ہشت ! خاموش ! چپ ! مری سانسو
روک لو خود کو، کان دھر کے سنو
برفباری کی لَے، ولمپت، تال
ٹھاٹھ، مکھ بول، مدھ، ورَت، لہرے
چپکے چپکے تمہیں بلاتے ہیں
دیکھو, لُک، سیی ، وہ ایک نظارہ
برف کے کچھ شریر مرغولے
دائروں میں دھمال ڈالتے ہیں
اور اک چلبلی گلوکارہ
کیف آور ملہار گاتی ہے
اُس طرف، گردوارے کی جانب
منڈلی میں شبد سناتے ہوئے
پگڑیاں باندھے برف کےشہوار
جاپ، اشلوک سُر میں گاتے ہیں۔
ماہیا، ٹودی، حمد ، نعت، بھجن
مُرکیوں میں نکھاد اور گندھار
وادی، سموادی، انترا، سم، تھاپ
بنتے مٹتے ہوئے یہولوں میں
برف کی دیوی سُر میں ڈھالتی ہے
کیسی استادی، کیا گلے بازی
ایسی سنگت میں، ایسے کورَس** میں
کیا پڑی ہے کسے کہ سانس بھی لے
کیوں نہ چپکے سے تا ن پلٹے میں
خود کو تحلیل کر کے گم ہو جائے؟
*look, see ** Chorus
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں