سیرت النبیﷺ اور ہم/پروفیسر رفعت مظہر

فرقانِ حمید میں رَبِ لم یزل نے فرمایا “اور ہم نے آپ (ﷺ) کا ذکر بلند فرما دیاہے” (سورۃ الانشرح 4)۔ اِس آیتِ مبارکہ نے چودہ سو سال پہلے مہرِتصدیق ثبت کردی کہ عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے نبی ءمکرمﷺ کا ذکر تاقیامت بلند رہے گا۔ آج ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے محبت وعقیدت ہر مسلمان کا سرمایہ ء زیست ہے جو دمِ واپسی  تک جاری رہتاہے۔

یہ معجزہ ہے نبی ء  مکرمﷺ کا کہ جونہی کوئی شخص کلمہ طیبہ سے پیمانِ وفا باندھتاہے اُس کے دل میں خود بخود آپﷺ سے اُلفت ومحبت اور عقیدت کے سوتے پھوٹنے لگتے ہیں اور وہ ناموسِ رسالتﷺ پر ہمہ وقت کٹ مرنے کو تیار رہتاہے۔ ترکھان کے بیٹے، بنوں کے فرنیچر ساز غازی علم الدین شہید کی مثال تاریخ کے صفحات میں روزِروشن کی طرح عیاں ہے۔ غازی علم الدین کا دل حبِ رسولﷺ سے معمور تھا۔ وہ عالم وفاضل تھا نہ حضورِاکرمﷺ کے دَور کا باسی پھر بھی اُس عاشقِ صادق نے 29 اپریل 1929ء کو شاتمِ رسول راج پال کو اُس کی دکان کے اندر جہنم واصل کیا اور خود پھانسی کا پھندا چوم لیا۔ غازی علم الدین شہید کو لحد میں اُتارتے وقت علامہ اقبالؒ نے فرمایا “ترکھان کا لڑکا ہم سب پڑھے لکھوں پر بازی لے گیا”۔

شیخ سعدی نے فرمایا “ایں سعادت بزورِبازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ” (جب تک عطا کرنے والا خُدا کسی کو مرتبہ وعزت عطا نہ کرے یہ سعادت بزورِبازو حاصل نہیں ہوتی)۔ میرے سامنے وزیرِاعلیٰ پنجاب کی معائنہ ٹیم میں تعینات اور خاتم النبیینﷺ یونیورسٹی کے وائس چانسلر رائے منظورناصر کی کتاب “سیرت النبی ﷺ” موجود ہے اور میں ورطہ ء  حیرت میں ہوں کہ کیا نفسانفسی کے اِس دَورِجدید میں کسی کے پاس اتناوقت بھی ہو سکتاہے کہ وہ چودہ سو سال پہلے کی ایسی مستند تاریخ رقم کردے جس کا ہرگوشہ عشقِ رسولﷺ میں ڈوبا ہو۔

یہ کتاب ایسی مستند تاریخ ہے جس میں قُرآن وحدیث کے علاوہ نقشوں اور مثالوں سے سمجھایا گیاہے کہ دَورِنبویﷺ کے مسلمان (صحابی) کیا تھے اور آج ہم کیا ہیں۔ عشقِ رسولﷺ میں ڈوبا ہوا رائے منظورناصر کا قلم انتہائی سادگی سے محض چند جملوں میں وہ کچھ لکھ جاتاہے جس کے لیے کتابیں درکار ہیں۔ تعلیم وتربیت سے لے کر اخلاقیات وعبادات تک کیاہے جو اِس میں نہیں ہے۔ اِس کتاب میں حقوق اللہ اور حقوق العباد بھی ہیں اور امربالمعروف و نہی عن المنکر بھی۔ جہاد کے احکامات بھی اور غیرمسلموں کے ساتھ سلوک بھی۔ مجھے سورۃ ال عمران کی آیت مبارکہ 104 یاد آئی جس میں فرمایاگیا “تم میں سے ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف دعوت دے، نیکی کا حکم دیتی رہے اور بدی سے روکتی رہے، یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں”۔ سیرت النبی کے مطالعے کے بعد مجھے یقین ہوچلا کہ “ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں”۔

رائے منظورناصر نے اِس کتاب کا مقصدِ تصنیف بتاتے ہوئے لکھا “مجھ پر بچپن سے ہی آقاکریم ﷺکی خصوصی نظرِکرم رہی۔ میں نے بہت چھوٹی عمر سے ہی حضورﷺ کی سنتوں پر عمل شروع کر دیاتھا۔ زمانہ ء  طالب علمی میں حضورﷺ کی سیرتِ مبارکہ کی درجنوں کتابیں پڑھیں۔ پھر جب مقابلے کے امتحان کی تیاری شروع کی تو اسلامی تاریخ کو بطور اختیاری مضمون چُنا۔ یوں سیرت النبیﷺ کو ایک بار پھر بہت گہرائی سے پڑھنے کا موقع ملااور میری حضورﷺ سے محبت وعقیدت میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا”۔ رائے صاحب کی زیست کا سفر ارتقائی منازل طے کرتا ہوا سکول سے کالج اور کالج سے مقابلے کے امتحان تک پہنچا۔ یہ ارتقاء صرف حصولِ علم کا نہیں بلکہ حبِ رسولﷺ کا بھی تھا۔ یہ اُسی آتشِ شوق کی کرشمہ سازیاں ہیں کہ “سیرت النبیﷺ” جیسی کتاب معرضِ وجود میں آئی جو نہ صرف آقاﷺ سے عقیدت ومحبت کا برملا اظہارہے بلکہ اُس دَور کی مستند تاریخِ اسلام بھی۔

“سیرت النبیﷺ” کے مطالعے سے یہ بھی عیاں ہوتاہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ ء  حیات ہے جو انسان کی معاشی، معاشرتی، سیاسی، سماجی، مذہبی اور اخلاقی زندگی کے ہرگوشے پر محیط ہے۔ اُنہوں نے انتہائی سادہ اور عام فہم زبان میں ہماری زندگی کا احاطہ کرتے ہوئے سمجھایا ہے کہ فی زمانہ رسولِ ہاشمی ﷺکے اُمتی کیاہیں اور اُنہیں کیا ہونا چاہیے۔ سادہ اور عام فہم زبان میں بھی روانی اور جذبات کی رَو کا یہ عالم کہ انسان اُس میں بہتا چلاجائے۔ رائے منظورناصر انسانی زندگی کے ہرپہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے بتاتے ہیں کہ دینِ مبیں کا تقاضا  کیاہے۔ ایسا لکھتے ہوئے وہ نہ صرف قرآن وحدیث کے حوالے دیتے ہیں بلکہ ایسے واقعات بھی بیان کرتے ہیں جن سے بات سمجھنے میں نہ صرف آسانی ہوتی ہے بلکہ وہ بات دل میں گھر بھی کر جاتی ہے۔

رائے منظورناصر نے مسلکی نکتہ نظر سے صرفِ نظر کرتے ہوئے وہی کچھ پیش کیاہے جس کی تصدیق قُرآن وحدیث سے ہوتی ہے۔ اُنہوں نے احادیث کی مستندترین 6 کتابوں یعنی صحاحِ ستہ کے حوالے دیتے ہوئے لکھاہے کہ یہ قُرآنِ کریم کے بعد اہم ترین کتابیں ہیں۔ اِن کتابوں کے محدثین کے بارے میں وہ لکھتے ہیں”یہ سارے حضرات نہ تو صحابی ہیں اور نہ ہی مکہ/ مدینہ میں پیداہوئے۔ حتیٰ کہ یہ کسی عرب ملک میں بھی پیدا نہیں ہوئے مگر اُنہوں نے حدیث کی 6 مستندترین اور مشہورترین کتابیں تالیف کردیں۔ ذرا سوچیں! یہ کیسے ہوگیا؟

اِس کے پیچھے اِن حضرات کا حضورﷺ سے سچا عشق، خالص نیت اور بھرپور محنت تھی۔ اگر ہم بھی حضورﷺ سے سچا عشق کریں اور اپنی زندگی میں کوئی بڑا مقصد طے کر لیں تو اُسے حاصل کیا جا سکتا ہے”۔ الحمدللہ ہم بھی وقتاََ فوقتاََ احادیث کی اِن مستندترین کتابوں کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں لیکن حقیقت یہی کہ رائے صاحب نے اِن آئمہ کرام کے بارے میں جو مہین نکتہ پیش کیاہے اُس پر ہماری نظر کبھی نہیں گئی۔ اُنہوں نے ازبکستان، ترکمانستان اور ایران کے اِن آئمہ کرام کی حضورِاکرمﷺ سے محبت کا جو حوالہ دیاہے وہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ حضورﷺ سے محبت رنگ ونسل اور جغرافیائی حدود سے بے نیاز ہے۔

رائے صاحب نے لوگوں کو سیرت النبیﷺ سے روشناس کروانے کے لیے ایک آسان حل تلاش کیا۔ 2021ء میں جب وہ TEVTA میں بطور سیکرٹری تعینات ہوئے تو اُنہوں نے ربیع الاول کی تقریبات کے حوالے سے اعلیٰ افسران کی میٹنگ طلب کی جس میں اُن کی تجویز پر یہ طے پایا کہ سکولوں اور کالجوں میں سیرت النبی پر کوئزپروگرام کروائے جائیں۔ اِس مقابلے میں اوّل پوزیشن حاصل کرنے والے کو 5 لاکھ اور دوم سوم آنے والوں کو بھی لاکھوں روپے کے انعامات دیئے گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اوّل انعام کی رقم رائے صاحب نے اپنی جیب سے اداکی۔ اب اُنہوں نے سیرت النبیﷺ پر کوئز پروگراموں کے لیے 50 لاکھ روپے کے انعامات کا اعلان کیاہے جس میں اول انعام 20 لاکھ روپے ہوگا۔ پہلا مقابلہ اکتوبر 23ء میں ہوگا جس کے بعد پورے پاکستان میں مقابلوں کا انعقاد کیا جائے گا۔ رائے صاحب اِن پروگراموں یا انعامی رقم کے لیے کوئی چندہ یا عطیہ لینے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ رَبِ کریم رائے صاحب کی کاوشوں کو قبول فرمائے۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply