• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مظہر حسین سیّد۔۔ شاعری سے ” آن لائن اُردو ٹیچنگ ” تک ۔۔ نصیر وارثؔی

مظہر حسین سیّد۔۔ شاعری سے ” آن لائن اُردو ٹیچنگ ” تک ۔۔ نصیر وارثؔی

مظہر حسین سیّد گزشتہ دو دہائیوں سے سنجیدہ ادبی حلقوں میں اپنی منفرد شاعری کی بدولت جانے جاتے ہیں ۔ اُن کا شعری مجموعہ “سکوت” 2019 میں منظرِ عام پر آیا ہے جس نے اُنھیں عصرِ حاضر کے اہم شعرا میں لا کھڑا کیا ہے ۔ اس شعری مجموعے کو علمی و ادبی حلقوں میں بڑے پیمانے پر پذیرائی حاصل ہوئی ہے ۔ اور اباسین آرٹس کونسل پشاور نے اسے 2019 کا بہترین شعری مجموعہ قرار دیتے ہوئے ایوارڈ بھی دیا ہے ۔ اب اس کی گونج ہندوستان میں بھی سنائی دے رہی ہے ۔ اور بہت جلد اسے ہندی رسم الخط میں بھی شائع کیا جا رہا ہے ۔

مظہر حسین سیّد کی شاعری مزاحمت ، احتجاج اور رومان کی متاثر کن جمالیات کے ساتھ عصری ادب میں اپنا کردار اد ا کرتی دکھائی دیتی ہے ۔ سلگتی ریت کو دریا نہیں کہا میں نے غزل کہی ہے قصیدہ نہیں کہا میں نے حضور محترم عزّت ماب عالی جناب یہ سارا جھوٹ ہے ایسا نہیں کہا میں نے خورشید رضوی نے اُن کے مجموعہء کلام کے بارے میں لکھا ہے : ” مظہر حسین سیّد نے جادہء غزل پر کامیابی سے اپنا آپ برقرار رکھا ہے اور دکھایا ہے کہ روایت سے رشتہ توڑے بغیر اور زبان و اسلوب میں توڑ پھوڑ کیے بغیر بھی کوئی آواز فرسودگی کے زنگ سے پاک رہ سکتی ہے۔ نیز یہ کہ جدّت وجود میں ہوتی ہے نہ کہ لباس میں۔اُس کی کھینچی ہوئی قوس اپنے خم سے باہر آتے ہی نئے خطوط پر نکل جاتی ہے کیونکہ اس کی رائے میں زندگی دائرہ نہیں ہوتی ۔

مظہر حسین سیّد خاک میں خواب ملانے کا ہنر جانتا ہے اور اُسے اُس حسنِ بیاں سے وافر حصّہ ملا ہے جو بیانِ حُسن کے لیے ضروری ہے ۔ اُس کا مسلکِ فن اس مجموعے کے اوّلین شعر سے نمایاں ہے : شجر کلام کریں شہر بھی نیا ہو جائے میں ایک اسم پڑھوں اور معجزہ ہو جائے ” “سکوت ” کے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ “خورشید رضوی ” نے انتہائی عمیق نظری سے اس مجموعے کا مطالعہ و تجزیہ کیا ہے ۔ اور اس کے فنی اور جمالیاتی پہلوؤں کو واضح کیا ہے ۔ فکری سطح پر مظہرحسین سیّد کا سلسلہ ترقی پسند تحریک سے جڑتا ہے ۔ اس طرح اُنھوں نے غزل کے روایتی اسلوب کو برقرار رکھتے ہوئے بھی غزل کے موضوعات سے بغاوت کی ہے ۔ اور آج کے سلگتے ہوئے موضوعات کو غزل کا موضوع بنایا ہے ۔ اُن کی شاعری میں آج کی اجتماعی نفسیات ،فرد کی مزاحمت ، سماجی حقائق اورگہرا سماجی تجزیہ موجود ہے جسے اُنھوں نے مکمل سچائی کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ اُن کی شاعری میں لمحہء موجود کا رنگ بہت نمایاں ہے ۔ یہ سوچتے ہوئے بازار سے نکل آیا نہ جانے آدمی کیوں غار سے نکل آیا عجب نہیں ہے کہ بازار کو بہا لے جائے جو اشک چشمِ خریدار سے نکل آیا عمدہ ادب کی ایک روایتی تعریف یہ کی جاتی رہی ہے کہ وہ عام آدمی کی رسائی سے باہر ہوتا ہے ۔

اُن کے شعری مجموعے نے اس تاثر کو غلط ثابت کیا ہے ۔ شاعری کے اعلیٰ ہونے کا تعلق اُس کے فکر و فن سے ہوتا ہے نہ کہ اُس کی ثقالت اور ابہام سے ۔ اُنھوں نے شعوری طور پر اپنی شاعری کو مشکل تراکیب ، استعاروں اور ادق الفاظ سے بچایا ہے کہ مفاہیم کی ترسیل میں کوئی امر مانع نہ رہے ۔ اور ایک عام قاری بھی نہ صرف اُن کی شاعری سے حظ اُٹھا سکے بلکہ عدم ابلاغ کا شکار نہ ہو ۔ چھوٹی بحر میں اور سہلِ ممتنع میں اُنھوں نے ایسے ایسے شعر کہے ہیں کہ قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے ۔

یہاں افتاد یہ کیسی پڑی ہے جسے دیکھو اسے اپنی پڑی ہے ہم اس کو بیچ بھی سکتے نہیں ہیں ہمیں یہ زندگی مہنگی پڑی ہے ہمارا جرم تھا نغمہ سرائی ہمیں ہر موڑ پر گالی پڑی ہے اُن کے ہاں” ادب برائے زندگی ” کا رجحان پایا جاتا ہے اور موضوعات بھی سیاسی اور سماجی نوعیت کے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود اُنھوں نے ادبی چاشنی اور فنی لطافت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا ۔ اُن کے ہاں خیالات پوری ادبی شان کے ساتھ شعر میں ڈھلتے ہیں ۔ شعر کسی سطح پر بھی ادب سے گر کر نعرہ نہیں بنتا ۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ ادب تخلیق کر رہے ہیں اور جب کسی سیاسی خیال کو بھی پیش کیا جائے گا تو اُسے ادبی رنگ میں ڈھالنا ضروری ہے ۔ یہی وجہ ہے اُن کے ہاں گہرا تفکر اور ادبی ریاضت نظر آتی ہے ۔ اُن کی شاعری کسی شاعرانہ تخیل کی پیداوار نہیں بلکہ اُن کے ذاتی تجربا ت ، مشاہدات ، زندگی کی جدوجہد اور سیاسی رجحانات کا عکس ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ زندگی اُن کی شاعری میں دھڑکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ اُنھوں نے زندگی کو پیش کرنے کے لیے ایسے اسلوب کو اختیار کیا ہے کہ ہر شخص اس شاعری کو اپنی نفسیات سے منسلک تصور کرتا ہے ۔ اُن کے ذاتی خیالات میں اجتماعیت کا رنگ در آیا ہے اور ہر شخص اس آئینے میں اپنے رنج و غم کا عکس دیکھ سکتا ہے ۔ مری محنت سے دنیا چل رہی ہے مرے آنگن میں غربت پل رہی ہے میں ان دانشوروں سے پوچھتا ہُوں یہ کالی رات کب تک ڈھل رہی ہے ٹپکتا ہے کرائے کا مکاں بھی مری دیوارِ جاں بھی گل رہی ہے اُن کے ہاں عشق و محبت کے مضامین بھی ملتے ہیں لیکن مقداری حوالے سے اُن کی تعداد دیگر موضوعات کی نسبت بہت کم ہے ۔ شاید اُن کی زندگی میں دیگر مسائل اس حد تک حاوی رہے ہیں کہ اس موضوع کی جانب ان کی توجہ بہت کم رہی ہے ۔ لیکن جہاں جہاں انھوں نے اس موضوع کو بھی برتا ہے ۔ اُس کے پورے لوازمات کے ساتھ برتا ہے اور اُس میں ایک نیا حسن اور تازگی پیدا کی ہے ۔

نباہ کرتے ہوئے شامِ بے قرار کے ساتھ

ہماری عمر کٹی رنجِ بے شمار کے ساتھ

یہ انتظار بھی اک کام تھا جو کرنا تھا مگر کچھ اور بھی کرنا تھا انتظار کے ساتھ بیانِ حسن کو حسنِ بیاں ضروری ہے کمالِ فن بھی ہے لازم جمالِ یار کے ساتھ روایتی عاشق جب اپنے محبوب سے پیار کا طلب گار ہوتا تھا تو اس کے لہجے سے عجز اور انکسار ٹپکتا تھا ۔ مظہر حسین سیّد روایتی لہجے کو مسترد کرتے ہوئے ایک بالکل نئے اسلوب میں بات کی ہے ۔ اسی موضوع کی حامل ایک اور غزل کے کچھ اشعار دیکھیے اور سر دھنیے کہ کس لہجے اور اسلوب سے بات کی گئی ہے ۔

عشق میں قافلہ سالار نہیں چاہیے ہے

یہ تو دیوار ہے دیوار نہیں چاہیے ہے

کہہ دیا ہے کہ محبت کی ضرورت ہے سو ہے

ہم کو اس باب میں تکرار نہیں چاہیے ہے

مجھ سے مت اتنے تکلف سے ملا کر مظہرؔ

چاہیے یار اداکار نہیں چاہیے ہے

مظہر حسین سیّد ایک عمدہ شاعر ہی نہیں بلکہ ایک سچے اور کھرے انسان کی حیثیت سے بھی اپنی شناخت رکھتے ہیں ۔ وہ دوست اور دشمن کی تفریق کے بغیر عمدہ شاعری کو سراہتے ہیں ۔ نئے لوگوں کی شعری تربیت کے لیے ہمہ وقت کمربستہ رہتے ہیں ۔ بڑی تعداد میں نوجوانوں سے ان سے فکری اور فنی تربیت لی ہے ۔ ادبی منظر نامے پر نمایاں ہونے کے لیے اُنھوں نے ہمیشہ اپنے فکر وفن پر انحصار کیا ہے ۔ گروہ بندی ، تعلقات کا استعمال اور خوشامد جیسے ہتھکنڈے جو ادبی منظر نامے میں رائج ہیں وہ ہمیشہ ان سے دور رہ کر خاموشی سے اپنا کام کرتے رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے اُن کی شناخت اُن کا فکری اور فنی معیار ہے ۔ گذشتہ کچھ عرصے سے وہ مختلف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔ وقت کے بدلتے تقاضوں کے ساتھ تعلیمی سرگرمیاں بھی آن لائن منتقل ہوئی ہیں اور طلبہ و طالبات اور شائقین زبان وادب کی کثیر تعداد اردو زبان و ادب سے متعلق آن لائن مواد حاصل کرنا چاہتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

افسوس کی بات یہ کہ اس حوالے سے معیاری مواد نہ ہونے کے برابر ہے ۔ یہ بات خوش آئند ہے اب” مظہر حسین سیّد” جیسے کہنہ مشق شاعر اور اُستاد نے  یو ٹیوب چینل بنایا ہے۔ جہاں وہ زبان و ادب کی تدریس و تریج کا کام کر رہے ہیں ۔ اس حوالے سے اُن کا کام نہ صرف معیاری ہے بلکہ نئے سیکھنے والوں کے لیے آسان فہم بھی ہے ۔ اُن کے بقول “اس چینل پر نہ صرف شعر و نثر کے اسرار و رموز زیرِ بحث آئیں گے بلکہ عمدہ شاعری ،کتابوں پر تبصرے ، مشاعرے اور طلبہ و طالبات کی نصابی ضروریات کو بھی مدنظر رکھا جائے گا”۔ چینل پر اب تک موجود مواد کو مدنظر رکھ کر بات کی جائے تو اُس کے معیاری ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ۔ اُردو زبان و ادب کی تدریس اور ترویج کے لیے اس طرح کی کوششیں لائقِ تحسین ہیں ۔ اس وقت زبان و ادب شکست و ریخت کا شکار ہیں اور ٹیلیویژن پر بیٹھے ہوئے میزبان اور صحافی حضرات تک درست زبان نہیں بول رہے اور نہ ہی درست املا لکھ رہے ہیں ۔ اس لیے آج اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ جس طرح ” مظہر حسین سیّد ” نے اپنی شاعری سے ادبی حلقوں میں ایک پہچان بنائی ہے ۔ اسی طرح وہ اس چینل کے ذریعے پاکستان ، ہندوستان اور اردو بولنے ، سمجھنے والے دیگر علاقوں میں اُردو کی تدریس و ترویج کے حوالے سے ایک مقام حاصل کریں گے ۔ اور شاعری کے ساتھ ساتھ زبان و ادب کی تدریس و تریج میں بھی اپنا کردار ادا کریں گے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply