبی و علمی شخصیات میں  منشی تلوک چند محروم ، جوش ملسیانی، ڈاکٹر تھامس گرے، سروجنی نائیڈو، راجندر سنگھ بیدی، میلوڈی کوئین شمشاد بیگم ، چمن نہال ، ڈاکٹر وزیر آغا ، اختر الایمان، ن۔م۔ راشد اور ساقی فاروقی شامل ہیں ۔  یہ احوال نہ صرف ایک طرف تاریخی حوالوں کا منبع ہیں بلکہ ہمیں ان شخصیات کی ذاتی و ادبی زندگی کی جھلک بھی دکھلاتے ہیں ۔ سات دہائیوں سے ذیادہ عرصہ پر محیط ان کے ادبی سفر میں ایسے بے شمار واقعات اور سنگ میل ہیں جن سے معاصر ادب کو سمجھنے میں مدد حاصل ہوتی ہے ۔ راقم کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس کتاب کی تدوین و ترتیب کا  کام ڈاکٹر صاحب نے مجھے تفویض کیا ۔ کتاب کا دیباچہ بھی لکھنے کا حکم دیا ۔میں سمجھتا ہوں کہ میرے ادبی کیریر کے آغاز میں اتنے نامور اور ادب پرور استاد کی یوں شفقت مل جانا کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ۔ دیباچہ میں جو چند گذارشات پیش کیں اس کی تلخیص پیش خدمت ہے۔

ستیہ پال آننداپنی دھرتی اور مٹی کے عشق میں پور پور ڈوبے ہوئے ہیں۔آج بھی اپنے آپ کو دھرتی کا بیٹا کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، وہی مٹی جہاں پر ان کی نال گڑی تھی۔ہندوستان ہجرت تاریخ کا ایک جبر تھا مگر ان کا دل آج بھی کوٹ سارنگ ، نوشہرہ اور راولپنڈی  کی گلیوں، چوباروں،ماڑیوں، چوکھٹوں اور کندچتر  کے لیے مچلتا اور ہمکتا ہے جہاں ان کے پرکھوں کی نشانیاں آج بھی موجود ہیں۔ دیس سے ضرور نکلے مگر ان کے اندر سےدیس کبھی نہیں نکلا۔اپنے ماضی کو دہرانا یقینا بہت حوصلہ آزمائی کا کام ہے۔مرزا نوشہ یاد ماضی کے عذاب سے واقف تھے ۔ماضی کے ذکر کرنے کو اک تیر سینے میں مارنے کے مترادف جان کر گریہ زار ہو گئے تھے۔ماضی کی مگر یہ خوبصورتی ہے کہ ہر گزری بات، گھات ،ملاقات کسی جگنو کی طرح ذہن میں روشنی بکھیر دیتی ہے اور انسان مایوسیوں ،پریشانیوں کی اتھاہ گہرائیوں اور اندھیروں سے باہر نکل آتا ہے۔

ڈاکٹر ستیہ پال آنند سے تعلق ایک مشفق استاد اور نوآموز ادب کے طالبعلم کا ہی نہیں ہے بلکہ وہ علم و ادب کا ایک ایسا سرچشمہ ہیں جس سے فیضیابی کسی سعادت سے کم نہیں۔ سات د ہائیوں سے پرورش لوح وقلم میں مصروف شاعرِ ہفت زبان اور ہشت بیان  نثر نگارستیہ پال آنند ایک ایسی آب جُو ہیں جہاں سے سیراب ہونا ہر ادب پرور انسان کی خواہش ہوتی ہے۔انسان جب اپنا ادبی سفر شروع کرتا ہے تو اسے کسی سنگ میل کو ذہن میں رکھنا ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی بہت اہمیت رکھتی ہے کہ زادِراہ اور توشہ میں سفر کی صعوبتوں کو جھیلنے کے لئے تیاری کا کیا انتظام اور اہتمام ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بچپن سے گھر میں فارسی اور اردو کی کتابوں کی موجودگی نے ان پر فصاحت و بلاغت کے در وا کر دیے تھے۔”حدائق البلاغت” جو عروض وبحور کے علم پر مبنی کتاب ہے، کہتے ہیں میں نے بچپن میں ہی اس کو گھوٹ کر پی لیا تھا اور اس شعری اساس کی بنیاد پر ہی آگے چل کر شاندارادبی عمارت کی تعمیر ممکن ہوئی۔مطالعہ کے آغاز پر مشاہیر اور کلاسیکی ادب کی طرف دھیان جاتا ہے کہ ان اساتذہ کے کام سے سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے ۔پھر اپنے معاصرین اور سینئر لوگ جو وقتِ موجودہ میں اپنی تخلیقات پیش کر رہے ہوتے ہیں ہیں، ان کو پڑھتا ہے اور زمانے کی رفتار سے چلنے کے لوازمات پر غور و فکر کرتا ہے پھر اپنی سوچ سمجھ کے مطابق اپنی پسند کا راستہ چلتا ہے۔بچپن سے ہی ستیہ پال آنند نے غزل کی محدودات کا اندازہ لگاتے ہوئے صنفِ غزل کی بجائے نظم کا انتخاب کیا جوان کی وقت سے آگے کی سوچ کا غماز ہے۔
آنے والے دور میں جب آپ ایک مستند شناخت بنا لیتے ہیں تومتاخرین نہ صرف آپ کا کلام دیکھتے ہیں بلکہ اپنا کام بھی آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں یوں ایک ادیب ایک وقت میں تین سے چار نسلوں کا ادب ساتھ ساتھ لے کر آگے بڑھ رہا ہوتا ہے۔کچھ کتابیں وقت کی گرد تلے دب جاتی ہیں اور اپنا سراغ کھو دیتی ہیں جبکہ کچھ کتابیں ہر دور میں پڑھنے والے کو اپنی طرف نہ صرف متوجہ کرتی ہیں بلکہ قاری کی زندگی کا ایک اہم حصہ بن جاتی ہیں۔   ادب پروری اور انسانیت پر یقین کامل رکھنے والے ستیہ پال آنند کی گوناگوں اور ہمہ جہت شخصیت کے مختلف روپ سروپ ایک ایسے گھنے شجر سایہ دار کی مانند ہے جس کی چھتر چھایا میں اپنے پرائے واقف اجنبی دوست دشمن سب مستفید ہوتے ہیں۔
خود نوشت، سوانح عمری، سر گذشت میں سب سے بڑی خوبی یہی متصور ہوتی ہے کہ اس کا انداز تصویر کشی جیسا ہو ۔قاری یہ محسوس کرے کہ وہ  خود وہاں موجود تھا ۔ ڈاکٹر صاحب کا  وسعت ِ خیال، پروازِ فکر،مضامین کی تازگی اور طرزِ بیان  یقیناَ   قابل تحسین و توصیف ہے۔ستیہ پال آنند کی  کتاب “صدائے پائے رفتگان “یوں منفرد ہے کہ اس میں انہوں نے اپنی ان یادداشتوں کو ہمارے سامنے رکھا ہے جس میں انہوں نے اپنے ادبی سفر میں ملنے والے چیدہ چیدہ احباب کا تذکرہ کیا ہے جن سے انہوں نے کچھ سیکھا یا ان کے ساتھ ادبی مباحث میں مصروف رہے۔ایک طرف جہاں ایام نوجوانی میں منشی تلوک چند محروم کے آگے زانوئے تلمذتہہ کرنے کا ذکر خیر ہے وہیں ڈاکٹر وزیر آغا کے ساتھ بذریعہ خطوط ٹیلیفون اور بالمشافہ طویل مکالماتی نشستوں کا لیکھا جوکھا بھی موجود ہے۔اس کتاب سے ادب کے سنجیدہ قاری کو پچھلی صدی میں ہونے والی تمام اہم ادبی تحریکوں کا جستہ جستہ احوال جاننے کا ایک اچھا موقع فراہم کیا گیا ہے جس نے ڈاکٹر صاحب کے ادبی سفر کے ساتھ ساتھ اور ان کے ہجرتی سفر کا کچا چٹھا بھی موجود ہے کبھی تو سعودی عرب گزرے ماہ وسال کا ذکر ہے اور وہاں کیا ادبی سرگرمیاں ہوتی رہی کا تذکرہ ہے۔ان کی سرگذشت “کتھا چار جنموں کی” کا یہ ایک طرح سے وہ اضافہ ہے جو ان کی کتاب میں بالتفصیل بیان نہ ہوسکا۔ امید ہے محبانِ آنند ان کی اس کتاب کو بھی بھرپور پذیرائی سے نوازیں گے۔

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply