ہر کسی کی مختلف کہانی، مختلف دلیل/خالد حسین مرزا

کمرے میں بِکھرے ہؤئے سامان جیسے کہ کُچھ کپڑے، چند سگرٹوں کی ڈبیاں کچھ خالی اور کچھ میں بچے ہوئے سگرٹ، ایک لیمپ، ایک پنکھا اور دو تلائیوں کے علاوہ پانچ دوستوں کی مُسکراہٹیں بھی بکھری ہؤئی تھیں۔ مُسکراہٹیں کہقہقوں میں تبدیل ہونے ہی والی تھیں کہ اچانک سے اَمجد نے ساری محفل کی باتوں کو یکطرف رکھا اور اپنے خیال کو ترجیح دی جِسے وہ لکھنا چاہتا تھا۔
اُسی کمرے میں کھڑکی سے دروازے تک چکر لگانا شروع کر دیئے اور اپنی سوچ میں مگن ہو گیا اِس بات سے بلکل بے پروہ کے کون کیا کر رہا ہے۔ تالائی کے اُوپر سرہانے کے قریب کُچھ کاغذات اور دو پین اُٹھائے، اُسے بیٹھنے کے لیئے کؤئی مُناسب جگہ نہیں مِل رہی تھی۔ اُس نے پھر دروازے سے کھڑکی تک چکر کاٹنا شروع کر دئیے۔ اب کی بار وہ اپنے خیال کو پرچے پر لکھنا چاہتا تھا۔
چلتے چلتے وہ ایک کونے پر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا چونکڑی مار کے بیٹھ گیا۔ لکھتے لکھتے وہ ایسا مگن ہوا کہ اُسے اپنے دوست اپنے تخلیق کردہ کردار نظر آنے لگے۔
سب سے پہلے اُسے جیدا قصائی اُس کی طرف گھورتا نظر آیا۔ امجد نے جیدے کی آنکھ میں اپنے لیئے غصے کی شدت دیکھی۔ تھوڑی اور نظر دوڑائی تو اُسے ٹیوشن والی گڑیا باجی نظر آئیں۔ گڑیا باجی کھڑکی سے نیچے جھانک کر دیکھتی اور اپنے موبائل کے نمبر تھوڑی تھوڑی دیر بعد گھماتی مگر کُچھ بھی مثبت اثر نہ نکلتا نہ اُن کی پریشانی کم ہوتی اور نہ کؤئی فون اُٹھاتا۔ اپنے ہی منہ میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد بڑبڑاتی رہتی۔ “پتہ نہیں شام کو کیا پہن کر جاؤں گی”۔ بال بھی بکھرے ہؤئے اور ڈوپٹے کی حالت بھی بکھری ہؤئی اور پریشانی بھی ہر بڑھتے لمحے کے ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔
تھوڑا اور بائیں جانب دیکھا تو جمال نظر آیا۔ جمال ابھی آوارگی کی عمر میں تھا، پڑھائی کی طرف اُس کا قطعاْ رُجحان نہ تھا۔ میڑک میں چار دفعہ فیل ہونے کے بعد اب وہ آوارہ گردی میں Phd کر رہا تھا۔ قد کاٹھ کا اچھا خاصا لمبا اور باتونی تھا۔ ایک صلاحیت اُس میں قابلِ دید یہ تھی کہ وہ کسی کو بھی اپنی زندگی کی کہانی سُناتا تو اپنی ناکامیابیوں پر اپنی مظلومیت کی چادر ایسے چڑھاتا کہ سُننے والا سمجھتا کہ کہیں نہ کہیں وہ بھی اِس پر ہونے والے ظلم میں شریک ہے۔ خود کے چہرے پر ہر دَم مُسکُراہٹ تو رہتی تھی ہی، مگرمزید مُسکراہٹیں بکھیرنا اُس کا شغل بھی تھا، مگر کہیں نہ کیں آںکھوں میں درد اور کُچھ کر دِکھانے کا جذبہ کُوٹ کُوٹ کر بھرا تھا۔
کمرے کے دوسرے کونے میں سر جُھکائے بہت ہی نڈھال حالت میں اپنے سر کو جُھکائے بہت ہی افسردہ حالت میں ایک بابا جی بیٹھے تھے۔ دیکھنے میں blood pressure کے مریض لگ رہے تھے۔ امجد اُن کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا تھا، مگر اُن کی حالت دیکھ کر اِتنا ضرور جان گیا تھا کہ کؤئی بات ہے جو اندر سے کاٹ کھائے جا رہی ہے۔
امجد سب کی طرف نظر دوڑا رہا تھا اور سب کو اپنی نظر کے زاوئیے سے دیکھ رہا تھا، جیدے قصائی کی آنکھ کا غصہ اُس کے سخت الفاظ اور کڑک دار لہجے میں مُنتقل ہو گیا۔ ایک تجسس بھری آواز کے ساتھ اُس نے امجد سے پوچھا “تم نے میرے بارے میں کیا لکھا ہے”؟ جیدے کو امجد سے کُچھ اچھے کی اُمید نہ تھی اِس وجہ سے اُس کے چہرے پر خوشی کے بجائے نا اُمیدی کے تاثرات زیادہ تھے۔ امجد نے جواب دیا “جو تُم کرتے ہو وہ لکھا ہے”۔ جیدے کا غصہ اپنی شدت اختیار کر رہا تھا۔ اُس کا جی چا رہا تھا کہ جِس طرح وہ ایک ران کی بوٹیاں بناتا ہے اُسی طرح سے امجد کو پکڑے اور ٹوکا چلانا شروع کر دے۔ جیدا ایک ہاتھ سے کبھی مُٹھی کھولتا اور بند کرتا اور دوسرے ہاتھ سے وقفے وقفے بعد دیوار پر مُکے مارتا۔ اپنی سامنے والی دیوار سے نظر ہٹا کر اُس امجد سے کراری آواز میں پوچھا ” کیا کرتا ہوں میں؟ اور تُم کیا جانتے ہو میرے بارے میں تُم نے یہ تو دیکھا کہ میں روزانہ ہر گاہک کی دو سے تین بوٹیاں چوری کرتا ہوں اور بہت سے گاہکوں کو پورا تول بھی نہیں دیتا مگر یہ تُمہیں نظر نہ آیا کہ گاہک اب آتا ہی نہیں ہے۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ دُکان کا بجلی کا بِل دوں یا پھر بچوں کی فیسیں اور یہ بھی نہیں دیکھا کے اپنے شہر سے بہت دور میں تُمہارے شہر میں کمانے آیا مگر ادھر کس نے مُجھے اپنا سمجھا!
ابھی جیدا بات کر ہی رہا تھا کہ گڑیا جیدے کی بات کاٹتے ہؤئے بولی ” ہاں جیدا بھائی آپ بھی کیا بات کر رہے ہو؟ اور کس سے کر رہے ہو؟ ویسے تو یہ کہتے ہیں کہ میں معاشرے کے بگاڑ کے بارے میں لکھتے ہیں لیکن کبھی انہوں نے کبھی اپنے اندر کا گند دیکھا ہی نہیں”۔ گڑیا اپنی اُلجھی ہؤئی حالت میں امجد کی طرف دیکھ کر بات کر رہی تھی۔ ایک ہاتھ میں موبائل فون پکڑا ہوا جِسے تھوڑی تھوڑی دیر بعد دیکھتی۔ جب بات کرتی تب ہی دوسرے ہاتھ کی اُنگلی منہ سے نکالتی ورنہ کبھی اُنگلی مُنہ میں چبائے کبھی کھڑکی سے نیچے دیکھتی تو کبھی آگے پیچھے چکر لگاتی، ساتھ ہی ساتھ منہ میں بڑبڑاتی جاتی ” پتہ نہیں یہ درزی کب آئے گا”.
گڑیا نے تھوڑا ٹھراؤ کیا اور امجد کی طرف گھور کے دیکھا پھر بولی ” کیا آپ نے لکھا میرا آج بھی ماں سے جھگڑا ہوا؟ وہ ماں جو بیمار ہے اور اُس کی دوائیوں کے پیسے پورے نہیں ہوتے۔ یہ لکھا بڑے تو بڑے بچے بھی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ دل کرتا ہے کہ چُپ کر کے ایک کونے میں زندگی گزار دوں مگر پھر بھی جینا پڑتا ہے روز اچھی سے اچھی نوکری کی تلاش کرنی پڑتی ہے۔ مگر اب مُجھے کؤئی فرق نہیں پڑتا کؤئی کُچھ بھی بولے اور آپ کُچھ بھی لکھیں۔ آپکو چاہیئے کیا نیک نامی، کُچھ سگرٹ اور اکیلا پن اور ہاں قلم اور پرچہ بھی جس سے آپ سمجھتے ہیں کہ آپ معاشرہ ٹھیک کر دیں گے۔ دیکھتے ہیں کب تک آپکا شوق برقرار رہتا ہے۔ دیکھتے ہیں آپ کب تک خود کو فیض، منٹو اور کافکا سمجھتے رہیں گے، مگر آپ لکھیں۔۔۔۔ لکھنے میں تو کؤئی پابندی نہیں”.
جمال ساری باتیں غور سے سُن رہا تھا اور چہرے پر ہلکی ہلکی مُسکراہٹ بھی تھی۔ اپنے دونوں ہاتھ اپنے سر کے نیچے رکھے ہؤئے اور سیدھی نظر چھت کی طرف اور دونوں پاؤں ساتھ جوڑے ہؤئے بولا ” امجد بھائی مُجھے کؤئی پروہ نہیں آپ میرے بارے میں کیا لکھتے ہو اور کیا نہیں بس ایک فرمائش ہے ایک ایکشن سین ضرور ڈالنا۔ ( کروٹ بدلتے ہؤئے ایک ہاتھ سر کے نیچے کونی کو کھڑا کر کے اور دوسرا ہاتھ کمر کے اوپر اور چہرہ امجد کی جانب) جس میں، میں اکیلا کؤئی پانچ سات لڑکوں کو ماروں اور ہر لڑکی مُجھ پر فِدا ہو جائے۔ باقی آپ جو مرضی لکھو۔ ہر دفعہ فیل ہوتا ہی ہوں۔ اب کے بھی ہو جاؤں گا تو کون سی بڑی بات ہے۔ ہر مامے، چاچے، تائےکی باتیں تو سُن لی ہیں اب تو کُچھ باقی نہیں بچا ہے سُننے کو، بس آپ ہیرو بنا دینا مُجھے”. اُس کے بعد جمال نے پھر آنکھیں بند کیں اور خواب دیکھنے لگ گیا۔
دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے سر جُھکائے بابا جی سے امجد خود مُخاطب ہوا ” آپ کو بھی مُجھ سے شکایات ہیں؟”. بابا جی نے سر اُٹھایا، آنکھیں پُرنَم تھیں۔ حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگے پھر بولے ” مُجھے کسی سے کیا شکایت ہو گی؟ میری دو بچیاں ہیں۔ جب سے پیدا ہؤئیں ہیں ایک فکر کھائے جاتی ہے نہ جانے اِن کا نصیب کیا ہو گا؟ ایک کی تو عمر نکل رہی ہے اور ایک کو گلی کے لڑکے ایسے تنگ کرتے ہیں جیسے خدا نے صرف مُجھے ہی لڑکیاں دی ہیں۔ آج بھی یہ بوڑھی ہڈیاں اچھرہ سے رنگ محل تک پیدل جاتی ہیں اور پچھلے پچیس سال سے اِس معمول پر قائم ہیں دیکھتے ہیں کب تک ہمت باقی رہتی ہے اور کب تک اپنا گزارہ اِس طرح چلتا رہتا ہے، خدا کرم کرے ہم سب کے حال پر”.
اتنے میں امجد نے قلم رکھا اور لکھنا چھوڑ دیا۔ اپنے ہاتھوں سے لکھے تمام صفحے پھاڑ دئیے۔ تمام تر تخلیق کردہ کردار غائب ہو چکے تھے۔
امجد تھوڑی دیر تک سے پکڑ کر رہا، تھوڑا ہوش میں آنے کے بعد دیکھا اُس کے تمام تر دوست سوچُکے تھے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply