ہوم لیس ۔۔۔۔۔۔۔فیصل فارانی/افسانہ

دو سڑکیں ایک دوسرے کو کاٹ کر جس مقام پر جمع کا نشان بناتے ہوئے چاروں جانب نکل رہی ہیں، وہیں ایک کونے میں واقع کا فی شاپ میں وہ ایک کھڑکی کے ساتھ بیٹھا ہے، اور اُس کے سامنے میز پر کافی کا خالی ڈِسپوزایبل کپ پڑا ہے۔

شام ابھی اتنی گہری نہیں ہوئی لیکن ہڈیوں میں اُتر جانے والی اکتوبر کی ٹھنڈ میں کافی شاپ کی کھڑکیوں کے بڑے بڑے شیشے یوں مدھم ہوچکے ہیں کہ باہر کا منظر دُھند میں ڈوبا ہوا دِکھائی دے رہا ہے۔
چاروں جانب سے آتی جاتی گاڑیوں کی روشنیاں اِس دُھند کو چِیرتے ہوئے اپنی اپنی منزل کو بہے جا رہی ہیں اور پیدل چلتے سُرمئی سائے بھی مختلف سِمتوں میں رواں ہیں۔

کا فی خریدنے والوں کی قطار میں لگے اکثر چہرے اُس کے دیکھے بھالے ہیں جو کہ اُس قریبی شیلٹر میں پناہ گزین ہیں جسے شہر کی انتظامیہ نے بے گھر لوگوں کے لئے بنا رکھا ہے۔ یہ مخصوص چہرے اپنی اپنی کافی خرید کر اِدھر اُدھر سے ہوتے ہوئے بالآخر واپس شیلٹر کی جانب ہی جائیں گے۔
اِس شیلٹر میں رہنے والوں کی اکثریت کسی نہ کسی دماغی مرض میں مبتلا ہے۔ کوئی ہر وقت اپنی کسی کھوئی ہوئی شے کی تلاش میں گاربج کے ڈرمز میں گُھسا رہتا ہے تو کوئی اپنے ماضی یا حال پر زور زور سے قہقہے لگاتا نظر آتا ہے۔کوئی ایک غیر مرئی جمِ غفیر سے خطاب میں مصروف ہے تو کوئی آسمان میں نظر نہ آنے والے پرندوں یا جہازوں کو ہاتھ کے اشارے سے راستہ دکھاتا ہے۔ اور کوئی ڈیڈ سیل فون پر لاکھوں کی پراپرٹی بیچ رہا ہوتا ہے۔

یہاں کچھ لوگ مختلف جرائم کی سزا کاٹ کر جیل سے رہا ہوکر آئے ہیں اور اب اُن کے پاس رات کاٹنے کے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں۔
اِن میں سے اکثر ڈرگز کے عادی ہیں اور کئی تو ایسے ہیں کہ شیلٹر کی طرف سے عائد پابندیوں کے باوجود روز ہی کہیں نہ کہیں سے اپنے مطلب کی ڈرگز حاصل کرنے کے بعد اوور ڈوز کا شکار ہوکر بیہوش پڑے ہوتے ہیں۔ اِنھیں اسپتال پہنچانے کے لئے شیلٹر میں تقریباً ہر روز ہی پولیس اور ایمبولینس آئی رہتی ہے۔
چند ایسے بوڑھے بھی ہیں جن کا اس دنیا میں گھر ہے نہ کوئی اپنا۔ اِِن میں سے کچھ کو ان کی اولاد نے کاٹھ کباڑ سمجھ کر گھر سے باہر پھینک دیا ہے۔

یہاں ہر دُوسرا سگریٹ نوش ہاتھ میں دس یا پندرہ سینٹس لیے ایک دوسرے سے سگریٹ خریدنے کی کوشش میں رہتا ہے۔
کینیڈا کے مشرقی قصبے آشوا کے اِس “کورنر اسٹون شیلٹر” کے پارکنگ لاٹ میں سائیکل سوار ایجنٹس آتے جاتے رہتے ہیں جو چائنیز برانڈ کے سستے سگریٹ سے لے کر وِیڈز اور دیگر ڈرگز سپلائی کرتے ہیں۔ شام ہوتے ہی یہاں سِمکو اسٹریٹ Simcoeاور جَون اسٹریٹ John کے سنگم پر کاروباری حسینائیں بھی خوب رونق لگاتی ہیں ۔
شیلٹر میں رہنے والے اِن لوگوں میں ایک خاصیت مشترک ہے ____ اِن سب کو بھوک بہت لگتی ہے۔ دو دو بار پلیٹ بھر کر خوب کھاتے ہیں۔ صرف دو بار ہی کھانا لینے کی اجازت ہے ورنہ شاید تیسری بار بھی اُتنا ہی کھاتے۔

اِنسان جب ایسے اندھیروں میں ڈوب جائے کہ امّید کی کسی بھی کِرن کا انتظار نہ رہے تو رفتہ رفتہ شاید وہ بےحِس ہوجاتا ہے، اور ایسی حالت میں غالباً بھوک حملہ کرتی ہے۔ پھر اُس کے لئے دُنیا یا دُنیا میں کسی بھی محبت کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی ___ کچھ بھی یاد نہیں رہتا ____ محبت کی جگہ بھوک کے رُوپ میں شاید بےحِسی رہ جاتی ہے ____ صرف بےحِس بُھوک، اور کچھ نہیں ۔
کافی شاپ میں بیٹھے اُس شخص کو ابھی زیادہ بُھوک نہیں لگتی۔ہوسکتا ہے کہ اُس کی کسی محبت کی کوئی کِرن اُسے اندھیروں میں ڈوبنے سے بچائے ہوئے ہو ____ کسی کی روشن آنکھیں اُسے آگے کا راستہ دِکھا رہی ہوں، لیکن کب تک ؟ کیا وہ بھی اِس شیلٹر میں رہتے رہتے ایک دن اُس انتہا تک پہنچ جائے گا جہاں بےحِسی بُھوک بن کر ہر جذبے پر غالب آ جاتی ہے ___ یہ بےحِسی تو بےگھری سے بھی بڑا عذاب ہے۔
مگر اُسے ابھی زیادہ بُھوک نہیں لگتی۔ سب کے ساتھ ایک قطار میں کھڑا ہوکر جب وہ برائے نام ناشتہ، لنچ یا ڈنر اپنی پلیٹ میں ڈلواتا ہے تو اُسے اپنے آنسوؤں کو بہت مشکل سے روکنا پڑتا ہے، اور وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں “شکریہ” کہہ کر جلدی سے کسی کونے میں چُھپنے کی کوشش کرتا ہے۔

اِس کافی شاپ میں وہ کب تک بیٹھا رہے گا ؟ یہ شاید اُسے خود بھی نہیں معلوم۔ اُسے کہیں پہنچنے کی جلدی نہیں۔ اُس کی سِمت اور منزل کھو چکی ہے یا وہ خود چھوڑ آیا ہے۔ اُس کے بدن پر شیلٹر کے کھٹملوں اور مکڑیوں کی دی ہوئی چھوٹی بڑی سُرخ سُرخ نشانیاں ہیں جنھیں وہ بار بار کُھجلا رہا ہے۔
آج جمعرات ہونے کی وجہ سے اس کی جیب میں چودہ ڈالر کا ویکلی الاؤنس تھا جو شیلٹر والوں کی طرف سے وہاں پناہ گزین ہر بے گھر کو ملتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کافی کے خالی ڈسپوزایبل کپ کے سامنے بیٹھا وہ سوچ رہا ہے کہ ایک ڈالر اور پچپن سینٹس اِس کافی پر خرچ کرنے کے بعد بقیہ بارہ ڈالر اور پینتالیس سینٹس سے وہ اور کتنے دن شیلٹر سے باہر اِس کافی شاپ میں آ کر بیٹھ سکتا ہے۔

Facebook Comments

فیصل فارانی
تمام عُمر گنوا کر تلاش میں اپنی نشان پایا ہے اندر کہِیں خرابوں میں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply