سب سے آخری مسکراہٹ۔۔ناصر خان ناصر

تپتی دوپہر کی کڑی دھوپ میں پسینے سے شرابور ایک بڑھیا پچھلی سیڑھیوں کے پاس بیچارگی کی تصویر بنی ہوئی کھڑی تھی اور ملتمس نگاہوں سے چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔ کئی  بار اس نے اپنی کھوئی  ہوئی  طاقت جمع کر کے دونوں سوٹ کیس اٹھائے مگر سانس دھکنی کی طرح چلنے لگا تو تھک ہار کر بے چاری نے پھر سامان زمین پر رکھ دیا اور بے بسی کے ساتھ ماتھے سے پسینہ پونچھنے لگی۔ گرمیوں کی بھری دوپہر میں ہُو کا عالم، نہ بندہ نہ پرندہ۔۔۔۔ شاید لو کے تھپیڑے چلتے ہی سب لوگ کمروں میں دبک جاتے ہیں اور سستانے لگتے ہیں۔ یوں بھی اس پچھواڑے میں کوئی  ہوتا تو مدد کو آتا؟
اس روز نجانے کیوں کسی اتفاق سے بازار کے رخ سڑک پر لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگے ہوئے تھے۔ شاید کوئی  میلہ لگا تھا۔

کچھ دیر بعد ایک نوجوان سرشاری سے سیٹی بجاتا، تیز تیز چلتا سڑک کراس کر کے ادھر سے گزرا۔ خاتون کی مدہم سی آواز اس کے حلق میں پھنس کر رہ گئی ۔ وہ محض ہاتھ ہلا کر تکتی رہ گئی۔
نوجوان کچھ ہی دیر میں واپس پلٹا۔۔۔
“اماں!
میں کچھ مدد کروں؟”
خاتون کی آنکھوں میں احسان مندی کی نمی پا کر اس نے لپک کر ان کا سامان اٹھا لیا۔ بڑی بی نے ہاتھ اٹھا کر دعائیں دیں اور اس کے پیچھے سیڑھیاں چڑھنے لگیں
“بیٹا جگ جگ جیو۔ ہزاری عمر ہو۔ میرا گھر تیسری منزل پر نکڑ کے ساتھ والا فلیٹ 311 ہے۔ بہت بہت شکریہ میرے پتر”
فلیٹ کے دروازے کی دہلیز پر سوٹ کیس رکھ کر اس نے سر جھکایا، بوڑھی خاتون نے شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرا اور مزید دعائیں دیتے ہوئے ایک بار پھر سے شکریہ ادا کیا۔
“ہائے میری چابیاں کہاں گر گئیں؟”
بڑھیا کی آواز سن کر جاتا ہوا لڑکا واپس پلٹا۔ بڑھیا کے جھریوں سے اٹے چہرے پر فکرمندی کے سائے مزید گہرے ہوئے۔
“اب کیا کروں؟
گھر پر بھی کوئی  نہیں”۔۔۔ بڑھیا کی آنکھ میں موٹے موٹے آنسو تھرتھرائے۔
“ایک ہی راستہ ہے بیٹا۔
کاش کوئی  یہ ساتھ والی بالکنی سے کود کر سامنے والی کھڑکی سے اندر جا کر دروازہ کھول دے ۔۔۔
شیشہ تو توڑنا پڑے گا مگر اس بنا کوئی  اور چارہ نہیں”
لڑکا شش و پنج میں پڑ کر ٹھٹھک گیا مگر پھر کچھ سوچ کر بندر کی طرح بالکنی پھلانگ کر کھڑکی کی طرف چلا گیا۔
دیوار سے لگ کر آہنی باڑ کودتے ہوئے اور پھر دوسری بالکنی پر جاتے ہوئے اسے نیچے کھڑے کئی  لوگوں نے دیکھا۔
شیشہ ٹوٹنے کی آواز سے تو نیچے سڑک پر مجمع سا اکٹھا ہو گیا۔ سارے لوگ جیسے اپنا اپنا سانس روک کر اسے تکنے لگے۔ لڑکے نے آرام سے اندر جا کر دروازہ باہر منتظر بوڑھی خاتون کے لئے کھولا اور مزید دعائیں لے کر چلتا بنا۔۔۔
صبح کے اخبار میں ایک خبر۔۔۔
کراچی کے مشہور سیٹھ عبید الرحمان صاحب کے فلیٹ پر دن دیہاڑے شیشہ توڑ کر ڈاکہ ڈالنے والا نوجوان پکڑا گیا۔ موقع  واردات پر موجود کئی  لوگوں نے عینی شہادت دی اور مجرم کو فوراً  پہچان لیا۔ پولیس بھرپور تشدد کے باوجود چوری ہو جانے والی نقدی ہیرے جواہرات اور جیولری برآمد نہیں کروا سکی۔ عدالت نے مزید تحقیقات کے لئے ملزم کو تین دن کے مزید جسمانی ریمانڈ پر پیش کرنے حکم جاری کر دیا ہے۔
دور کھڑکی کے نزدیک بیٹھ کر بار بار رقم گنتی خاتون نے اک نظر اخبار کی سرخی پر دوڑائی  اور ایک عجیب سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر پھیل گئی ۔
اس نے اٹھ کر کھڑکی کے پردے برابر کئے۔ باتھ روم میں جا کر قد آدم آئینے میں خود پر ایک طائرانہ نظرِ غائر ڈالی۔ خوبصورت چہروں والی مینکنز کے سروں پر سجائی  قطار میں پڑی وگوں میں سے سفید بالوں والی وگ سے اگلی سنہری وگ کو تھپتھپایا۔ پھر آہستگی سے دیوار میں تصویر کے پیچھے چھپا چور خانہ کھول کر ساری رقم اس میں رکھ دی۔ دھیمی پر وقار سی چال چلتے ہوئے دروازہ کھول کر لیونگ روم میں صوفے پر نیم دراز سیٹھ عبید الرحمان کی طرف آئی  اور لہجے میں بے حد شرینی گھول کر مترنم لہجے میں گویا ہوئی ۔
“خیر سے تمام کام آپ کی منشا کے مطابق ہی سر انجام پہنچ گیا ہے۔ اب حضور پرور ۔۔۔ باقی ماندہ رقم انشورنس ملنے کے بعد آپ خود یہاں پہنچا دیں گے یا میں حاضر خدمت ہو جاؤں؟”
تقریباً ایک ماہ بعد انشورنس سے ملے چیک کو اپنے لرزاں ہاتھوں میں پکڑے، آنکھوں میں اشک بھرے، اپنی بھرائی ہوئی  آواز میں سیٹھ صاحب کسی کو فون کا جواب دے رہے تھے!
” بہت مشکل سے آپ کی مطلوبہ دو کروڑ کی رقم کا انتظام ہو گیا ہے۔ ۔
آپ جہاں کہیں، رقم وہیں پہنچا دی جائے گی۔ اب تو پلیز میرے اکلوتے بیٹے کو چھوڑ دیجیے”
فون کے دوسرے سرے پر مسکراہٹ ہی مسکراہٹ تھی۔۔۔۔
سیٹھ صاحب کے بیٹے نے مسکرا کر نعرہ لگایا اور مسکراتی ہوئی  اپنی نئی  گرل فرینڈ کو چوم لیا۔

اس بار اس کی آنکھیں ہلکورے کھاتے بادلوں سے بھرے آسمان کی طرح ہلکی نیلی تھیں اور کسی ناگن کے سے بل کھائے ہوئے خوبصورت گھنیرے بال سنہر ے۔
لڑکی نے مگر مچھ کی کھال والے قیمتی پرس سے ننھا سا آئینہ نکالا، خود کو دیکھ کر مسکرائی  اور اگلی اسائنمنٹ کے بارے میں سوچنے لگی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس غریب کو پتہ بھی نہیں تھا کہ ایک ننھی سی چپ اور کیمرہ اس کی قیمتی گھڑی میں لگے ہوئے ہیں اور اس کے پل پل کی رپورٹ کوئی  دور بیٹھا یوں مگن ہو کر دیکھتے ہوئے مسکرا رہا ہے جیسے دائیں بائیں کندھے پر بیٹھے نامہ اعمال لکھتے ننھے منے سے فرشتے۔ ۔
افسانہ نگار نے مسودہ مکمل کر کے قلم قلمدان میں رکھا اور مسکرایا۔۔۔
ڈوبتے سورج نے کہکشاں پر آخری نظر ڈالی اور اک نیا سورج ابھرتا دیکھ کر شفق رنگ بھری طمانت کی مسکراہٹ اوڑھ کر آنکھیں موند لیں ۔
کاتب تقدیر نے اپنی تخلیقات پر ایک بھرپور نظر ڈالی۔۔۔ ایک ابدی مسکراہٹ
ستارے اور جگمگا اٹھے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply