• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/سُنّیوں اور شیعوں کے ازلی جھگڑوں نے معصوم شہریوں کے ساتھ انسانیت سوز تاریخ منسلک کردی ہے۔(قسط10)۔۔۔سلمیٰ اعوان

سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/سُنّیوں اور شیعوں کے ازلی جھگڑوں نے معصوم شہریوں کے ساتھ انسانیت سوز تاریخ منسلک کردی ہے۔(قسط10)۔۔۔سلمیٰ اعوان

میری بھی بے شرمی اور ڈھٹائی کی انتہا تھی کہ نبیوں،ولیوں اور خدا کے برگزیدہ بندوں کی سرزمین پر تھی اور سب سے پہلے ان کے درباروں،مزاروں اورمقامات مقدسہ پر جانے، وہاں نفل پڑھنے، خُدا کے حضور سجدۂ شکر بجا لانے اور دعائیں مانگنے کی بجائے کہیں دجلہ کے پوسٹ مارٹم میں گم تھی۔کہیں بغداد میوزیم کی تباہی پر ماتم کنا ں تھی۔چلو امام اعظم، غوث اعظم اور باقی اللہ کے مقرب بندے ذرا فاصلے پر تھے پر یہ امام ابوموسیٰ کاظمین اِن کے تو پہلو میں بیٹھی تھی۔ہوٹل واپس آتے ہوئے خودسے شرمندہ شرمندہ میں کل کے پروگرام پر اپنے آپ سے باتیں کرتی تھی۔
”توبھئی صبح ہر صورت اُن کے حضور حاضری دینی ہے۔چلو یہ بھی اچھا کیا کہ افلاق کو ساڑھے دس کا وقت دیا تھا۔سکون سے نفافل، فاتحہ اور قرآن خوانی ہوگی۔
کمرے میں داخل ہو کر اِدھر اُدھر نہیں دیکھا۔سیدھی باتھ روم گئی۔برش کیااور واپس آکر لیٹنے کی کی کہ ایک توتھکن سے چورتھی دوسرے کمرے میں موجودعورتوں کی متّجسس کھوجتی آنکھوں سے مجھے چڑ تھی۔
علی الصبح جب نہانے کے بعد تو لیے سے بالوں کو خشک کرتے باہر نکلی تو گفتگو کی یہ ٹیپ زور شور سے چل رہی تھی۔
”نگوڑے اللہ مارے بیڈ تو ایسے ہیں جیسے سزائے موت کے قیدیوں کے ہوں۔کمبخت سارا بدن تختے کی طرح اکڑا پڑاہے۔لوڈ شیڈنگ نے ساری رات سیاپا ڈالے رکھا۔ گردن اور گُدّی کے بال پسینے میں ہی بھیگے رہے۔ ایک پل چین نہیں آیا۔“
کمرے کے عین بیچ والے بیڈوں پر دو نک چڑھی اچھے گھروں کی بوڑھیاں اپنے اپنے بستروں پر بیٹھی اُباسیاں لیتی،کبھی غار جیسا منہ کھولتے، کبھی ہلکے سے ہاتھ کی اوٹ سے اُسے ڈھانپنے کی فضول سی کوشش کرتے،کبھی براچھوں کے آخری کناروں سے لعاب صاف کرتے، جلے دل کے پھپھولے پھوڑے چلی جاتی تھیں۔گلے شکوے،بے آرامی،گندہ ہوٹل۔ پیکج پر نکتہ چینی۔ماضی کے حوالوں سے گفتگو کہ جب عراق کی زیارتوں پر ایرانیوں کے دروازے بند تھے۔تب کی کھُل ڈُھل۔ بڑی موجیں تھی اُن دِنوں۔ ہائے آگ لگنی آج جیسی مہنگائی بھی نہیں تھی اور آرام داریاں بھی بہت تھیں۔
پہلے والی نے بکھرے بالوں کو جو بیچارے بے حد چھدرے چھدرے سے تھے دونوں ہاتھوں میں سمیٹتے اور اُن کی منڈھی سی مروڑتے ہوئے کہا۔
”پانی تو رات کو بھی انڈے اُبالنے جیسا ہی تھا۔ یقیناََاب بھی ویسا ہی ہوگا۔“
دوسری ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے نظروں کو دور کونے میں لے جاتے اور وہاں بیڈ پر لیٹی سوتی یا جاگتی مسکین سی عورت پر جماتے ہوئے بولی۔”اِس کے خراٹے تھے کوئی۔مولا علی بچائے۔ مانو جیسے وقت نزع کو بھُگت رہی ہو۔“
”اوریہ“
اب توپوں کے دہانے میری طرف مُڑ گئے تھے۔”اِس نے تو افیون کھائی ہوئی تھی۔خراٹے تو اِس کے بھی ایسے تھے کہ اللہ گواہ ہے لگتا تھا جیسے ابھی حُریہ قبرستان کے مُردے قبریں پھاڑ کر نکل آئیں گے۔“
مجھے غُصہ تو بڑا آیا۔مگر سویرے سویرے میرا کِسی سے منہ ماری کرنے کا قطعی کوئی موڈ نہیں تھا۔ میں سر کی پِنیں شاید واش روم میں بھوُل آئی تھی وہ لینے اُٹھی۔ساتھ ہی نشانے پر دھر لی گئی تھی۔
یوں ٹھیک کہتی تھیں وہ۔میری رات تو پوستیوں کیطرح سے کٹی تھی۔دُھت سوتی رہی۔بیڈ کیسا ہے؟ اور بجلی کتنی بار گئی؟ کچھ معلوم ہی نہیں تھا۔کمرے میں چھ عورتیں کیا کیا باتیں اور کِس کِس کے بخیئے اُدھیڑتی رہیں؟اللہ جانے یا وہ جانیں۔رَہے میرے خراٹے۔یہ بے چاریاں پھر بھی تھوڑی سی دید اور لحاظ میں حُریہ قبرستان تک ہی رہیں۔کوئی پُوچھتامیری یار غار نیلم احمد بشیر سے جو کانوں پر ہاتھ رکھتے کہتی ہے۔
”میرے مولا دنیا بھر کے مُردوں کے جگانے کیلئے یہ ہی کافی ہے۔ناحق اسرافیل کی ڈیوٹی لگائی تُو نے۔“
پٹیالہ(انڈیا)یونیورسٹی کے سیمینار میں ہم دونوں مدعو تھیں اور کمرہ بھی دونوں کو ایک ملا۔بیچاری رات بھر میرے انجن کوٹنے جیسے شور کو کِس دل گردے سے جھیلتی رہی یہ اُس کا دل جانتا تھایا اُسکی لال بوٹی آنکھیں۔
نماز کا بیڑہ پار ہوا کہ نور پیر کے ویلے غُسل خانے میں گھُس گئی۔چلو خضوع و خشوع سے غسل ہوگیا تھا۔بار بار کنڈی نہیں بجی تھی۔صحرائی علاقے کا پانی رات بھر بعد بھی اچھا خاصا گرم تھا۔ جب باہر نکلی تھی۔کمرے میں زندگی ہیجانی انداز میں جس کا اوپر ذکر ہوا ہے سانس لے رہی تھی۔
دو غریب اور ماٹھی سی عورتیں پوری آنکھیں کھولے اُن سے مرعوب سی یہ رنگ رنگیلے تبصرے سُنتی تھیں۔وہ بے چاریاں پائی پائی جوڑ اور دعائیں مانگ مانگ کر مولا علی کے در پر آگئی تھیں۔اِسی میں اُن کی خوشی سنبھالی نہ جاتی تھی۔ایک ستاروں اور کڑھائی سے سجا سفید سوٹ پہن کر اہتمام سے تیار ہوئی بیٹھی باتیں کرتی تھی۔ایک بازار سے سمون اور دودھ لائی تھی۔
”ہائے اتنی مہنگائی“۔دروازے سے اندر آتے ہی اُس نے بُرقعے کا اپر اُتارتے ہوئے کہا۔
”کمبخت بڑے ذلیل ہیں یہ عراقی۔میں نے کہا ایک دے دو۔میری اکیلی جان۔چلوآدھا اب کھالوں گی آدھا سنبھال لوں گی۔ماناہی نہیں۔یہ پورا پیکٹ مجھے پکڑا دیا۔“
”آپ لے لیں“وہ میری طرف متوجہ ہوئی۔
”کل پانچ سو پاکستانی بدلوایا تھا۔سویرے سویرے سارا خرچ ہو گیا۔“لہجے میں دُکھ کا واضح عنصرگھُلا ہوا تھا۔
جی چاہا گُتھلی کا منہ کھول کر کوئی سو پچاس ڈالر کا نوٹ اُسے دے دوں اور کہوں کہ دفع کر فکر کو۔ کھُلاّ ڈُلاّ کھاپی۔
پھر رُک گئی۔بہت سے خیال آئے۔اِن میں تھوڑی سی نہیں بہت ساری کمینگی کابھی دخل تھا۔
”میں تو خود پردیس میں ہوں۔ شوق بھی میرے انوکھے اورنرالے۔اللہ جانے کرایوں بھاڑوں میں ہی کتنا اُٹھے گاپھر کِس کی ماں کو ماسی کہوں گی۔ہوش سے، سُوچ سے میاں۔“
”ناشتہ کا کیا ہوگا؟“نسرین تو ابھی بھی اینٹھ رہی تھی۔توجہ کو فوراً دوسری طرف منعطف کیا۔
دُودھ کی بوتل نکالی۔گھونٹ گھونٹ پینے لگی۔ساتھ والی نے سمون کی پھر پیش کش کی تھی۔اُس کی پیشکش کو قبول کر لیا تھا۔
”بے چاری کا ضائع ہوگا۔چلو کل میں منگوالوں گی۔“
کہیں اندر سے بڑی ہتک آمیز آواز آئی تھی۔
”بڑی ہی کمینی اور شودی ہو۔“اب اس کا جواب دینا بھلاکوئی ضروری تھا۔ پُوری بوتل اور آدھا سمون۔چلو پیٹ پُوجا ہو گئی تھی۔
جب باہر نکلی سویرے سویرے کا سُورج اتنا روشن اتنا چمکدارتھا کہ آنکھوں میں چُبھا جاتا تھا۔
حضرت امام ابو موسیٰ کاظم کے در پر جانا تھا۔ان کے پوتے حضرت امام محمد تقی الجواد کو سلام کرنا تھا۔
اندر داخل ہونے سے قبل چیکنگ کے مرحلے تھے۔کیمرہ لے جانے کی اجازت نہیں تھی۔سوچا پہلے تصویریں بنا لوں۔پھر سوچا کہ ہمسائے میں تو بیٹھی ہوں کسی بھی وقت یہ کام ہو سکتا ہے۔بغدادکو تو بھگتاؤں پہلے۔
اپنے حسابوں میں نے بڑی پھُرتیاں ماری تھیں پروہاں قطاریں لگی پڑی تھیں۔ وہ بھی ایک نہ دو چھ لمبی لمبی قطاریں موٹے موٹے لوہے کی راڈوں میں پھنسی۔ صبر آزما انتظار کے بعدجائے ہدف پر پہنچی۔میں نے سیکورٹی گارڈز کو دیکھا۔دو تین بڑی چنڈال پکّی پیٹھی صورتیں تھیں۔ عُمریں تو کچھ خاص نہ تھیں پر جانے اللہ ماریوں کے چہروں پر ٹپکتی رعونت کی کہاں سے اتنی بہتات برس رہی تھی۔آنکھ میں چھلکتا جلال کمبختیں گھوُرکر جِسے دیکھیں اُس کا کلیجہ پھُڑک کر لمحوں میں باہر آجائے۔
چیکنگ بڑی سخت تھی۔ماڑی قسمت بیگ کے اندر کیمرہ تھا۔ بیگ چیک ہوا۔حکم حاکم تھاکہ جاؤ اور اِسے امانت والے سیل میں رکھواؤ۔
”کیا وہاں جاؤں۔“ اپنے آپ سے پُوچھا۔ پھر فوراََ خود سے کہا۔
”اللہ میرا اتنا قیمتی کیمرہ۔مُلک شام اسمیں قید کر کے لائی ہوں۔“
لوٹ مار کے منظر پہلے دن مروان کے کمپیوٹر پر تفصیلی دیکھے تھے۔گو اب صورت وہ تو نہ تھی مگرخدانخواستہ کچھ ہوگیا تو۔ہوٹل کونسا دُور ہے۔بھاگ کر جاتی ہوں۔
سو گئی اور آئی۔ پھرجُوں کیطرح سرکتی لائن میں لگی۔جب باری آئی۔پرس اُس کے ہاتھوں میں گیا۔
”ہائے وے میریا ربّا“ جی چاہا سر پیٹ لوں۔کمبخت نے کیمرے کا چارجر اُسمیں سے نکال کر ہوا میں یوں لہرایا جیسے کوئی کوبرا سانپ جان بوجھ کر پرس میں رکھا گیا ہے جس نے اُس قلوپطرہ کو فوراََ ڈس لینا ہے۔اُس کے چہرے پر بکھرے تاثرات اور دوسری نگرانوں کو دیکھتے ہوئے عربی میں کی جانے والی بکواس سُن کر میرا جی چاہا تھا پرس اُٹھا کر اُس کے سر پر ماروں اور بھاگ جاؤں۔
خود کو بھی پھٹکارہ۔”تیزیاں۔ہائے نی تیریاں تیزیاں۔دروازے پرتیرے انتظار میں کوئی رانجھا کھڑا تھا ناجسے جا کر تُو نے جپھّی ڈالنی تھی۔
اُس نے چارجر کو رول کرتے ہوئے کہا۔”امانتاََ۔“
اب پھر واپس جانے اور دوبارہ لائن میں لگنے اور جُوں کی طرح رینگنے کایارا نہ تھا۔چُپ چپاتے آگے بڑھ گئی تھی پر دل تو جیسے چارجر میں ہی چھوڑ آئی تھی کہ اگر کہیں ادھراُدھر ہو گیا تب کروں گی کیا؟تصویروں کا تو خانہ خراب ہوگیا نا۔قہر درویش برجان درویش ہی تھا نا۔اورکچھ ہو نہیں سکتا تھا۔
”چل دفع دور کر۔گولی مار۔کتنا سیاپا اور کرنا ہے۔“
متوجہ ہوئی کہ اسلامی فن تعمیر کا خوبصورت اور نادر نمونہ میرے سامنے تھا۔ بڑے محرابی دروازے سے اندر صحن کی کُشادگی صبح سویرے ہی عقیدت مندوں سے بھرگئی تھی۔روضۂ مبارک والا حصّہ اپنی محرابی دیواروں سے قوسی چھت تک لشکارے مارتا تھا۔ نقاشی میں نیلا رنگ غالب تھا۔شیشہ گری کا کمال انتہائے عروج پر تھا۔درمیانی گنبد کی نقاشی دل پذیر رنگوں سے آنکھوں کے ساتھ ساتھ دل کو بھی چھوتی تھی۔عمارت کے تین حصّے محرابی ڈھانچے پر کھڑے تھے۔چوتھے حصّے میں چوبی گیلری تھی۔فانوس اپنے حجم اور ساخت دونوں کے اعتبار سے حیران کرتے تھے۔
چاندی کی جالیوں سے آنکھ لگائی۔امام آرام فرماتے ہیں۔ہری روشنی اور لوگوں کی آہ و بکا نے عجیب سا سحر باندھ رکھا تھا۔کہیں تلاوت ہو رہی تھی۔کہیں نفل پڑھے جا رہے تھے۔کہیں ہاتھ دعاؤں کیلئے اُٹھے تھے۔ کہیں آنکھیں گر یہ میں جُتی تھیں۔محبتوں اور عقیدتوں کی ایک دنیا اپنے رنگ میں موجود تھی۔عقیدت مندوں کی تمناؤں کی تکمیل کے اظہارئیے کپڑوں کی لیروں اور تالوں کی صورت بندھے ہوئے تھے۔
سری لنکا کا مقدس مقام سری پاڈا یاد آیا تھا۔ایسے ہی رنگین کنتریں وہاں بھی لہراتی تھیں۔انسانوں کے عقیدوں کی مشترکہ نشانیاں۔میں بھی اُس چوٹی پر اپنے بچوں کی سلامتی کیلئے ٹاکی باندھ کر آئی تھی۔
ساتھ میں لیٹی دوسری بڑی ہستی حضرت امام محمد تقی الجواد کی ہے۔اپنے دادا کے پہلو میں لیٹی ہوئی۔بڑی متقی،صاحب علم و صاحبِ کردار ہستی۔ ہارون الرشید نے اُنکے تقویٰ اور علم سے متاثر ہو کر اپنی بیٹی اُنکے عقد میں دی۔پاؤں کی سمت کھڑی ہوئی۔خدا کی پسندیدہ ہستیاں۔ظلم و جبر کے خلاف ڈٹ جانے والے لوگ، نہ دُنیاوی آسائشوں کی تمنا،نہ صلوں کی پرواہ،نہ جاہ و حشمت کی آرزو،خدا اور ُاس کی رضا کے طلب گار۔
فاتحہ پڑھی۔نفل پڑھے۔اللہ سے ایمان کی سلامتی مانگی۔خدا کی پسندیدہ ہستیوں کے روضہ مبارک کی زیارت اور اِس مقدس سر زمین پر لانے کا شکریہ ادا کیا۔اپنے اُن تمام پیا رے لوگوں کی تمناؤں کی بارآوری کیلئے خدا سے دعا گو ہوئی۔
فرش پر دُور تک بچھے خوبصورت اور دبیز قالین پھُولوں کی مانند نظر آتے تھے۔میں ٹانگیں پسار کراُن پر بیٹھ گئی۔کہنے کو ابھی صُبح تھی۔سورج تو گھر سے نکل کر اپنی گلی میں ہی آیا ہوگا مگر گرمی کوجوانی چڑھ گئی تھی۔گرمی کے ساتھ کربلا نتھّی ہوگیا تو آل علی پر ظلم و ستم کی کہانیاں یاد آئیں۔پھر جن کے دروازے پر بیٹھی تھی ان پر ہونے والی سختیوں اور زیادتیوں پر بین ڈالتے تاریخ کے صفحات سامنے آگئے۔
ایک تو اللہ مارے ہر عہد کے حاکموں کے حالی موالی حسد و بعض کی پنڈیں۔شاہ سے زیادہ شاہ کی خیرخواہی کے دعوٰے دار۔ اوپر سے حکمران کچے کانوں اور تاج و تخت کے بھُوکے۔ ہر لمحے سلطنت چھن جانے کے عذاب میں گرفتار۔ کِسی نے ہارون الرشید کے کان میں پھونک مار ی۔
”خلیفہ ابن خلیفہ عالی مقام کچھ ہوش کیجیے کہ امام کاظم کے معتقد اپنے مال و اسباب کا پانچواں حصّہ ان کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔آپ کی بجائے انہیں اپنا امام اور خلیفہ سمجھتے ہیں۔بس کوئی دن جاتا ہے وہ سلطنت عباسیہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ احتیاط لازم اور تدارک لازمی۔سرکش کا سرسرکشی کے اظہار سے پہلے کُچل دینا ضروری۔“
ہارون الرشید تو پہلے ہی علویین سے جلا بھُنا بیٹھا تھا۔ غصّہ چڑھا۔بدظنی بڑھی۔ مدینہ پہنچ کر پہلا کام ہی امام کی گرفتاری تھی۔پھر بغداد لا کر سندی بن شاہک کی تحویل میں دے دیااور ساتھ ہی حکم صادر کر دیا۔
”دماغ میں خلافت کا کیڑا کُلبلا رہا ہے۔بس ٹھکانے لگانا ہے۔“
موت کے بارے میں دو روایتیں ہیں۔سندی بن شاہک نے قتل کر دیا۔ یا زہر دے دیا۔کون سی درست ہے؟ تاریخ خاموش ہے۔
اللہ کے نیک بندوں کا انجام۔
خدا ان کی پارسائی اور استقامت کو قبول فرمائے۔
سُنّیوں اور شیعوں کے ازلی جھگڑوں نے ان بیچارے معصوم مقبروں کے ساتھ بھی بربریت اور سکھا شاہی کی عجیب و غریب اور انسانیت سوز تاریخ منسلک کردی ہے۔
مسلک کے اعتبار سے مقبروں کی سجاوٹ اور ان پر نذرونیاز کے چڑھاوے شیعوں کے عقیدے کا لازمی جز ہے۔یہ اکثر سُنیوں کی لوٹ مارکے ہتھے چڑھتے

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply