مرے تھے جن کے لیے(2،آخری قسط)۔۔شاہین کمال

ایک دن بلقیس کچے گوشت کی بریانی اور میری پسندیدہ پڈنگ بنا کر لائی۔ میں نے اس کے ہاتھوں کے ذائقے کی تعریف کی تو خوب ہنسی اور کہنے لگی سب قادر سے سیکھا ہے کہ ان کی خواہش شیف بننے کی تھی، پر آپ تو جانتی ہیں۔۔دس سال پہلے پاکستان میں یہ کام اتنا پسندیدہ کہاں تھا؟ میں تو انہیں کہتی ہوں کہ کلنری اسکول میں داخلہ لے کر ریڈ سیل لیجیے اور اپنا شوق پورا کیجیے۔

اس کا ہر جملہ قادر سے شروع ہو کر قادر پر ختم ہوتا۔ دنیا کا کوئی بھی موضوع ہو مگر تان ہمیشہ قادر ہی پر آ کر ٹوٹتی۔ اس کی محبت کی جوت سے جگمگاتی آنکھیں اور قادر کا نام لیتے وقت اس کے لہجے میں گھلی مصری مجھے بہت لطف دیتی۔ شادی کے تیرہ سال بعد بھی اتنی توانا اور بھرپور محبت میری نظروں سے بہت کم گزری تھی۔ ایک دن میں نے پوچھا کہ تمہاری شادی ارینج ہے یا پسند کی۔ کہنے لگی پسند کی نہیں بھئی محبت کی شادی ہے۔ بڑی مخالفتوں کے بعد ہم نے ایک دوسرے کو پایا ہے۔ وہ محبت سے چھلکتی مئے تھی اور شاید اس کا جنم ہی محبت کے فروغ کے لیے تھا۔ طبیعت سے غنی اور منکسر المزاج۔ اب میرا اور اس کا دس سالہ ساتھ تھا مگر میں نے اس کے منہ سے کبھی بھی کسی کی برائی نہیں سنی۔ ایک بار پوچھا بھی کہ سچ سچ بتاؤ،” کیا تمہیں واقعی کسی سے کوئی شکایت نہیں؟ میاں، سسرال، خاندان، دوست احباب، کسی کی کوئی بات کبھی تو بری لگی ہو گی؟”
ہنس کر کہنے لگی “خالہ زندگی تو محبت کے لیے بھی بہت تھوڑی ہے اسے کہاں نفرتوں کی  نذر کرتی پھروں۔ دل میں ہمیشہ ایک قبر بنا کر رکھنی چاہیے تاکہ اس میں اپنوں کی کوتاہیاں اور گلے شکوے کو دفن کرتے رہا جائے اور بندہ سکون سے جیے۔”

بلقیس اور قادر کے تینوں بچے بڑے تمیز دار اور پیارے تھے اب تینوں ہی اسکول جانے لگے تھے اس لیے اس کے پاس قدرے فراغت تھی مگر وہ بھی سیماب صفت اسے کہاں چین، اس نے اس فارغ وقت کو فری لانسنگ اور اپنے پینٹنگ کے دیرینہ شوق سے مصروف کار کر لیا۔

میں انصار کی دلہن کی تلاش میں تھی کہ اس نے مجھے ایک لڑکی سے ملوایا، مجھے وہ لڑکی اچھی لگی مگر میں نے بلقیس سے کہا کہ بھئ کہیں سے اپنی ڈپلیکیٹ ڈھونڈ کر لاؤ ۔
خوب ہنسی اور کہا خالہ مجھے بنانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے وہ سانچہ  توڑ دیا ہے۔

واقعی میری اتنی عمر گزری، کیا دیس کیا پردیس میں نے ایسی بے ریا اور بے لوث روح نہیں دیکھی۔ انصار نے بھی اس لڑکی کو پسند کیا اور یوں یہ معاملہ طے پا گیا۔ انصار کی شادی کی گہما گہمی میں، میں نے اسے قدرے تھکے تھکے پایا اور خیریت پوچھنے پر پتہ چلا کہ چوتھے مہمان کی آمد آمد ہے۔ اس کی چوتھی پریگننسی بہت سخت رہی اور سی سیکشن کے بعد اللہ تعالٰی نے گل گوتھنا سا شہزادہ اس کی گود میں ڈال دیا۔

اب میرا زیادہ وقت وینکوور میں ابصار کے گھر گزرتا کہ پوتا پوتی کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی زندہ کھلونے دے دیے تھے اور انصار کی شادی کے بعد اس کی طرف سے بھی بے فکری تھی۔ رمشا  میری چھوٹی بہو اور بلقیس میں بڑا بہناپا تھا۔

دو بیڈ روم کا فلیٹ اب بلقیس کے لیے بہت تنگ پڑ گیا تھا اور وہ قادر کی اگلی پے ریز کی منتظر تھی کہ کم از کم تین بیڈ روم کا فلیٹ کرائے پر لے لے مگر ٹورانٹو میں تو رینٹل پراپرٹی میں گویا آگ لگی ہوئی تھی اور اس جگہ سے دور وہ جانا نہیں چاہتی تھی کہ یہاں سے اسکول، مسجد اور گروسری کی دکان سب دس منٹ کے فاصلے پر۔ اس کی شادی کی پندرھویں سالگرہ قریب تھی اور وہ اس بار قادر کے لیے سرپرائز پارٹی کا مکمل منصوبہ بنائے ہوئے تھی۔ اس کے لیے آن لائن شاپنگ کر چکی تھی اور قادر کا تحفہ محبت سے پیک کر کے میری الماری میں رکھوا دیا تھا۔ پیک شدہ تحفہ پر وہ دیر سے
بے خبری میں محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بے اختیار مسکرا رہی تھی۔ کبھی کبھی اس کی جنوں خیز محبت مجھے ڈرا دیتی تھی۔ میں نے ایسے ہی چھیڑا کہ بلقیس کیا تم قادر کے نام کی تسبیح بھی پڑھتی ہو؟
اپنی مخصوص چھناکے دار ہنسی کے ساتھ بولی ” خالہ میری تو آتی جاتی سانسیں ہی اس کے نام کی ردم پر چلتی ہیں۔”
میں نے کہا لڑکی، تم دیوانی ہو۔

مئی کے مہینے  میں ابصار کی طرف وینکوور چلی گئی  کہ دلہن کے یہاں خوش خبری تھی۔ بلقیس نے بھی میرے ساتھ ننھے مہمان کے لیے ڈھیر ساری سوغات بھیج دی تھی اور مجھ سے وعدہ لیا کہ میں اس کی شادی کی سالگرہ کی تقریب سے پہلے وآپس آ جاؤ ں گی۔
مجھے وینکوور پہنچے بمشکل ایک ہی ہفتہ ہوا تھا، وہ اتوار کا دن تھا اور میں ننھے ارحم کی مالش کر رہی تھی کہ فون کی گھنٹی پر ابصار نے چہکتے ہوئے فون اٹھایا مگر لمحے بھر ہی میں اس کی آواز کی دہشت اور چہرے کی سفید رنگت نے مجھے بے چین کر دیا۔
الہی خیر  ! انصار اور دلہن خیریت سے ہیں نا؟

ابصار نے مجھے پکڑ کر پلنگ پر بیٹھایا اور بڑی دلہن کو پانی کے لیے آواز دی۔
میرا دل گھبرا رہا ہے ابصار جلدی بتاؤ کیا ہوا ہے؟
امی قادر بھائی اور ان کی فیملی ملٹن جا رہے تھے کہ گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔
اللہ خیر سب ٹھیک تو ہیں؟
امی ! سب مخدوش حالت میں ہسپتال میں داخل ہیں۔
میرا دل ڈوب گیا، ہائے میری بچی!
ائیرپورٹ پر انصار لینے آیا تھا اور وہ وہیں مجھ سے لپٹ کر بلک بلک کر رونے لگا۔
امی!  باجی، سلیمان اور ہادیہ نہیں رہے.
روتے بلکتے گھر پہنچی، میرے سمجھ ہی میں نہیں آ رہا تھا کہ میں قادر کو کن الفاظ میں تسلی دوں؟ قادر، نوریہ اور یوسف معجزاتی طور پر بچ گئے تھے۔
قادر مجھے دیکھتے ہی میرے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اس نے بتایا کہ سڑک کراس کرتے ہرن کو بچانے کی کوششوں میں گاڑی گڑھے میں جا گری۔ ہم سب بہت زخمی نہیں تھے۔ بلقیس نے اپنے زخموں کی پروا نہ کرتے ہوئے یوسف اور نوریہ کو گاڑی سے نکالا پھر بڑی مشکل سے مجھے نکلنے میں مدد دی کہ گاڑی اسی پہلو سے الٹی تھی، وہ جنونی طور پر سلیمان اور ہادیہ کو بچانےکی کوششوں میں ہلکان تھی کہ گاڑی سے لیک ہوتے پیٹرول نے آگ پکڑ لی اور وہ تینوں بھڑکتے شعلے کی  نذر  ہو گئے ، سیکنڈ سے بھی کم میں سب کچھ ختم ہو گیا۔
ماں تھی نا بیٹا، اپنی جان کی پروا ہ کیسے کرتی، اور تم پر تو وہ ویسے ہی پل پل نثار رہتی تھی
سو تمہیں اپنی جان پر کھیل کر بچا ہی لیا۔
مجھے قادر کا بڑا دکھ تھا بھلا چونتیس پینتیس سال کوئی عمر ہے اجڑنے کی؟
پر مشیت ایزدی کے آگے کس کی چلی ہے۔ قادر کے والدین کو بیٹے کے دکھ نے نڈھال کیا ہوا تھا۔وہ لوگ اب قادر کے ساتھ رہنے لگے تھے اور ان ہی کی وجہ سے نوریہ اور یوسف سنبھل گئے۔
دو سالہ یوسف تو دادی کو ایک پل کے لیے نہیں چھوڑتا تھا۔ شروع کے دنوں میں یوسف پورے گھر میں بلقیس کو پکارتا چلتا، جب تھک کر بے دم ہو جاتا تو اس کا ڈوپٹہ یا اسکارف لے کر کسی کونے میں نڈھال پڑ جاتا، مگر کب تک؟

بے بس ہو کر بالآخر دادی کی گود میں پناہ لی۔ بہت کمزور اور چڑچڑا ہو گیا تھا۔ بھرے پرے گھر کی چہک اور رونق ختم ہو گئی تھی۔ بچوں اور گھر کی دیکھ رکھ میں دادی غریب الگ ہلکان تھیں۔

میں اکثر ان کے پاس جا کر بیٹھ جاتی اور جو بھی بن پڑتا کر دیتی۔ وہ گھر جہاں قہقہے اور زندگی تھی وہاں ویرانی اور خاموشی نے ڈیرے ڈال لیے تھے۔ ہفتوں سب الٹ پلٹ رہا مگر گزرتا وقت اور نسیان دو ایسی بیش بہا نعمتیں ہے جو زخموں پر کھرنڈ ڈال ہی دیتی ہیں۔ سوگ کے دنوں میں قادر کے گھر، اس کی ایک دور پار کی کزن کی آمد و رفت بہت بڑھ گئی تھی، اتنی زیادہ کہ وہ ہر فیصلے کی مشیر اور گھر کے فرد کی زندگی میں دخیل ٹھہری۔ وہ بلاشبہ ایک خوب صورت اور دلکش لڑکی تھی۔ بلقیس کے گھر میں تیزی سے درآتا بدلاؤ اور نارمیلسی حیران کن تھا۔ میری تجربہ کار بوڑھی آنکھیں بہت کچھ دیکھ رہی تھیں۔

مجھے حیرت اور دکھ بس اس بات کا کہ کیسا دوغلا معاشرہ ہے ہمارا، کیا ہم کسی تیس پینتیس سالہ بیوہ کے لیے اتنے فراخ دل ہو سکتے ہیں کہ اس کی دوسری شادی کے لیے متفکر ہوں؟ اس بےبس عورت کی تنہائی تو ہمارا دل نہیں پگھلاتی جبکہ عورت صنف نازک بھی ۔ اس کے لیے یہ کیوں طے کر لیا جاتا ہے، کہ بس اب کی ذاتی زندگی ختم، سو اب وہ خواہشوں، جذبوں اور موسموں سے دستبردار ہو کر کولہو میں جت جائے اور اطراف سے بےنیاز ہو کر بچوں کی پرورش میں تن من سب جھونک  دے۔ اس کے کمزور کاندھوں پر بچوں کی دیکھ ریکھ کے ساتھ ساتھ معاش کی کُل ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے اور اس پر طرفہ ستم یہ کہ اس سفر پرخار میں ہر ہر فٹ کی مسافت پر زبان لپلاپاتے ہوئے خون آشام بھیڑیے اس کی عزت اور جان کے درپے بھی رہتے ہیں۔ خدا کی وہ کمزور مخلوق ممتا کی ردا اوڑھے ہر آزمائش اور ابتلا سے گزر جاتی ہے اور بعض بد قسمت تو اس کٹھالی سے گزرنے کے باوجود آخری عمر میں خالی ہاتھ رہ جاتی ہیں۔
آخر مرد ہی کے معاملے میں معاشرے کی ممتا کیوں ابل ابل کر پھوٹتی ہے؟
صنف قوی اکلاپے کی اذیت کیوں نہیں سہ سکتا؟ کیوں اپنے بچوں کی ماں بن کر پرورش نہیں کر سکتا؟ اس کے پاس تو معاش بھی ہے اور وہ معاشرے سے خوف زدہ بھی نہیں کہ وہ خود ہی تو معاشرہ ہے۔ جب عورت باپ بن سکتی ہے، کمزور ہوتے ہوئے نفس سے لڑ سکتی ہے تو مرد کیوں نہیں؟

اوّل تو کوئی عورت کو سہارا دینے کا روادار نہیں بالفرض محال کسی نے دکھیاری کو سہارا دے بھی دیا تو اس سہارے کے عوض اس کی اور اس کے بچوں کی سانسیں رہن رکھ لی جاتی ہیں۔

میری توقع سے بھی پیشتر قادر کی شادی کا کارڈ میرے ہاتھوں میں تھا۔
شادی کا کیا ہے؟ شادیاں تو دیر یا سویر ہو جاتی ہیں  کہ کمزور مرد نہ وچھوڑ ا سہہ سکتا ہے اور نہ ہی ہجر کاٹ سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں دلگیر تھی، کہ مجھے شدید رنج محبت کی رپلیسمنٹ کا تھا۔ کیا محبت جیسا آفاقی جذبہ اتنا ہلکا اور خام ہے کہ ہجر کی تپش بھی نہ سہار سکے۔قادر ایسا بے قدر کہ پندرہ سالہ رشتے کا بھرم پندرہ مہینے تو کیا، پندرہ ہفتے بھی نہ رکھ سکا۔ وہ جان نثار کم از کم اتنے کی مستحق تو تھی ہی۔ مجھے تو یقین ہے وہ کملی وہاں بھی اسی کے نام کی تسبیح پھرولتی ہو گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply