جنم، بیماری، بڑھاپا اور موت کا چکر/سیّد محمّد زاہد

اے کرشا گوتمی! تُو پھر آگئی۔ وہ دن جب سدھارتھ کی بیوی یشودھرا کی امیدوں کے باغ میں پھل آیا اس دن تو خیر مقدمی گیت گا رہی تھی۔
خوشی کا گیت۔۔
” سب خوش ہیں، باپ خوش، ماں خوش اور وہ بیوی جس کا شوہر فرد فرید ہے، بیٹا چاند کا ٹکڑا۔”
گوتم دُکھ دیکھ کر آیا تھا اس کو یہ گیت ایسا بھایا کہ اپنا ہار اتار کر تجھے پہنا دیا۔ ہار انعام میں پا کر تو بہک گئی۔ محشر خیال میں کہرام مچ گیا اور سوچنے لگی کہ سدھارتھ تیرے عشق میں مبتلا ہو گیا ہے۔ جلد ہی اس کے جام وصل سے فائض المرام ہو گی ۔

تُو اسے پہچانتی نہیں تھی۔
پہچان بھی کیسے سکتی تھی ابھی تو دکھ بھری دنیا کے بھید اس پر بھی آشکار نہیں ہوئے تھے۔ گوتم نے پلکیں اٹھا کر تجھے دیکھا بھی نہیں وہ تویہ سوچتے آگے بڑھ گیا کہ سچی خوشی حاصل ہو بھی سکتی ہے یا نہیں؟

تُو اس وقت بھی چلی آئی تھی جب گوتم دم کو بند کرنے، حواس پر قابو پانے، اور استقلال حاصل کرنے کے لیے سخت تپسیا میں مشغول تھا۔ کئی کئی دن فاقوں میں بِیت جاتے تھے۔ صرف سانس کی ڈور کو باندھے رکھنے کے لیے، وہ بے مثل یکتا بدھا، لیتابھی تھا تو جو کے چند دانے اور ایک دو گھونٹ پانی۔ وہ اتنا لاغر ہو گیا تھا کہ اس کی رگوں میں بہتا ہُوا خون بھی رُک رُک کر چلتا تھا۔
تُو اس شہزادے کے پاس آئی۔
وہ بڑ کے پیڑ کے نیچے بے حس و حرکت، چپ چاپ آنکھیں بند کئے، دھیان لگائے بیٹھا۔ اس کی حالت اس تالاب کی سی تھی جس کا پانی بالکل ساکن ہو اور ہَوا کی عدم موجودگی میں اس میں تموج کا نام و نشان بھی نہ ہو۔ بڑولیوں اور سوکھے پتوں پر پڑتے تیرے پاؤں کی کھڑ کھڑ سے اس کا دھیان بٹا تو بھی نظریں اٹھا کر تجھے نہ دیکھا۔
وہ تُو تھی یا مار دیوتا کی بیٹی راگ؟ ارتی یا ترشنا؟

تُو نہیں جانتی تھی کہ وہ دوسرے رشیوں اور عابدوں کی طرح کا عبادت گذار نہیں۔ وہ لذات بہشت کی خواہش میں ریاضت نہیں کر رہا تھا۔ اس نے تو دنیا و عقبیٰ کی تمام لذات اور نعمائے دارین کو ترک کردیا تھا۔

وہ تیرے دام تزویر میں نہیں آسکا۔

تُو نااُمید لوٹی۔
آج تو اس بکھشو کے  پاس چلی آئی ہے۔

بدھ کا یہ بکھشو بھی اس کی وراثت کا امین ہے۔ تجھے یاد ہوگا جب سدھارتھ کے بیٹے راہل نے اپنی ماں یشودھرا کے کہنے پر اس سے، اپنے باپ سے، موروثی حق مانگا اور پھر بار بار اصرار کیا تو بدھا نے اسے بال کاٹ، سنیاسیوں کا لباس پہنا، بکھشوؤں میں شامل کر کے کہا ”میری وراثت یہی ہے۔”

اس بکھشو نے بھی سر منڈوا کر گھیروے رنگ کے کپڑے پہن لیے تھے۔ اس فانی جسم کو صرف شرم و حیا اور موسم کی مجبوری سے وہ ڈھانکتا تھا۔ اب وہ ان مجبوریوں سے بھی آزاد ہوگیا ہے۔ کپڑے کا ایک چھوٹا سا چیتھڑا کمر سے لپیٹ کر وہ اندر چلا گیا ہے۔
وہ خواہشات سے آزاد ہو گیا ہے۔

کئی مہینے گذر گئے ہیں اس نے بکھشا پاتر بھی چیلے کے حوالے کر دیا تھا۔ وہ بکھشا کی آگ پیٹ میں بھرتے وقت کہا کرتا تھا کہ جسم مجبور کرتا ہے، بھوک ستاتی ہے، دَ ر دَر پر جا کر ٹُکر مانگنا پڑتا ہے۔ یہ کس قدر اذیت ناک ہے کہ اس جسم کی بقا کے لیے بھیک مانگنا پڑتی ہے۔

اب وہ جنگل سے بیج، جڑیں، دیودار کی چھال جمع کر کے لاتا اوران پر نمک لگا کر کھاتا تھا۔ وارنش کے درخت کی زہریلی چائے اس کی روزانہ کی خوراک بن چکی تھی۔

وہ سُوکھ کر لکڑ بن گیا تو تالاب کے جل میں اشنان کر کے دنیاوی پاپوں سے خود کو شُدھ کیا ۔ دیودار کے بنے تابوت کو چیلوں نے سورگی پھولوں سے آراستہ کر کے اس کی سورگی سیج سجائی۔ وہ آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا تو تابوت کا ڈھکن بند کر کے روپہرہ پہاڑ کے زیرِ  سایہ قبر کھود کر دفن کر دیا گیا۔ صرف ایک لمبا سا سوراخ چھوڑ دیا گیا جس سے ہَوا آتی جاتی رہے۔

روزانہ صبح چیلے وہاں حاضری دیتے ہیں۔ موت کی آرزو میں مرنے والا گھنٹی بجا کر انتظار کی کوفت کا اظہار کرتا ہے تو پرنام کر کے واپس آجاتے ہیں۔ اس نے دنیا کی لذات و خواہشات سے منہ موڑ لیا ہے۔ استغراق اورمراقبہ سے حواس پر تصرف حاصل کرلیا ہے۔ نور ِحقیقت کو پا لیا ہے۔
اب کئی دن سے گھنٹی کی آواز نہیں آئی تو چیلے اس سوراخ کو بند کرنے آئے ہیں۔
اے کرشا گوتمی ! تُو ادھر بھی پہنچ گئی ہے۔
سُن ! آج گھنٹی مسلسل بج رہی ہے۔
لیکن یہ کیا ؟ آواز قبر سے آ رہی ہے؟
یہ تو گونج ہے۔ ابدی موت جشن منا رہی ہے۔ پوری کائنات گونج رہی ہے۔

اے کرشا گوتمی تُو بھی جان لے ، یہ دنیا بھنور میں پڑنے والے گڑھے کی طرح ناپائیدار ہے۔ یہ اسوج کے بادلوں کی طرح کی دھوکے باز ہے۔ اسے تیاگ کر وہ قبر میں آسن جمائے بیٹھا ہے۔ اس کا خوراک پانی کی کمی سے مارا جسم نمک کی موجودگی میں حنوط شدہ لاش بن گیا ہے۔ خواہشات ختم۔
وہ عناصر بن کر بکھرے گا نہیں، کرم اسے مجبور نہیں کریں گے۔

اس نے نروان حاصل کر لیا ہے وہ جنم، بیماری ، بڑھاپے اور موت کے چکر سے آزاد ہو چکا ہے اور تُو اپنے کرموں کی وجہ سے یگ یگ سے بھٹک رہی ہے۔ تُو مر کر پھر نئی شکل میں دُکھ اٹھانے آ جاتی ہے۔ تیری خواہشات تجھے بھٹکا رہی ہیں۔ یاد رکھ مرنے کے بعد جسم مٹ جاتا ہے ،کرم برقرار رہتا ہے۔ زندگی کی خواہش برقرار رہتی ہے۔ خواہشات اور کرم انسان کو نیا جسم ، نئی زندگی اختیار کرنے کی تحریک دیتے ہیں۔ پس خواہش اور کرم کا یہ جوڑ زندگی کا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔ زندگی جو دکھ، تکلیفوں اور مشکلات کا گھر ہے۔

اے کرشا گوتمی! تُو نہیں جانتی خواہش دُکھ کی جڑ ہے۔ تُو ابھی تک سمجھ نہیں سکی کہ لذات فانی اور تعلقات جسمانی میں راحت و آرام تلاش کرنا شتر گم گشتہ کو چوہے کے بل میں تلاش کرنے کے مترادف ہے۔

اس پوتر ہستی کا پیغام سن! یہ گھنٹی کی ٹک ٹک تجھے یاد کروا رہی ہے،

Advertisements
julia rana solicitors london

جنم، دکھ، بیماری، بڑھاپا اور موت سے نجات کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات کے آگے بند باندھ کر اچھے کرم کرے تو اس کو نربان یعنی نیستی حاصل ہو جائے گی۔ وہ ہمیشہ کے لیے فنا ہو کر دکھ کے چکر سے نکل جائے گا۔ خواہشات اور زندگی سے نجات ، دوبارہ جنم لینے سے چھٹکارہ ، پرم شانتی ہے، نروان ہے۔

Facebook Comments

Syed Mohammad Zahid
Dr Syed Mohammad Zahid is an Urdu columnist, blogger, and fiction writer. Most of his work focuses on current issues, the politics of religion, sex, and power. He is a practicing medical doctor.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply