ستیہ پال آنند ۔۔مداوا

لڑکی تھی چھ سات برس کی
دُبلی ، پتلی، َادھ مریل سی
پھٹا پرانا کرتا پہنے، اک میلی سی چادر اوڑھے
سوکھے بالوں
پچکے گالوں
بہتی ناک سے سوں سوں کرتی
سڑک کے موڑ پہ
دو کھمبوں کے بیچ میں اک تپّڑ سا بچھائے
اکڑوں بیٹھی
ٹھٹھر رہی تھی
کچھ سکے ہی شاید اس کو
دن بھر کی گزران کی خاطر
مل جاتے ہوں

برفیلا موسم تھا، لیکن
چہل پہل تھی۔۔
لوگ تو عید سے کچھ پہلے ہی
نئے لباسوں کی’شاپنگ‘ میں لگے ہوئے تھے۔

مجھ سے جب کچھ بن نہ پڑا تو
میں نے خدا سے گلہ کیا
بہتان تراشے ۔۔۔
بکتا جھکتا چلا گیا میں
پوچھا
کوئی جواز بھی ہے کیا
بچی کی بد تر حالت کا؟
پوچھا
اگر تم
سچے، کھرے، امین خدا تھے
تو اس کو یوں
چھوڑ نہ دیتے، بھوکا ننگا
پوچھا
کوئی مداوا بھی کیا تم نے کیا تھا؟

شایدکوئی جواب نہیں بن پایا اُس سے
اک خاموشی میں لپٹا لپٹا یا میں گھر واپس پہنچا

Advertisements
julia rana solicitors london

رات کو لیکن
خاموشی کی دھُند چھٹی تو
میرے خدا نے
کان میں میرے سرگوشی کی
تم نے مجھ سے
یہ پوچھا تھا
کوئی مداوا کیا تھا میں نے
کیا تو تھا پر
تم اپنی محدود سمجھ میں
اس گتھی کو کھول نہ پائے۔
یہی وجہ تھی جس کی خاطر
میں نے تمہیں تخلیق کیا تھا!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply