کتاب زیست ؟-ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

کتاب جہاں انسان کی بہترین دوست ہے۔وہاں یہ روحانی تشخص کی افزائش میں بھی پیش پیش ہے۔ایک زمانہ تھا جب لوگوں کی کتابوں سے محبت اور گہری وابستگی تھی۔ مطالعاتی ذوق انہیں انتظار پر مجبور کرتا تھا کہ کتاب کب آئے گی ،کیونکہ مارکیٹ میں کتاب آتے ہی  فروخت ہو جاتی تھی۔لکھاری اور پبلشر دونوں خوش ہوتے تھے۔کیونکہ لکھاری کو نام مل جاتا تھا۔جبکہ پبلشر زر مبادلہ کما لیتا تھا۔وقت کے ساتھ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ادباء اور اشاعتی اداروں کے درمیان فاصلے بڑھا دیے۔

لکھاریوں کا ذوق زوال میں بدل گیا۔ ان کے دِلوں میں وسوسے اور چہرے پر اداسی کے بادل چھا گئے۔جبکہ اشاعتی اداروں کے کاروبار بھی متاثر ہوئے۔بہت سے ادارے بند ہو گئے۔ جس کی بنیادی وجہ کتابوں کی فروخت میں واضح کمی ہے ۔انہیں غم روزگار نے دربدر کر دیا ہے۔دنیا کی بڑھتی ہوئی معاشی مجبوریوں نے مغربی لوگوں کی طرح مصروف رہنے پر مجبور کر دیا۔میرے نزدیک مشرق و مغرب میں وقت اور محنت کا تنازع  ختم ہو گیا ہے۔کیونکہ مشرق بھی اسی رفتار سے اپنے جسم و روح سے کام لینے لگ گیا ہےجیسے مغرب کے لوگ عادی ہیں۔

عصر حاضر میں معاشی مجبوریوں کے زخموں سے کون واقف نہیں؟ مہنگائی اور بے روزگاری کا صلیب جیسا کرب ہے۔ہر سو انتشار اور بد امنی ہے۔وقت نے حالات کا بڑی تیزی سے رُخ بدل ڈالا۔ مصروفیات کے  ہجوم نے خوب اپنی بانہیں پھیلا رکھی ہیں۔چلنے پھرنے سے مجبور کر دیا ہے۔غصہ ،نفرت ،بدگمانی ، جھوٹ ، فریب ، الزام ، دھوکہ ، خوف ، رہزنی ، لوٹ مار ، جلاؤ گیراؤ اور قتل و غارت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔نتیجتاً  کتاب ہاتھ سے چُھوٹ گئی۔خیالات بدل گئے۔حرص  و ہوس بڑھ گئی،تعلیم عام ہو گئی،کروڑوں لوگ ڈگریوں کا بوجھ اٹھائے دربدر ہیں۔ نوجوانوں کا مستقبل داؤ پر ہے۔وسائل برائے نام ہیں۔بہرحال جھوٹے وعدوں کی بانسری بجائی جا رہی ہے۔دلوں کی زمین بنجر ہو گئی ہے۔ان میں اونٹ کٹارے اُگ آئے ہیں۔محبت رسمی رواج میں ڈھل گئی ہے۔کتاب امتحان پاس کرنے تک بیگ کی زینت ہوتی ہے۔بعد ازاں ردی کی ٹوکری کی نذر ہو جاتی ہے۔

عصر حاضر میں جگہ جگہ جوتے شیشے کی دکانوں میں سجے  ہوئے اور کتابیں فٹ پاتھوں پر آدھی قیمت کا پہاڑہ  پڑھتی نظر آتی ہیں۔ کتاب دوستی اور کتاب زوال کی مختصر داستان سننے کے بعد امید ہے آپ کتاب زیست پر ضرور غور کریں گے۔

میں سمجھتا ہوں زندگی ایک کتاب کی طرح ہے۔
اسے لکھنا، پڑھنا اور پرکھنا چاہیے۔ ضمیر کی آواز سننی چاہیے۔اس سے باتیں کرنی چاہئیں ،مکالمہ کرنا چاہیے،کہانی سنانی چاہیے،نشیب و فراز کا بتانا چاہیے۔کاش ! خود احتسابی کا منظر آنکھ مچولی پر مجبور کرے۔انسان کا ہر دن کتاب کے اوراق کی طرح ہے۔یوں کہہ لیجیے سال کہ  365 اوراق بنتے ہیں۔جن پر ہماری زندگی کے اعمال یا بداعمال کی گواہی لکھی جاتی ہے۔اگر ہم اس بات پر دلجمعی سے غور کریں تو ان اوراق پر ہماری کارکردگی ، حسن اخلاق ، ناراستی کے کام ، حالات و واقعات ، کامیابیاں ، ناکامیاں ، منصوبہ بندیاں ، دکھوں کے بادل ، تشدد آمیز رویے حرف بہ  حرف درج ہوتے ہیں۔
انسان کی بدقسمتی ہے۔اسے ایک سال کے واقعات بھی یاد نہیں رہتے۔وہ اپنے مستقبل کی فکر میں اپنا ماضی بھول جاتا ہے۔ذرا رُک کر اس بات پر غور کیجیے۔ہم اوسطاً سات یا آٹھ عشرے جیتے ہیں۔
ہماری زندگی کا ایک ایک دن سورج کی کرنوں کے ساتھ طلوع و غروب ہوتا ہے۔لمحات انگڑائی لے کر گزر جاتے ہیں۔
جو دن بیت گیا وہ واپس نہیں آتا۔ہر دن کا اپنا اتار چڑھاؤ ہے۔کوئی نہیں جانتا کہ فلاں دن کیا ہوگا۔
اس کی جدت اور شدت کیسی ہوگی۔۔
انسان تسلسل کے ساتھ ایک خیال کی طرح اپنی زندگی گزارتا ہے۔دنیاوی فکریں اسے بے دل بنا دیتی ہیں۔پریشانیاں جکڑ لیتی ہیں۔معاشی مجبوریاں راہوں میں کانٹے بچھا دیتی ہیں۔ جب کہ انسان کتاب زیست کے منظر سے بالکل بے خبر ہے۔حالانکہ اسے اپنے حالات سے بخوبی واقفیت ہے۔ وہ اس بات کو بھی جانتا ہے کہ ایک نہ ایک دن مجھے یہ دنیا چھوڑنی پڑے گی۔مگر ہوتا کیا ہے؟ انسان لاپرواہی اور بے خبری کے عالم میں اس بات پر غور و خوض نہیں کرتا۔اپنی مصروفیت کے دائرے میں گھومتا رہتا ہے۔
وہ دن کو محنت مزدوری کرتا ہے جبکہ شب کے پہروں میں اسے فکروں کا ہجوم گھیر لیتا ہے۔

یوں کہہ لیجئے ہر دن کے نئے چیلنجز آزمائش بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یقیناً  انہیں شکست دینے کے لیے کسی جذبہ اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔کیونکہ اس عمل کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ حالات اسے اپنی آخرت پرغور و خوض کرنے کا موقع فراہم نہیں کرتے۔یہ بھی ہو سکتا ہے اسے اپنے انجام پر غور کرنے کا وقت نہیں ملتا۔حالانکہ انسان اس بات سے بھی بخوبی واقف ہے کہ وہ خالی ہاتھ دنیا میں آتا اور خالی ہاتھ واپس چلا جاتا ہے۔اس کا مال و دولت ، سونا، چاندی ،جواہرات اس کے ساتھ سپرد خاک نہیں ہوتے۔وہ سب کچھ دنیا میں چھوڑ کر دار فانی  روانہ ہو جاتا ہے۔اس کی وراثت تقسیم ہو جاتی ہے۔ بولیاں لگنا شروع ہو جاتی ہیں۔پنچائتیں بیٹھ جاتی ہیں۔

میرا خیال ہے انسان کو ہوش سنبھالنے کے بعد وقتا فوقتا اپنی زندگی پر غور و خوض کرتے رہنا چاہیے۔اس کے اوراق پلٹتے رہنا چاہیے۔اعادہ کرتے رہنا چاہیے۔
اپنے حقوق و فرائض کی جانچ پڑتال کرتے رہنا چاہیے۔دنیا اور آخرت کے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے۔
نیکی اور گناہ کا امتیاز کرتے رہنا چاہیے۔

ہمیں یہ بات سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ انسان کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔عصر حاضر میں ہر شخص کو اپنی کتاب زیست لکھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ وقت کے بارے کوئی نہیں جانتا کہ سندیسہ کب آ جائے گا ۔انسان کو ان تمام باتوں کو دنیا کی آسائشوں اور رنگینیوں سے باہر آ کر ضرور سوچنا چاہیے۔ظلم و زیادتی سے باز رہنا چاہیے۔نیکی اور بھلائی کے کام کرنے چاہئیں ۔دوسروں کے کام آنا چاہیے۔امن محبت اور صلح کا سفیر ہونا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم تھوڑا سا وقت نکال کر مذکورہ باتوں پر سوچ بچار کر سکتے ہیں۔اپنی زندگی کا جائزہ لے سکتے ہیں۔تو پھر دیر کس بات کی۔قوت فیصلہ کو سر اٹھانے کی زحمت دیں۔کچھ ناممکن ممکن ہو جائے گا۔اسی امید کے ساتھ اپنی کتاب زیست ضرور لکھیے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply