کل صبح کی طرح آج بھی موسم میں خنکی تھی ، ارادہ تھا کہ آج دیر تک مسجد میں بیٹھوں گا محراب کی سمت سے گیٹ نمبر 72 سے میں اندر داخل ہوا ۔ صفیں سجی ہوئی تھیں نمازی صف در صف جمع تھے ، میں چلتا گیا حتیٰ کہ بالکل آخر میں پہنچ گیا ، اور خود کو تنہا کر کے بیٹھ گیا ۔ اب میں تھا اور وہ تھے ۔ لیکن میں کہاں تھا ، میں تو نہیں تھا میں کہیں بھی نہیں تھا ۔بس وہ ہی تھے کہ
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہی تو ہو
دل جس سے زندہ ہے وہ روشنی تمہی تو ہو
رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم مسلمانوں کے تعلق کو سمجھنا دوسروں کے لیے ایسے ہی مشکل ہے کہ جیسے کوئی ماضی میں گزرا بیتا شخص کسی ٹائم مشین سے گزر کر اس زمانہ حال میں آ جائے ۔ وہ پتھروں کے زمانے کا انسان جب یہاں آئے گا تو سب کچھ دیکھ تو پائے گا ، لیکن صدیوں کا ترقی کا سفر اسے کسی صورت سمجھ نہیں آئے گا کہ جہاں چقماق کی رگڑ سے وہ گھاس جلا کر روشنی پاتا تھا وہاں ایک بٹن دبانے سے شہر کا شہر کیسے منور ہو جاتا ہے ، جہاز ہؤا میں سینکڑوں انسانوں کو لیے اڑتا ہے ، دوسرا جہاز آتا ہے اور کچھ گراتا ہے تو وہی منور شہر بجھ جاتا ہے اور خون بہنے لگتا ہے اور ساتھ ہی زندگی بھی بجھ جاتی ہے ۔۔ وہ یہ سب ترقی دیکھ تو سکے گا لیکن تدریجاً ہوئی اس ترقی کو سمجھ نہیں پائے گا ۔۔۔ بس الجھا ہی رہے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے ہیں بالکل ایسے ہی ، جب تک سینے میں ایمان کی قندیل روشن نہ ہو کوئی جان ہی نہیں سکتا کہ یہ محبت کی جوت کیسے جگتی ہے کہ جس سے اندر کا شہر کا شہر روشن ہو جاتا ہے ۔ ایک کلمہ ، ایک جملہ جو دل سے نکل کر ہونٹوں سے آزاد ہوتا ہے سب کچھ بدل دیتا ہے ۔۔ کتنی بار یہ منظر دیکھنے کو ملتا ہے کہ عمر بھر یورپ کے شراب خانوں میں رہے ، عیش کدے آباد کیے اور کسی روز دل کی دُنیا بدل گئی تو جیسے رسول کی محبت بھی اندر تک اتر گئی ۔۔۔ میں نے دیکھا اور آپ نے بھی دیکھا کہ پچھلے دنوں برطانیہ کا ایک ارب پتی تاجر کسی کاروباری معاہدے کو نپٹانے ریاض آیا ۔۔۔ مسلمانوں کو قریب سے دیکھا تو کلمہ پڑھ کر حرم میں آن پہنچا ۔۔
اس کی تصاویر وائرل ہوئیں کہ حرم میں احرام باندھے رو رہا تھا ۔ابھی ایمان کو پائے کچھ دن بھی نہیں ہوئے کہ یہ برسات مسلسل ہوئے جاتی ہے ۔
یہ آنسوؤں کی برسات کہاں سے اُترتی ہے ؟
جس روز مغرب کو اس برسات کے بادل دکھائی دے جائیں گے اس روز ان کو یہ تعلق بھی سمجھ آ جائے گا کہ کوئی ہمارے رسول بارے اک لفظ ناروا بولے تو ہم اپنی کیا اپنے بچوں کی جان بھی ردی کا ایک بے کار ٹکڑا جانتے ہیں کہ رسول کی عزت و عصمت کی چادر کو بچانے میں اگر کام نہ آئے ۔
جانے کتنی دیر تک میں مسجد میں بیٹھا ماضی میں کھویا رہا ۔۔۔
سورج اوپر آ رہا تھا ، اور مجھے ہوٹل پہنچنا تھا کہ ابھی “‘کام و دہن ” کی آزمائش باقی تھی ۔
میں کچھ دور فاصلہ طے کر کے مسجد بلال سے پرے ایک پاکستانی ہوٹل پہنچا ، وہاں سے کھانا لیا اور کمرے کی طرف چل دیا ۔ مجھے ظہر کی نماز کے فوراً بعد کچھ ہندوستانی دوستوں سے ملنا تھا اور ایک امانت ان کے حوالے کرنا تھی ۔ اب اسے میری کمزوری جان لیجیے لیکن مجھے اپنے ہندوستانی بھائیوں سے یوں ہی الفت محسوس ہوتی ہے کہ جیسے ماں جائے سگے بھائی ہوں ۔ ” لٹل سٹار” نے مجھے ملنے کے لیے قصیم سے آنا تھا لیکن طبیعت کی خرابی کے سبب نہ آ سکا ، میں نے اس کو یہ بات آج تک بتائی نہیں ہے کہ مجھے اس کے آنے سے شرم بھی محسوس ہو رہی تھی کہ ایک ہزار کلومیٹر دور سے مشقت کر کے مجھے ملنے آئے گا لیکن جی بھی چاہ رہا تھا کہ وہ ایک بار گلے لگے ۔ تقدیر کا لکھا کہ بچے کی طبیعت خراب ہو گئی وہ نہیں آ سکا ۔ میں اس کے لیے کچھ کتب لے کے آیا ہوا تھا ۔ اس نے مجھے کہا کہ مسجد نبوی کے جوار میں عطا اللہ بھائی کے حوالے کر دیجئے ، مجھ تک پہنچ جائیں گی ۔
اب دیکھیں میں مسلسل خبیب الحسن کو ” اس ، اسے” کہہ کر لکھ رہا ہوں ، دراصل یہ بےتکلفی اور ” تو کا عنوان ” اس محبت کے سبب ہے کہ جو لکھتے وقت دل میں اتری ہوئی ہے وگرنہ میں تو اپنے بچوں کو بھی لکھنے بولنے میں ” آپ ” کہتا ہوں اور خود خبیب الحسن سے بات کرنے کرتے وقت احترام سے بلاتا ہوں ۔ ویسے بھی مجھ سے زیادہ کہیں زیادہ پڑھا لکھا انسان ہے ۔۔۔۔
میں نے مکرم برادر ، عطا اللہ کو فون کیا اور ہمارا ظہر کی نماز کے متصل بعد مسجد نبوی میں ملنا طے ہو گیا ۔ دوسری طرف دو بجے ہم نے ہوٹل سے مکہ کے لیے چیک آؤٹ کرنا تھا اور اس کے بعد بس کا انتظار رہنا تھا ، سو میں مطمئن تھا کہ خاصا وقت ہے ۔ نماز کے بعد عزیزم عطا اللہ سے رابطہ ہوا ، وہ قریب ہی تھے ۔ چند ہی منٹوں میں ہماری ملاقات ہو گئی اور ہم نے کتابیں ان کے حوالے کیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ صحن حرم کے باہری کنارے پر واقع میوزیم میں ہوتے ہیں ۔ انہوں نے مجھے میوزیم میں آنے کی دعوت دی میں نے دیکھا کہ کچھ وقت ابھی باقی ہے اور ہم بالکل قریب ہی کھڑے ہیں ، تو میں ان کے ساتھ چل دیا ۔ یہ میوزیم سعودی حکومت نے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام مدینہ کے حوالے سے تیار کیا ہے اس میں مسجد نبوی کے تعمیر کے حوالے سے بنائے گئے ، مختلف ادوار کی وضاحت کرتے ہوئے ، ماڈلز رکھے ہوئے ہیں ۔ ساتھ سکرینوں پر ” ڈاکومنٹریز” بھی چل رہی ہوتی ہیں ۔ جب میں داخل ہوا تو مکرم ” عبید اللہ الباقی اسلم ” بھی وہاں پر موجود تھے جو خوشگوار حیرت اور خوشی سے مجھے ملے ۔ اب میں اکیلا پاکستانی تین ہندوستانیوں کے بیچ ” گرفتار ” تھا۔
برادر عبید اللہ نے مجھے میوزیم میں پڑے ماڈلز بارے رہنمائی دینا شروع کی اور ایک ایک ماڈل سے متعلق بتانا شروع کیا ۔ میں سب دیکھ رہا تھا دل کی کیفیت ہی بدلے جا رہی تھی اور اب جب میں تقریباً اڑھائی ماہ بعد یہ سب لکھ رہا ہوں تو اسی ذہنی کیفیت میں کھڑا ہوں ۔ خاص طور پر وہ ماڈل کہ جس میں سیدہ عائشہ کا حجرہ بنایا ہوا ہے اور پھر اس میں رسول کی قبر کے بعد کا منظر اور سیدہ عائشہ کا قیام اور اس کے بعد سیدنا ابوبکر کی قبر اور سیدنا عمر کی قبر کے بعد جو جگہ بچتی ہے اس میں آپ کا رہنا ، سب میرے دل کی کیفیت کو ہی بدلے جا رہا تھا ۔
میں تب تو اپنے ان دوستوں کے سامنے ضبط کر رہا تھا اور شوق اور تجسس کے جذبات چہرے پر سجائے دیکھ رہا تھا لیکن آج جب میں لکھ رہا ہوں تو میں تنہا ہوں اور دل یہ چاہ رہا ہے کہ کاش ایک بار اس ہجرے میں پلکیں بچھانے کو کچھ لمحات مل جائے تو میں اپنی خوش بختی جانوں کہ جس میں میری ماں کے شب و روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد گزرے ۔ میری ماں نے دم رخصت بھی رسول سے الگ ہونا پسند نہ کیا ۔ میری ماں ایسی حیا والی تھیں کہ جب سیدنا ابوبکر بھی وہاں اٹھ آئے اور اس کے بعد سیدنا عمر بھی آگئے تو وہ اس قبر سے بھی حیا کیا کرتی تھی کہ اب ایک غیر محرم کی قبر یہاں پر ہے۔ اور آج کچھ سگان آوارہ ، نطفہ ہائے نا تحقیق اس سیدہ بارے زبان طعن دراز کرتے ہیں ۔ یقیناً ہمارا ایمان ہے کہ جو سیدہ بارے کوئی برا گمان دل میں رکھتا ہے اور اس کو درست سمجھتا ہے وہ جہنم کے بدترین درجات میں ہوگا۔۔ ان شاءاللہ ۔
میوزیم کو دیکھ کر مسلسل یہ احساس ہو رہا تھا جب کاش مجھے پہلے علم ہوتا تو میں یوں ” ذہنی افراتفری” کے عالم نے یہاں پر نہ آتا ۔ کیونکہ مجھے فکر تھی کہ ہوٹل سے دو بجے چیک آؤٹ کرنا ہے اور اس کے بعد بس نے آ جانا ہے ۔ میوزیم دیکھ چکا تو چائے آ گئی ۔ چائے پی کر میزبانوں سے رخصت ہوا ہم ایسے بدنام ہیں کہ عبید اللہ نے سیلفی لی اور ازراہِ تفنن کہا میں تصویر شیئر کروں گا تو خوب ہنگامہ رہے گا ۔
میں باہر نکل کر جلدی جلدی ہوٹل کی طرف چل دیا ۔ میرے بائیں ہاتھ مسجد نبوی تھی اور قبر نبی کا گنبد دکھائی دے رہا تھا ۔ میں نظروں میں ہی اذن رخصت طلب کر رہا تھا ۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں