سیاست کا مقام یہ چوک چوراہے نہیں ۔۔ڈاکٹر ابرار ماجد

سیاست کا اصل مقصد خدمت ہے اور یہ خواہ حکومت کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو، عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ اور اس کی جگہ علم، عدل، فکر اور سوچ وبچار والے دانشوروں اور علم و تجربہ کے حامل ماہرین کی محفلیں ہوتی ہیں جہاں عوام اور ریاست کے معاملات، اس کو درپیش مسائل کے بارے غوروفکر اور اس بارے جذبہ کے ساتھ عملی اقدامات کئے جاتے ہیں۔ اور ایک جمہوری ریاست کے اندر اس کا اصل مقام عوامی نمائندہ تنظیم ہے جسے ہم قومی اسمبلی کا نام دیتے ہیں۔

یہ اسمبلی کا کام ہے کہ وہ ریاست کو چلانے بارے نظم و ضبط ترتیب دے کر معاملات کو اس کے مطابق چلانا یقینی بنائے اور اگر کوئی مسائل درپیش آتے ہیں تو ان کا باہمی فہم وفراست سے حل تلاش کرے۔

یہ ہماری بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ آج سیاست اسمبلی کی بجائے چوک چوراہوں کا رخ اختیار کرچکی ہے۔

عوامی نمائندوں نے اپنے مقام کو سمجھنے کی بجائے اپنے آپ کو بیچ چوراہے بے نقاب کرکے اپنا مقام دھول میں ملا دیا ہے اور نہ صرف خود بلکہ قوم و ملک کو بھی دنیا کی نظروں میں تماشہ بنا کر رکھ دیا ہے۔

دنیا کے ہر کام کے لئے تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے دنیا میں واحد ہماری سیاست ہے جس کے لئے کسی تعلیم و تربیت کی ضرورت نہیں، جو، جب چاہتا ہے وہ اس میدان  میں کود پڑتا ہے اور اس ملک و قوم کی تقدیر کے فیصلے کرنے لگتا ہے۔

ایسا اس ریاست میں ہوتا ہے جس کے والی وارث اس کی ملکیت اور اہمیت کے احساس سے غافل ہوں۔ کبھی آپ نے دیکھا ہے کہ کسی کے گھر سے بغیر اجازت یا زبردستی کوئی ٹوٹا ہوا جوتا بھی اٹھالے۔ کیونکہ اس کو اس کی ملکیت، یعنی وہ اس کا ہے اور اہمیت، کہ کباڑ میں بھی دو چار روپے کا بک جائے گا، کا احساس ہے۔ اس لئے وہ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے۔

جب تک عوام کے اندر اس وطن کی ملکیت اور اہمیت کا احساس پیدا نہیں ہوگا۔ سیاسی بہروپیے اور مداری اسی طرح اس ملک و قوم کی تقدیر کے فیصلے چوک چوراہوں میں کرتے رہیں گے۔ اور تماشا لگا رہے گا۔

عوام اس ملکی کی گلیاں، سڑکیں، ہسپتال۔ سکول اور املاک کو اپنا سمجھتی ہی نہیں۔ جب تک ان کی ملکیت اور اہمیت کا احساس پیدا نہیں ہوگا ان کی حفاظت تو درکنار ان کو تباہ کرنے کی خود ہی سبب بنتی رہے گی۔

کبھی کوئی اپنی کمائی سے خریدی ہوئی سائیکل اپنی حقیقی اولاد کو بھی سکھائے بغیر دیتا ہے۔ پہلے اس کو چلانے کی تربیت دیتے ہیں کہ چلانی کیسے ہے۔ پھر اپنی نگرانی میں اس کی مشق کرواتے ہیں تب جا کر اس پر اعتماد کرتے ہیں کہ وہ اس کو آزادانہ چلا سکے۔

بغیر تربیت اور مشق اس لئے نہیں دیتے کہ کہیں اپنی ٹانگ نہ تڑوا بیٹھے یا سائیکل کا ہی کباڑا نہ کردے۔

ایک اس ریاست کے معاملات ہیں جو قوم نے ناسمجھ اور نا پختہ افراد کے ہاتھوں میں دے دیے ہیں اور انہوں نے بیچ چوراہے کے نہ صرف اپنی ٹانگیں تڑوا لی ہیں بلکہ ریاست کا بھی کباڑا کردیا ہے۔

جمہوری ریاستوں کے اندر سیاسی جماعتیں ہی وہ ادارے ہوتے ہیں جو سیاسی کارکنوں کی تربیت کرتی ہیں اور ان کو آئین و قانون کے تابع رہ کر ریاستی معاملات چلانا سکھاتی ہیں اور جب سیاسی جماعتیں ایسا کرنے سے قاصر ہوں تو پھر اسی طرح چوک چوراہوں کی سیاست کی نوبت آجاتی ہے۔

دکھ کی بات تو یہ ہے کہ اب بھی کسی کا احساس نہیں جاگ رہا کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ اور ہمارے اس فعل کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ بجائے اس کے کہ مشورہ دیا جائے کہ یہ فعل ٹھیک نہیں سب اکٹھے ہوکر چوک چوراہے میں تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

مگر یاد رکھو کہ جب ٹانگیں ٹوٹیں گی اور ریاست کا کباڑا ہوگا تو تماشبینوں میں بھی کوئی نہیں بچے گا۔ یہ نادان نہ صرف ریاست کا کباڑا کریں گے بلکہ تماشبینوں کو بھی بیچ چوراہے ننگا کرکے نچائیں گے۔ جس کو اپنی ٹانگوں کی فکر نہیں اس کو دوسروں کی عزت کی کیا پرواہ ہے۔

سمجھدار قومیں وقت کی ضرورت اور معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے بروقت کوئی نہ کوئی انتظام کرتی ہیں تاکہ وقت سے پہلے ہی خطرات سے بچنے کی کوئی سبیل پیدا کی جاسکے۔

حکومت تو اپنے تئیں کوشش کر ہی رہی ہے مگر اداروں کو بھی چاہیے کہ اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اس چوک چوراہوں کی سیاست کو قابو کرنے کے لئے کوئی عملی اقدام کریں اس سے پہلے کہ یہ نام نہاد سیاستدان اپنی ٹانگیں بھی تڑوا بیٹھیں اور ریاست کا بھی کباڑا کریں۔

سمجھداری کا تقاضہ یہی ہے کہ اگر نادان بچے ضد کریں تو ان کو سائیکل دیں ضرور مگر سمجھائیں کہ پہلے اس کو چلانا سیکھ لیں پھر یہ تمھاری ہی ہے جیسے چاہو چلاتے پھرنا اور اگر نہیں مانتے تو ان کی صحت کی بہتری کے لئے تھوڑی سی سختی میں بھی کوئی حرج نہیں۔

سپریم کورٹ کا بہت ہی احسن فیصلہ ہے جس سے تحریک انصاف کو انکے جمہوری حق کی پاسداری کے لئے موقعہ فراہم کیا ہے مگر اب انکو پابند کرنے کی ذمہ داری بھی ان پر ہی آن پڑی ہے کہ وہ آئین و قانون کی حدود میں رہتے ہوئے اپنے احتجاج اور حق اظہار رائے کا استعمال کریں اور اس کے بعد آئینی طریقہ اپناتے ہوئے اسمبلیوں کا رخ کریں جو سیاست کا اصل اور حقیقی مقام ہے۔

لگ یوں رہا ہے کہ تحریک انصاف سپریم کورٹ کو دی گئی یقین دہانیوں پر عمل نہیں کر پارہی اور اس سے بدنظمی پھیلنے کا خطرہ ہے جس کی طرف حکومت نشاندہی کر رہی تھی۔

اب ان جتھوں کی سیاست کا خاتمہ ہوجانا چاہیے اور مقننہ کا کردار اس کے جائز مقام پر ہی ہونا چاہیے۔ جمہوریت کو اپنی بساکھ کے مطابق چلنے دینا چاہیے تاکہ یہ فطری طریقہ سے پختگی کو پہنچے۔ اسمبلی کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے جیسا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود پچھلی دو اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی ہے۔ اس سلسلہ کو اسی طرح سے چلتے رہنا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر کوئی فرد یا گروہ اس سلسلے میں غیر آئینی یا غیر جمہوری طریقے سے رکاوٹ بننے کی کوشش کرتا ہے تو پھر آئین میں دیے گئے طریقہ سے ان کا علاج بھی کیا جانا چاہیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply