انتظار بہترین محنت ہے/رشید یوسفزئی

خودداری ، دیانت، بصیرت اور علمیت سب کے لحاظ سے مولانا وحیدالدین خان موجودہ علمی تاریخ میں وحید و فقید تھے۔ پیرو مرشد شازار جیلانی جب بھی مقامی قبائلی تاریخ پر گفتگو کرتے ہیں تو کہتے ہیں یوسفزئی قبیلہ پشتونوں کے کریم ، جینئس اور بیوروکریٹ تھے اور ہیں۔ اس پر مجھے یوسفزئی ڈی این اے سے نکلنے والے تخلیقی جینئس creative genius مشتاق احمد یوسفی اور علمی جینئس accumulative genius مولانا وحید الدین خان یاد آتے ہیں۔دونوں انڈیا کے وہ یوسفزئی تھے جو اپنے تاریخی قبیلوی مقام پر بجا فخر کرتے تھے۔

مولانا کی ہر کتاب ایک ماسٹر پیس ہے ، تاہم “ رازِ حیات” تو تمام اب زر سے لکھنے کے  قابل ہیں ۔  جب بھی کوئی مایوس اور شکستہ دل و مفلوک الحال جوان زندگی اور زمانے سے فریاد کرنے یا کسی جگہ سفارش کرنے میرے پاس آتا ہے میں اس کو سننے کے  بعد “ رازِ حیات” کی  تحفہ  دے کر کہتا ہوں “جا اس کو حرف حرف پڑھ کر ایک ہفتہ بعد واپس آنا۔ پھر تمہارے مسلے کا کچھ حل نکالتے ہیں۔”

یقین رکھیں ایک ہفتے بعد وہ فریاد یا امداد نہیں، بلکہ شکریہ کیلئے رابطہ کرتا ہے۔ یہ کتاب میں نے سینکڑوں کے  حساب سے خرید کر جوانوں میں تقسیم کی ہے۔ “راز حیات “ کامیاب زندگی کی بائبل اور جادو کی چھڑی سے کم نہیں۔

اسی کتاب میں مولانا نے انتظار اور صبر کے حوالے سے دو نکات کمال کے لکھے ہیں ۔فرماتے ہیں،” آپ کا اکتیس دسمبر کو کوئی اہم کام تھا  اور آج یکم جنوری کا ایک بج گیا ہے، آپ اکتیس دسمبر پر واپس نہیں جا سکتے ، آپ گھڑی یا کیلنڈر واپس نہیں پھیر سکتے، ایک سال انتظار کریں،یہ قانونِ  فطرت ہے ، ہر کام ، کامیابی، کارنامے کیلئے ایک وقت مقرر ہے، زندگی آپ کو موقع دے گی اور ضرور دے گی۔ آپ اس مقررہ وقت کا انتظار کریں، لیکن بیدار رہ کر انتظار کرنا۔ ۔ایسا نہ ہو کہ  زندگی اپنے انعام و اکرام لے کر آپ کے دروازے پر آجائے ، دروازہ کھٹکھٹائے اور آپ ستو پی کر سو گئے ہوں۔

یہ بھی یاد رکھیں یہ بات غلط ہے کہ مقدر ایک بار دروازے پر دستک دیتا ہے۔ نہیں ، مقدر ہزار بار دستک دینے آتا ہے، ہاں حساب لگائیں کہیں آپ چوبیس میں بائیس گھنٹے سوتے تو نہیں!

دوسرا نکتہ یا قول زرین یہ کہ: حالات و مشکلات آپ کو موقع نہیں دیتے،آ پ کی محنت، مشقت، ہار ڈ ورک، کام اور کوشش و تلاش سب سعی رائیگاں ہیں ، فضول ہیں ، ناکامی یہاں تک پہنچتی ہے کہ آپ کو اپنا وجود عبث لگتا ہے تو مایوس نہ ہوں، بلکہ اپنی محنت اور ہارڈ ورک اور کوشش سب سے اعلیٰ  لیول پر لے جائیں، اور یہ انتظار کا  لیول ہے۔انتظار کریں، انتظار بھی ایک عمل ہے، محنت و مشقت، کوشش اور تلاش کی سب سے اعلیٰ  ، مشکل مگر پُر وقار شکل یہی انتظار ہے۔

مولانا کے ان خوبصورت نکات کو سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن نے اپنی ماسٹر پیس In The Arena میں ایک اور انداز میں بیان کیا ہے۔اور یہ “راز حیات” کے  بعد دوسری کتاب ہے جس کا  پاکستانی ایڈیشن میں اکثر قریبی دوستوں  کو تحفہ دیتا آیا ہوں۔

واٹر گیٹ سیکنڈل کے ما بعد ایام واقعی نکسن کیلئے بہت تلخ تھے، بدنامی و ناکامی کے ان ایام کو نکسن نے ایک تخلیقی چیلنج کے طور پر لیا اور Withdrawal Syndrome کے نام سے ایک تصور پیش کیا۔ لکھتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں ہر عظیم شخص پر بُرے اور اذیتناک دن آتے ہیں۔ دنیا ، اپنے پرائے سب ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔آپ کو بے دردی سے مسترد کر جاتے ہیں،آپ کی تذلیل میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے،اپنے دل کے علاوہ انسان کا کوئی رفیق نہیں رہ جاتا، ایسے میں ہر عظیم شخص دنیا جہان سے پیچھے چلا جاتا ہے، ایک فاصلہ پیدا کرتا ہے، اپنے قلب و دماغ کے علاوہ ہر ذی روح کیساتھ دس گز، نہیں دس ہزار گز فاصلہ۔۔ تعلقات لا یعنی ہوجاتے ہیں ،جہان و کارِ جہان سب ہیچ، سب لا یعنی ہوجاتے ہیں، جیسے آپ کیلئے کچھ بھی کوئی وجود نہیں رکھتا،انسان بازار حیات سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے ، اور اگر انسان وسط عمر میں ہو تو بار حیات ایک خوفناک اژدھے کی شکل اختیار کرتا  ہے۔انسان کی زندگی کے سب سے خوفناک دن چالیس سے پچاس سال عمر کے درمیان کا عرصہ ہوتا ہے، یہ ایک نفسیاتی بحران کا دور ہے جسے Abraham Maslow ابراہام ماسلو جیسے نابغے نے Middle Age Crisis کا نام دیا ہے۔ یہ دور ہر شخص کیلئے ایک ہمت آزما، وجود آزما اور روح آزما چیلنج ہوتا ہے۔ یہ اذیت کی بدترین شکل ہے۔ اس کا  کوئی خارجی سبب نہیں ہوتا۔ یہ رفتار زندگی کا ایک فطری تقاضا ہوتاہے، جوانی پشت پر، پختگی اور بڑھاپا سامنے، اسی مڈل ایج کرائسس سے کامیابی سے نکلنے والے لوگ گہرے، پختہ، خوبصورت انسان بن جاتے ہیں جن کو روئے زمین کا  نمک Salt of the earth کہا جاتا ہے۔ اسی خوفناک وادی سے کامیابی سے گزرنے والے ہی عظیم شخصیات کہلاتے ہیں۔اسی سے گزر کر ہی فرید الدین عطار کی سی مرغ کوہ قاف پہنچ جاتی ہے۔ تب تخلیق اور کارناموں کا عہد زرین شروع ہوتا ہے۔تب آپ خود کو دنیا سے تسلیم کراتے ہیں اور تاریخ میں امر بناتے ہیں، مگر مڈل ایج کا  پل صراط لازمی اور واقعی دہشتناک و خوفناک ہوتا ہے اور اس کو پاس کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے، یہی وجہ ہے دنیا میں خودکشی کرنے والی اکثریت کی تعداد جوانی و بڑھاپے سے نہیں وسط عمر سے تعلق رکھتی ہے۔اسی مڈل ایج کرائسس کیساتھ جب خارجی مشکلات بھی ایکا کرلے تو اذیت آپ کی ذات اور وجود کیلئے دہشتناک و المناک قیامت اور جہنم کی شکل اختیار کرتی ہے۔

نکسن نے اسکا بہترین حل یہی withdrawal syndrome لکھا ہے۔اور وضاحتی مثالوں کے  طور پر پیغمبر اسلام کی مکی زندگی، اور بدھا سے لیکر چرچل و ڈیگال تک کی زندگی کے اسی موڑ کا تجزیہ کیا ہے۔ رچرڈ نکسن لکھتا ہے کہ جب ان شخصیات کے  کردار اور کارناموں کے باوجود دنیا نے ان سے رسم و راہ کاٹ دئیے تو یہ زمانے اور سماج سے کچھ عرصے کیلئے ودڈرا withdraw کر گئے۔ وہ مایوس نہیں ہوئے، زندگی اور زمانے اور دنیا سے بدظن نہ ہوئے، انہوں زمانے ، مقدر، خدا اور خلق خدا سے بیزاری کا نہیں سوچا، انہوں نے  انتظار کے عمل کو چُنا اور انتظار کی بھٹی میں رہ کر اپنا تجزیہ اور soul searching کی۔ نئی سٹرٹیجی وضع کی  اور پھر ایک نئی طاقت، ایک نئے  وژن، ایک جوان ہمت اور ایک تازہ ولولے سے بھر پور شان و شوکت اور  آن بان کیساتھ واپس میدان Arena میں آئے۔اور عالمِ  کہن کو زیر وزبر کرکے ایک عالم ِ نو ءقائم کیا۔

یاد رکھیں: انتظار کا عمل اور فن ایک ایسا عمل اور فن ہے جو کسی کو ، کبھی بھی ، کبھی بھی مایوس نہیں کرتا۔

یاد رکھیں:

Greatness come to those who know how to wait.

Advertisements
julia rana solicitors london

عظمت ان کے قدموں کو چومنے  آتی ہے جو انتظار کا ہنر جانتے ہو!

Facebook Comments

رشید یوسفزئی
عربی، فارسی، انگریزی ، فرنچ زبان و ادب سے واقفیت رکھنے والے پشتون انٹلکچول اور نقاد رشید یوسفزئی کم عمری سے مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں مذہب، تاریخ، فلسفہ ، ادب و سماجیات پر لکھتے آئے ہیں۔ حفظِ قرآن و درس نظامی کے ساتھ انگریزی اور فرنچ زبان و ادب کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں۔ اپنی وسعتِ مطالعہ اور بے باک اندازِ تحریر کی وجہ سے سوشل میڈیا ، دنیائے درس و تدریس اور خصوصا ًاکیڈیمیا کے پشتون طلباء میں بے مثال مقبولیت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply