“روز”

“روز”
محسن علی
میں ٹوٹا ہوا آسمان سے آگرا ہوں
نہ جانے میں کس جُرم کی سزا ہوں
ہوں تو سلامت مکمل کہنے کو
پھر بھی اپنے آپ میں تنہا ہوں
یہ تنہائیاں اور وحشتیں ہیں ایسے
کہ خود میں سمٹ کر ٹوٹ گیا ہوں
ایک پیاس ہے اس روح کو عجب سی
تیرے خیالوں سے روح معطر کرہا ہوں
نہ جانے کیونکر آئی ہے تو زندگی میں
تیری حسرت لئے میں روز مررہا ہوں
یوں تو ایک میں ہی گمراہ نہیں ہوں
پھر بھی انجان آس لئے دعا کرہا ہوں
تجھ کو مجھ سے نہیں کوئی محبت
روز کیوں تیرے ہی خواب دیکھ رہا ہوں
یہ محبت یہ عشق یہ کوئی پاگل پن
نہیں مجھے یہ سب کچھ معلوم مگر
تیرےواسطے میں اپنی ذات سے لڑ رہا ہوں
تم نہ ملی تو نہ جانے جیوں گا بھی کیسے
میں یہ سوچ کر روز پھر مررہا ہوں

Facebook Comments

محسن علی
اخبار پڑھنا, کتاب پڑھنا , سوچنا , نئے نظریات سمجھنا , بی اے پالیٹیکل سائنس اسٹوڈنٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply