قمر جاوید باجوہ کا اقبال بلند ہو/محمد منیب خان

پاکستان اپنی تاریخ کے طویل ترین نازک دور سے گزر رہا ہے۔ البتہ ابھی یہ مبہم ہے کہ طویل ترین نازک دور دراصل کہاں سے شروع ہوا تھا۔ لیکن حالات کی نزاکت کا یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پہلی بار پاکستان میں اسمبلی کی طبعی مدت پوری ہونے پہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن نوے دن میں انتخابات کروانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ مستقبل قریب میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم جیل میں رہتے نظر آ رہے ہیں اور بظاہر ان کا کوئی سیاسی مستقبل دکھائی نہیں دے رہا جبکہ ایک دوسرے سابق وزیراعظم بڑے طمطراق سے جلا وطنی ختم کر ان انتخابات کے لیے واپس لوٹ رہے ہیں۔

ان دونوں سابقہ وزراعظموں میں بے حد سیاسی اختلاف کے باجود ایک قدر بحر حال مشترک ہے اور وہ یہ کہ یہ دونوں قمر جاوید باجوہ کو ان حالات کا دوش دیتے ہیں جن حالات سے ہم اور ہمارا ملک آج گزر رہا ہے۔ گو کہ سابقہ وزرائے اعظم قمر جاوید باجوہ  کے جس دور پہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ ملک کو مسائل میں دھکیلنے کا دور تھا وہ ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتا۔ ایک وقت تھا نواز شریف نے قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف کے عہدے پہ تعینات کیا تھا اور پھر دیکھا کہ محض تین سال میں وہ گوجرانوالہ کے جلسے میں کیا کہتے سنے گئے۔ جبکہ اس دور میں جہاں عمران خان، قمر جاوید باجودہ سے بے حد خوش تھے اور مزید تین سال کی توسیع دے رہے تھے وہاں سارے اختلاف اور الزامات کے باجود نواز شریف اور انکی جماعت بھی اس قانون سازی میں شامل رہی۔ لیکن جب عمران خان کو اقتدار کی مسند ی سے اتارا گیا تو انکا دوسرا نشانہ قمر جاوید باجوہ بنے۔ جبکہ پہلا نشانہ امریکہ تھا۔

قمر جاوید باجوہ نومبر 2016 سے نومبر 2022 تک چھ سال کے عرصے کے لیے پاک فوج کے سپہ سالار رہے۔ اس دوران سیاسی جماعتوں اور انکے لیڈروں کے ساتھ ان کے رومانس کی خبریں زبان زد عام رہیں۔ قمر جاوید باجوہ اپنی آئینی عہدے کے علاوہ سیاست اور سفارت کاری میں سرگرم رہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں کم و بیش وزیراعظم کے ہر غیر ملکی دورے سے پہلے باجوہ صاحب اس ملک کا دورہ کرتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ اندورنی محاذ پہ دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہو، تاجر برادری کے تحفظات کو سننا ہو، ایف بی آر کی کاکردگی جانچنا ہو، سیاسی جماعتوں کے لیڈروں سے ملنا ہو، مذہبی جماعتوں کی تطہیر کرنی ہو، قمر جاوید باجوہ اور انکا ویژن ہر جگہ نظر آتا تھا۔

ایس متحرک شخصیت جب اپنے عہدے سے سبکدوشی سے چند دن کی دوری پہ تھی تو امریکہ میں  ایک پاکستانی جلاوطن صحافی نے خبر بریک کی جس کے مطابق قمر جاوید باجوہ کے خاندان کے لوگوں کی دولت میں ان چھ برسوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے بلکہ عہدہ سنبھالنے کے بعد ایف بی آر میں جمع کروائے گئے گوشواروں میں چند دنوں میں متعدد بار تبدیلی کی گئی تھی۔ جبکہ انکی اہلیہ انکے آرمی چیف بننے سے محض تین ماہ پہلے ٹیکس فائلر بنیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس خبر کے آتے ہیں ادارے کا احتساب کا خود کار نظام متحرک ہوتا اور اس کی چھان بین شروع ہوتی یا دوسرے اداروں کو تفتیش کے لیے رسائی دی جاتی لیکن ہمارے ملک میں الٹی گنگا بہتی ہے۔

ہماری ملک کی گنگا میں صرف سیاستدان کی کرپشن جرم ہے۔ کسی جج، جرنیل، بیوروکریٹ، سرمایہ دار، جاگیر دار یا کسی صحافی کی کرشن جرم نہیں سمجھی جاتی۔ ابھی چند برس قبل کی ہی بات ہے کہ عاصم سلیم باجوہ جو سابق ڈی جی آئی ایس پی آر اور کور کمانڈر بلوچستان (southern command) رہے وہ جب پاکستان چین اقتصادی راہ داری اتھارٹی کے چیرمین تھے تو انکے خلاف بھی ایسی خبریں سامنے آئیں جہاں انکے خاندان کے لوگوں کی دولت میں اس دور میں خوب اضافہ ہوا جس دور میں وہ کور کمانڈر بلوچستان تعینات تھا۔ البتہ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے ان سے ملاقات کر کے قوم کو تسلی دلا دی تھی کہ انکے پاس ساری “رسیدیں” موجود ہیں۔ جس کے بعد احتساب کے کسی ادارے کا ان تک رسائی چاہنا غیر ضروری تھا۔ نیب کے پاس اس وقت بھی جو کیسسز زیر التوا ہیں ان میں بڑی تعداد سیاستدانوں اور کاروباری حضرات کے کیسز ہے اور تاجروں میں بھی زیادہ کیسز محض قرضہ معافی کے ہیں۔

قمر جاوید باجوہ کے خاندان کے اثاثوں میں اضافے کی خبر انکی ریٹائرمنٹ سے محض چند روز قبل آئی تھی اس وقت ملک نئی تعیناتی کو لے کر افواہوں اور قیاس آرائیوں کا گڑھ بنا ہوا تھا لہٰذا اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف کو اس قدر مہلت نہ ملی کہ وہ قمر جاوید باجود ہ سے ملاقات کر کے “رسیدیں” دیکھ لیتے اور قوم کی تسلی کروا دیتے۔ البتہ اس خبر کے آنے کے بعد سے پاکستان میں موجود صحافی شاہد اسلم کافی پریشانی کا شکار ہیں۔ ایف آئی اے انکو حراست میں بھی رکھ چکی ہے۔ ان پہ یہ الزام ہے کہ ایف بی آر کے ریکارڈ سے متعلقہ معلومات انہوں نے حاصل کر کے باہر پہنچائیں۔ یعنی بحث یہ نہیں کہ وہ معلومات درست ہیں یا غلط، اور نہ ہی احتساب کے کسی ادارے کی آبرو پہ جنبش ہوئی کہ وہ مبینہ الزامات کی تحقیق کر کے محض کاغذی کاروائی ہی پوری کر دیں لیکن اب تقریباً ایک سال بعد شاہد اسلم  پہ 9 نومبر کو فرد جرم عائد کی جائے گی۔

مجھے نہیں معلوم کہ شاہد اسلم نے ایف بی آر سے معلومات حاصل کیں یا نہیں کیں۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ احمد نورانی کی سٹوری درست ہے یا نہیں۔ البتہ میں بطور ایک مسلمان اور وجہ پاکستانی شہری ہونے کے ناطے یہ سوچتا ہوں کہ کیا کبھی اس ملک میں کسی طاقتور کا حقیقی احتساب ہو سکے گا؟ ہم کب تک قوم کو یہ درس پڑھائیں گے کہ اسلام میں سزا کے لیے مجرم کا مرتبہ نہیں دیکھا جاتا اور عمل میں ہم کوسوں دور رہیں گے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ قمر جاہد باجوہ یا کسی دوسرے سابقہ فوجی یا سویلین کرپٹ ہے یا نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر اعلیٰ عہدوں پہ بیٹھا کوئی شخص کرپٹ ہو بھی تو نظام اسکا احتساب کرنے سے قاصر ہے بلکہ نظام اسکو ساری سہولت فراہم کرتا ہے کہ وہ ان کیسسز سے نکل جائے۔ قمر جاوید باجوہ جو سب سیاسی جماعتوں کے لیے ایک ولن کی صورت بن چکے ہیں یہ نظام انکا بھی کاغذ ی احتساب کرنے کا بھی متحمل نہیں۔ اس صورتحال میں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ جہاں رہیں انکا اقبال بلند ہو۔

الہ آباد، انڈیا سے احترام اسلام کا شعر پڑھیے۔

یاد تھا سقراط کا قصہ سبھی کو احتؔرام,

Advertisements
julia rana solicitors

سوچیے ایسے میں بڑھ کر سچ کو سچ کہتا تو کون

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply