بجز پرواز ِ شو ق ناز کیا باقی رہا ہو گا
قیامت اک ہوائے تند ہے خاک ِ شہیداں پر
ستیہ پال آنند
ذرا پوچھیں تو ،غالب، آپ سے، کیا کچھ ہے پوشیدہ
بظاہر خوبصورت ، خوش ند ا اس شعر میں ، جس کو
الگ سے فارسی میں کہہ دیا تھا آپ نے ، قبلہ
کف ِ خاکیم از ما بر نہ خیزد جُز غبار آں جا
فزون از صرصر نبود قیامت خاکساراں را
مرزا غالب
فضیحت چھوڑ، میرے مبتدی شاگرد، کوشش کر
سمجھنے کی کہ ا ن اشعار میں کچھ بھی نہیں مشکل
یہ مانا، عاشقان ِ بے سر و پا زندگی میں بھی
ہمیشہ پا پیادہ ، اڑتے پھرتے، خشک پتـے تھے ا
وہ اپنی زندگی میں بھی ہوا کی مار سہتے تھے
اگر اب اُن پاک طینت عاشقوں کی خاک اڑتی ہے
تو ا س کا ذکر کیونکر عقدہ ءدشوار سمجھیں ہم؟
ستیہ پال آنند
یہاں تک تو یقیناً آپ کی تاویل صائب ہے
مگر پرواز کا یہ شوق ۔۔۔”شوق ِ ناز” کیونکر ہے؟
ہوائے تند کی مثنیٰ” قیامت “سے بھلا کیسے؟
کہ یہ الفاظ اپنے آپ میں قاموس رکھتے ہیں
مرزا غالب
ہوا تو خاک ِ گورِ عاشقاں کو لے گئی، لیکن
وہ اڑنےکا قرینہ ہی تو “شوق ِ ناز”ہے ، جس میں
سر ِ بازار می رقصم کا سا انداز پنہاں ہے
قیامت استعارہ ہے کسی بھی آخری حد کا
ہوائے تند کا فحوا ٰ “قیامت “سے بھلا کیوں ہے؟
صعود و برکت و پرواز ہے اک جست کی صورت
یہی اس شعر کی ہے خواندگی کا راز، ستیہ پال
اسے سمجھو تو سمجھو , تم بھی اک آگاہ قاری ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں