دا بے غیرتا، دا بے شرما

ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کے کچھ ہی روز بعد افغانستان پر امریکی حملے کے آثار واضح تھے۔۔خطے میں عجیب طرح کا مخمصہ پھیلا ہوا تھا، پیچیدہ صورتحال کی ہر ممکن رپورٹنگ کے لیے دنیا بھر کے اہم اداروں سے صحافی پاکستان آۓ تو یہاں کے چھوٹے مگر پڑھے لکھے صحافیوں کو ان کا گائیڈ اور ترجمان بن کر روزگار کمانے کا ایک عمدہ موقع مل گیا، میں بھی ان بہت سے جونئیر صحافیوں میں شامل تھا جو فوجی دور حکومت میں اخباروں کی تباہ شدہ معاشی حالت کے باعث کسمپرسی کی زندگی گذار رہے تھے ، ایک روز میں کسی کام سے پریس کلب گیا ہوا تھا کہ الجزیرہ کی ایک ٹیم سے ملاقات ہو گئی، اتفاق سے میں اچھی انگریزی بول لیتا تھا اور افغانستان کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات بھی رکھتا تھا جس کے پیش نظر مجھے اس ٹیم کے دورہ افغانستان کے دوران ان کے معاونین میں شمولیت کی پیشکش کر دی گئی اور میں ضروری دستاویزات کی تیاری کے بعد افغانستان روانہ ہو گیا، افغانستان میں ابھی طالبان کا راج قائم تھا اور شریعت کی پابندی سختی سے کی جا رہی تھی، کابل میں جب ہمارا پہلا باضابطہ پڑاؤ ہوا تو دفتر خارجہ کی ایک چھوٹی سی مہمان گاہ میں ہماری تواضع کے دوران ہی ہمیں افغانستان میں قیام کے دوران برتی جانے والی احتیاط کی ہدایات جاری کر دی گئیں ،قافلے میں شامل خواتین کو گاؤن اور سکارف اور ہم مسلمان شرکاء کو باریک باریک سلائیوں سے ہم رنگ کڑھائی کی گئی سفید ٹوپیاں پیش کی گئیں تاکہ عام پبلک کے درمیان کام کرتے ہوئے کسی اجنبی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے، کابل غیر ملکی صحافیوں کیلئے عجائب گھر سا تھا ،وہ ہر شے کو بڑے غور سے دیکھتے اور چوری چھپے تصاویر بھی بنا لیتے کیونکہ طالبان حکام کی جانب سے کسی بھی جاندار شے کی تصویر لینے کی اجازت نہ تھی۔ دن کو شہر کے دورے کے دوران نوٹ کی گئی سب باتیں رات بھر زیر بحث رہتی ، بھرے پرے بازار میں کبھی کوئی عورت نظر نہیں آتی تھی، نماز کے دوران ویران دکانیں،جنہیں ان کے مالک کھلی چھوڑ کر مساجد میں چلے جاتے، شام کے وقت فٹ پاتھوں پر انڈے لڑانے کا کھیل، پولیس کی گاڑیوں میں گشت کرتے لمبی داڑھیوں، کھلے کپڑوں اور بڑے بڑے عماموں والے اہلکار، سڑکوں کے کنارے کباڑ ہوتے روسی سکڈ میزائل جنہیں طالبان اور شمالی اتحاد صرف اس لیے نہ چلاتے تھے کہ دشمن بھی ان کے اپنے ہی لوگ ہیں، نائیوں کی دکانوں پر شیو کی سہولت کی عدم دستیابی، رہائشی علاقوں میں بھی اگر کوئی عورت نظر آجاتی تو وہ بھلے سر تا پا ٹوپی برقعے یا بڑی سی چادر میں چُھپی ہوتی مردوں کو دیکھتے ہی فورا دیوار کے ساتھ چمٹ جاتی، کابل میں مختلف شخصیات کے انٹرویوز اور مختلف موضوعات پر رپورٹس تیار کرنے کے بعد ہم اگلے پڑاؤ قندھار کی طرف روانہ ہوۓ، قندھار میں چونکہ ہم نے زیادہ کام دیہی علاقوں میں کرنا تھا اس لیے ہمیں نئے سرے سے ہدایات جاری کی گئیں اور ساتھ میں دو مقامی افراد بطور گائیڈ دے دیئے گئے، قندھار تب تک خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا، لمبی اور سیدھی ایک شاہراہ کے اردگرد بسا، جہاں نیلی مسجد اور اس جیسی دیگر عمارتیں دل موہ لیتی تھیں وہاں شیدا چوک کے گرد بسے بازار بھی عجیب ہی رونقیں سمیٹے ہوئے تھے،
لوگ بھی بہت خوبصورت ،ملنسار اور مہمان نواز، بہت سے لوگ الجزیرہ سے واقف نہ تھے بس اس لیئے جونہی ایک عربی نام سنتے وارفتہ ہو جاتے، دن بھر ہمیں کئی کئی کپ قہوہ چینی چڑھے باداموں کے ساتھ پینا پڑتا اور تحفے اٹھاتے اٹھاتے شام تک بیگ ناقابل برداشت حد تک بھاری ہو جاتے، شہر کی رپورٹنگ کے بعد ہم دیہاتوں کی طرف گئے تو اس سے بھی زیادہ محبت ملی، رپورٹنگ کے آخری روز ہم ایک گلی سے گزر رہے تھے ، میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہاتھ میں کلپ بورڈ پر لگے کاغذوں پر کچھ لکھتے بالکل کنارے پر چل رہا تھا ، رپورٹ کے اہم نکات لکھتے لکھتے میرا دھیان نہ رہا اور میں لال پھولوں والی نیلی چادر اوڑھے اس لڑکی کو نہ دیکھ سکا جو دیوار سے چمٹی کھڑی تھی اور اس سے ٹکرا گیا، کلپ بورڈ کا کنارہ شاید اس کی پسلی میں لگا تھا، درد کی شدت سے بےچاری کا ہاتھ اس کے نقاب سے ہٹ کر پسلی کی جانب بڑھا اور چہرہ برہنہ ہو گیا، لاکھوں افسانے اور شعر چھپائے سبز اور نیلے رنگ کی آمیزش والی پراسرار آنکھیں ، گائے کے دودھ کی بالائی جیسے اجلے رنگ کے گال جو درد اور شرم سے ایسے سرخ ہوۓ کہ ابھی پھوٹ پڑیں گے، تیز گلابی ہونٹ ایسے پھڑپھڑا رہے تھے جیسے خزاں کی آندھی میں چنار کی کونپل رقص کر رہی ہو، اس نے شکایت کی ایک نظر مجھ پر اٹھائی مگر میں تو جیسے سکتے میں ہی تھا۔۔۔ اتنے میں نہ جانے کہاں سے ایک دس سال کا بچہ غصے میں تیز تیز بولتا ہوا ادھر کو لپکا تو لڑکی نے واپس منہ ڈھانپا اور تیز تیز چلتی وہاں سے روانہ ہو گئی۔۔ اس کے بعد بچہ مجھ پر جھپٹ پڑا، میزبانوں نے بمشکل اسے سنبھالا وہ پشتو بول رہا تھا اس لیے مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی بس دابےغیرتا، دا بے شرما کے سوا میرے لیے کوئی لفظ قابل فہم نہ تھا۔۔ وہ بار بار مجھ پر جھپٹنے کی کوشش کرتا اور دوسرے لوگ اسے روکتے۔اللہ اللہ کر کے میرے میزبان اسے سمجھانے میں کامیاب ہو ہی گئے کہ یہ بس ایک حادثہ تھا۔۔ بچے کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اسے مجھ سے ملوایا گیا ، میزبانوں نے بتایا یہاں کے لوگ عورتوں پر نظر تک ڈالنے کو بے غیرتی تصور کرتے ہیں اور آپے سے باہر ہوجاتے ہیں، وہ لڑکی تو پھر اس بچے کی بہن تھی، اس لیے ایسا ہوا۔۔
میں نے بچے کا سر سہلایا اور اسے پنیر کی ٹافیاں دینا چاہیں جسے اس نے لینے سے انکار کر دیا، میزبان نے بتایا کہ بچے نے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ وہ مہمان کو تحفہ دے نہیں سکتا اس لیے لے گا بھی نہیں، واقعے کے بعد بچہ کھیلتا دوڑتا گلی میں گھس گیا اور ہم آگے روانہ ہو گئے۔ مجھ پر انجانی سی اداسی چھا گئی اور ایسا لگا کہ سینے سے کچھ غائب ہو گیا ہے۔۔ رات کو ہوٹل کے کمرے میں لیٹے ہوئے بھی میری یہی حالت تھی۔۔ بار بار وہ آنکھیں اور چہرہ میرے خیالوں میں گھوم رہا تھا۔ اسی رات ہمیں پیغام دے دیا گیا کہ حملے کا فیصلہ ہو چکا ہے اور تمام غیر ملکیوں کو فی الفور افغانستان چھوڑنے کی ہدایت کی گئی ہے، ہم اسی رات کوئٹہ کی طرف روانہ ہو گئے جنگ کے نام پر جارحیت شروع ہو گئی تو ہم کوئٹہ سے مانیٹرنگ کرتے رہے۔سال بھر الجزیرہ کی ٹیمیں آتی جاتی رہیں اور میں ان کے لیے کام کرتا رہا،اس کے بعد یہ ذمہ داری بہت عرصے تک میں نے اکیلے اٹھائی۔ذمہ داریوں کے دوران بھی میں کبھی اس چہرے کو نہیں بھول سکا۔۔ رات رات بھر سپنوں اور خیالوں میں بھی اسے دیکھتا اور دن بھر جہاں بھی افغان مہاجرین کو دیکھتا میری آنکھیں ان آنکھوں کی تلاش میں رہتیں، افغان مسئلہ پر خبروں، دستاویزی فلموں اور پروگراموں کی ریٹنگ ختم ہو کر رہ گئی تو میں بھی بے روزگار ہو گیا۔
کافی عرصہ بعد مجھے کسی کام سے پشاور جانا ہوا۔۔ رات کو کھانے کے بعد قصہ خوانی بازار سے ہوٹل جاتے ہوۓ میں ایک ویران گلی سے گذر رہا تھا کی اچانک پھر سے وہی آنکھیں میرے سامنے آگئیں۔۔۔ لال پھولوں والی نیلی چادر کا نقاب پھر سے گر گیا۔۔ فرق بس یہ تھا کہ اب رخسار برف سے سفید تھے اور چنار کی کونپلیں ساکت و بے بس سی تھیں۔۔ اب کے ایک پندرہ سولہ سال کا لڑکا دو بیساکھیوں اور ایک ٹانگ پر گھسٹتا ہوا میرے آگے آن کھڑا ہوا۔۔ دیکھتا کیا ہے صیب؟۔۔۔۔ پنج سو میں لے جاؤ!
میں شاید پھر سے سکتے میں تھا مگر نہ جانے میرے لبوں سے کیسے نکل گیا۔۔
دابےغیرتا، دا بے شرما۔۔
زما غیرت او زما شرم دہ دشمن پہ بمونوں خاوری ایری شو او زما دہ کلی پہ کوسو کی خخ شو۔۔
نہ مڑا۔۔۔۔۔اب ام صیرف بھوکا ہے۔۔۔۔ لڑکے نے جواب دیا!
اب کی بار اس کی پشتو میری سمجھ میں آ گئی تھی مگر اس کا ترجمہ خود تک سے کرنے کی ہمت میرے پاس کبھی نہیں آئی !!!!

Facebook Comments

اسحاق جنجوعہ
کوئ خاص نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply