والدین کے نام۔۔آغرؔ ندیم سحر

والدین کے نام۔۔آغرؔ ندیم سحر/  یہ آج سے چھ سال پہلے کی بات ہے۔میں لاہور ایک مشہور نجی تعلیمی ادارے میں اردو پڑھا رہا تھا،ایک روز مجھے ایک پرانے کولیگ کا فون آیا ہے کہ لاہور کے ایک مشہور فزیشن کے بیٹے کو اردو کی ہوم ٹیویشن پڑھانی ہے’میں نے تمہارا نمبر دے دیا ہے’میرے حوالے سے رابطہ کریں تو ان سے معاملات طے کر لینا۔ میرے قریبی دوست جانتے ہیں کہ میں کبھی ہوم ٹیویشن کے حق میں نہیں رہا کیوں کہ میرا خیال ہے کہ پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہی اچھا لگتا ہے ’استاد کا بچے کو گھر جا کر پڑھانا بنیادی طور پر اس پیشے کے وقار کے خلاف ہے’دوسرا استاد کے ساتھ کارپوریٹ گھروں میں کوئی بہتر سلوک بھی نہیں کیا جاتا’وہ استاد کو بھی گھر کے دیگر ملازموں کی طرح ایک ملازم سمجھتے ہیں’ایسے میں بچہ خاک تربیت پائے گا۔میں نے اپنے اس کولیگ سے مروت میں حامی تو بھر لی  مگر دل انکار پر بضد رہا۔میں نے سوچا کہ جب مجھے کال آئے گی تو میں انکار کرنے کی بجائے فیس اس قدر زیادہ بتا دوں گا ’ وہ خود ہی انکار کر دیں گے۔ایسے ہی اگلے دن مجھے اس مشہور ڈاکٹر کا فون آ گیا’اپنا تعارف کروایا کہ میں فلاں فلاں ہسپتال میں بیٹھتا ہوں اور میرا اپنا ہسپتال بھی ہے’آپ کا بہت نام سنا ہے’آپ ہمیں وقت دیں۔میں نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تین گنا فیس بتاتے ہوئے کچھ شرائط بھی گنوا دیں’ انھوں نے میری ڈیمانڈڈ فیس بھی اوکے کر دی اور دیگر شرائط بھی۔اب میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا لہٰذا میں نے ڈیفنس ان کے گھر جانے کی حامی بھر لی۔مجھے اس بچے کو پڑھاتے ہوئے تقریباً ایک ماہ گزر گیا’میں نے ہمیشہ یہی محسوس کیا کہ یہ بچہ اردو تو کیا’سرے سے پڑھائی میں ہی سنجیدہ نہیں۔میں نے ایک روز اس سے پوچھا کہ بھئی تمہارا مسئلہ کیا ہے؟پانچ پروفیسر(مختلف مضامین کے) تمہارے گھر پڑھانے آتے ہیں’دنیا کی ہر سہولت تمہیں میسر ہے جو پاکستان میں صرف دس سے پندرہ فیصد بچوں کو میسر ہوتی ہے’پھر بھی تم اس قدر کاہل اور سست کیسے ہو سکتے ہو؟

اس طالب علم کے جواب نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیے’اس نے کہا ‘‘سر میں ڈاکٹر بننا ہی نہیں چاہتا مگر میرے والد کا کہنا ہے کہ اگر تم میڈیکل نہیں پڑھو گے تو تمہیں مار دیں گے’’۔مجھے یہ جواب سن کر شدید دھچکا لگا ’ایک بچے اس قدر ظلم کیوں؟حالانکہ اس بچے کا ایک بھائی’دو بہنیں اور والد ڈاکٹر تھا۔اس سب کے باوجود اس کے والد کی خواہش تھی کہ اسے بھی میڈیکل میں ہی جانا چاہیے کیوں کہ اگر یہ ڈاکٹر نہ بن سکا تو معاشرے میں اس کی ناک کٹ جائے گی ۔میں نے اگلے ہی روز ان سے اس نوکری سے معذرت کر لی اور ڈیڑھ ماہ کی بجائے محض ایک ماہ کی تنخواہ وصول کی اوران کو اللہ حافظ کہہ دیا۔وہ دن ہے اور آج کا دن’میں نے ہمیشہ کلاس روم میں کھڑے ہو کر اپنے بچوں کو یہی بتایا اور سمجھایا کہ ‘‘بچو !سکوپ ڈگری میں یا سی جی پی میں نہیں ہوتا’آپ کے اندر ہوتا ہے۔ڈگریاں آپ کو انٹرویو کی ٹیبل تک تو پہنچا سکتی ہیں’اس سے آگے آپ کی اپنی صلاحیتیں ہوتی ہیں جو آپ کو منتخب کرواتی ہیں۔میں اپنے پاس آنے والے ہر طالب علم کے والدین سے یہی بات کرتا ہوں کہ خدارا ً اپنے بچوں کو مستقبل کے معاملات میں خود مختار کر دیں’آپ انھیں گائیڈ ضرور کریں’انھیں مختلف شعبوں سے متعارف ضرور کرائیں مگر آخری فیصلہ ان پر چھوڑ دیں’آپ بس ان پر اعتماد کریں’وہ آپ کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچائیں گے۔مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب بچہ آرٹس یا کامرس کی طرف جانا چاہتا ہے اور ہم اسے سائنس یا انجینئرنگ کی جانب جانے کے لیے محض اس لیے مجبور کرتے ہیں کہ معاشرے میں ہمارا ناک نہ کٹ جائے۔

یہ کیسا عجیب فارمولا ہے کہ مولوی کا بیٹا مولوی بنے گا’انجینئر کا بیٹا انجینئر بنے گا ’وکیل وپویس والے کا بیٹا بھی وکیل یا پولیس مین بنے گااورڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر ۔خدا جانے ہم اپنے بچوں کے ساتھ یہ ظلم کرنا کب چھوڑیں گے’خدا جانے ہم اپنے بچوں کو یہ اعتماد کب دیں گے کہ وہ اپنے مستقبل کافیصلہ خود کریں’مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کابچہ اگر اپنی مرضی سے آرٹس میں بھی جائے گا تو وہ کچھ نہ کچھ نیا ضرور کرے گا’وہ والدین کو مایوس نہیں کرے گا۔آپ خود دیکھ لیجیے گا’جو بچہ موسیقی پڑھنا چاہتا تھا’اسے آپ نے جبراً ڈاکٹر بنا دیا’وہ کبھی اپنے شعبے میں دل سے کام نہیں کرے گا۔وہ مریضوں کو انجکشن تو لگا رہا ہوگا مگر ساتھ میں نصرت’محمد رفیع اور لتا کا گانا بھی گنگنا رہاہوگا۔شاید آپ کو میری باتوں سے اتفاق نہ ہو مگر یہ باتیں آنے والے دنوں میں ضرور سچ ثابت ہوں گی کہ بہتر وہی تھا’جو بچہ خود کہ رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں یہ نہیں کہتا کہ کامرس’سائنس یا انجینئرنگ اچھے شعبے نہیں’یا میں صرف فنونِ لطیفہ اور آرٹس کو فروغ دینا چاہ رہا ہوں’میں تو وہ بتا رہا ہوں جو پچھلے دس سالوں میں دورانِ تدریس میں نے دیکھا’محسوس کیا اور جو ظلم نئی نسل پر ہوتا دیکھ رہا ہوں۔میں آج تک یہ نہیں سمجھ پایا کہ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں’اس ناک کے کٹ جانے کی بات کرتے ہیں جس کا وجود ممکن ہی نہیں۔ہم نے اپنے معاشرے میں آرٹس اور فنونِ لطیفہ سے نفرت خود پیدا کی’ہم نے اپنے بچوں کو خود بتایا کہ اردو پڑھناایک ناکام طالب علم ہونے کی نشانی ہے’مولوی اور استاد معاشرے کے نااہل لوگ ہوتے ہیں لہٰذا اچھا وہی ہے جو انجینئر’ڈاکٹر یا بینکار بن گیا’ڈاکٹر چاہے چائینہ کا بھی وہ ڈاکٹر ہی ہوتا ہے’بس نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھا ہونا چاہیے۔یقین جانیں ہماری یہ من گھڑت روایات اس معاشرے کو کس قدر تنزلی کی جانب لے گئیں’شاید ہم اندازہ نہیں کر پا رہے۔ہم جانتے بوجھتے ایک ایسا ذہنی غلام معاشرہ تیار کر رہے ہیں جس میں دور دور تک کوئی بڑا ذہن پیدا نہیں ہو سکتا’ہم ایک ایسی نسل تیار کر ہے ہیں جس میں ڈاکٹر ’انجینئر’بینکار’شاعر’ادیب’مصور’موسیقار’سائنس دان تو نہیں ہوں گے مگر‘‘ دولے شاہ کے چوہوں’’ کی تعداد خاصی کثرت میں ہوگی۔ایسی‘‘ بونی’’قوم دنیا میں صرف بدنامی کا باعث بنتی ہے’عزت و وقار کا نہیں۔اگر ہم سب چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسل روشن دماغ پیدا ہو تو ہمیں اپنے اور اپنے بچوں کے دماغوں سے وہ لوہے کے خول اتارنے ہوں گے جو دولے شاہ کے چوہوں کے سروں پر ہوتے ہیں’ہمیں ایک آزاد خیال’روشن دماغ اورتازہ دم معاشرہ تیار کرنا ہوگا’یہ تبھی ممکن ہے جب ہماری آنے والی نسل اس فارمولے سے باہر نکلے گی کہ مولوی دا پتر مولوی’ڈاکٹر دا پتر ڈاکٹر’انجینئر داپتر انجینئر اور وکیل دا پتر وکیل ہی بننا چاہیے۔اگر ہم نے آج بھی اس تباہ کن صورت حال سے اپنے بچوں کو نہ نکالا تو یاد رکھیے آنے والی نئی نسل ’موجودہ نسل ِ نو سے زیادہ خطرناک ہوگی اور ایسی ہی ہم نسل در نسل غلامی اور ذہنی پس ماندگی کا شکار ہوتے چلے جائیں گے’اگر یہ سب ایسے ہی چلتا رہا تو ہم یورپ کی کامیابی پر انہیں گالیاں اور اپنی شدید ناکامی پر بھی تالیاں بجاتے رہ جائیں گے اور پھر ایک وقت آئے گا کہ‘‘ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply