زندگی، روح اور شعور۔۔انجم گیلانی

یہ حقیقت ہے کہ آج تک زندگی کی کوئی متفقہ تعریف سامنے نہیں آ سکی ہے۔ بس مختلف آثار ہیں جن کے ظہور کو ہم زندگی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ایک صاحبِ نظر نے زندگی و موت کے تعلق کو یوں بیان کیا تھا کہ
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب،
موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا
ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ بچہ جب ماں کے بطن میں پرورش پا رہا ہوتا ہے، تو ایک خاص وقت میں اس کے اندر خدا کی طرف سے روح آتی ہے جس کے بعد وہ زندہ تصور کیا جاتا ہے۔ حالانکہ سپرم اور ایگ (egg) خود بھی زندہ سیلز ہیں۔ ان کے ملاپ سے بننے والا زائیگوٹ بھی زندگی رکھتا ہے تو جب ابتداء ہی زندگی سے ہو رہی ہے تو پھر روح آ کر کون سی زندگی عطا کرتی ہے۔ کیونکہ زندگی کا پروسس تو روح کے دخول سے پہلے ہی اپنی منزلیں طے کر رہا تھا یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ “روح” زندگی کے علاوہ کچھ اور صفات عطا کرتی ہو لیکن وہ کون سی صفات ہیں اس پہ اہلِ علم کو ضرور اپنی رائے دینی چاہیے۔ جہاں تک شعور کی بات ہے تو وہ تو انتہاہی پیچیدہ نیورانز کے مربوط نیٹ ورک کا مرہونِ منت ہے جو کہ embryogenesis کے دوران developmental stages ہی کا ایک اہم باب ہے، جس کے میکنزم کو روح کی مداخلت کے بغیر بھی explain کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب پروسس انسانوں کی طرح باقی جانوروں میں بھی ہوتا ہے۔ اگرچہ جانوروں میں شعور کا لیول انسانوں سے کم ہوتا ہے لیکن وہ شعور سے مکمل طور پر محروم نہیں ہوتے۔ ان کا یہ شعور کس وجہ سے پیدا ہوا؟ کیا ان کے اندر بھی کوئی روح ہوتی ہو گی۔
اگر روح ان میں ہے تو جب خدا نے روحوں سے وعدہ لیا تھا تو کیا اس وقت ان جانوروں کی روحوں نے بھی ہمارے ساتھ خدا پہ ایمان کا وعدہ کیا تھا؟

ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایسے indicators ہوں جن سے ہم حتمی طور پہ سمجھ سکیں کہ انسانی وجود کے یہ اوصاف فقط روح کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔ اگر ان اوصاف کی وضاحت حیاتیاتی اصولوں کی روشنی میں ہی ممکن ہو تو پھر وجود میں روح کا مصرف کیا ہو گا؟

کیا موت روح نکلنے سے آتی ہے اگر ایسا ہے تو جانوروں کو موت کیا نکلنے سے آتی ہے کیونکہ ان میں تو روح ہوتی ہی نہیں ہے۔

ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہو سکتا ہے جن اخلاقی احساسات کو ہم روح کا مرہونِ منت سمجھتے ہیں وہ خود انسانی فکر ہی کے ارتقاء کا نتیجہ ہوں۔ کیونکہ انسان خارج میں موجود سماج کا عکس اپنے باطن میں اُتارتا رہتا ہے پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ باطن میں اپنے ہاتھ سے تعمیر کیے سماج (internalised society) کو ہی ضمیر کی آواز سے تعبیر کرنے لگتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ خدا نے انسان کی تخلیق میں ہی اخلاقی شعور ودیعت کر دیا ہے اور اس تک پہنچنے کے لیے کسی فکری ارتقاء کی ضرورت نہیں ہے۔ بات روح سے شروع ہو کر اخلاقی شعور تک جا پہنچی ہے۔ اب اس سوال کو بھی نظر میں رکھیے کہ انسان کے علاوہ کوئی اور بھی مخلوق ہے جسے اپنے شعور کا بھی شعور ہو؟
حقیقت تو خدا ہی جانتا ہے۔ ہم انسان تو صرف باہمی مکالمے کے ذریعے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش ہی کر سکتے ہیں۔
سو میری بات کو سمجھیں بھی اور اگر ہو سکے تو مجھے سمجھائیں بھی۔
شاید اسے عشق نہ سمجھے،
جس کرب میں عقل مبتلا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply