نوے کی دہائی کی بات ہے جب میں بالکل چھوٹی بچی تھی تب وہ بھی چھوٹا تھا بالکل ننھا میرے قد جتنا،اس کے چھوٹے چھوٹے سانولے ہاتھ جن کی انگلیاں پوری ہونے کے باوجود جانے ادھوری کیوں لگتیں ،جیسے ادرک← مزید پڑھیے
میں خاموش تھا ہمیشہ کی طرح ۔۔۔میری زبان پہ ازلی تالا پڑا تھا ،کسی سرد شام کی طرح میری حسیں بالکل ٹھنڈی اور دھند پڑے علاقے کی طرح غیر واضح ہوتی جارہی تھیں ۔ میں سن سکتا تھا۔۔۔ میں دیکھ← مزید پڑھیے
گرمیوں کی دوپہر گلی سے آنے والی سلائی مشین کی آواز میرے کانوں میں کسی دلکش موسیقی کا احساس دلاتی تھی۔ موٹر والی مشین ابھی متعارف نہیں ہوئی تھی، اس لیے یہاں روایتی ہاتھ سے چلنے والی سلائی مشین ہی← مزید پڑھیے
ٹرین برلن کے یخ بستہ سٹیشن پر رُکی تو مسافر اپنا سامان لیے ٹرین کے دروازے کی طرف لپکے۔ کچھ ٹرین پر چڑھنے کے لیے اور کچھ اُترنے کے لیے۔ دسمبر کی سرد دوپہر کو سٹیشن خاموش تھا۔ سٹیشن کے← مزید پڑھیے
موٹے موٹے شیشوں کے پیچھے آنکھیں اتنی اندر کو دھنسی ہوئی تھیں جہاں سے مزید پیچھے جانا شاید ممکن نہ تھا۔ گال یوں جیسے کاندھوں پر بیٹھے فرشتوں کے سامنے خالی کشکول ہوتے ہیں۔ رنگت زندگی کے زرد موسم کا← مزید پڑھیے
وہ سمیعہ سے پوچھ رہی تھی ،”تم نے شادی کیوں نہ کر لی ۔ مجھے تکلیف ہو رہی ہے یوں تمہیں تنہا دیکھ کر۔ “یہ سن کر جواب میں سمیعہ نے طنز میں بجھا ہوا قہقہہ لگایا۔” سلمیٰ جس عمر← مزید پڑھیے
تم لِزبن کیوں لائے ہو مجھے”۔” اُس نے پوچھا۔ ہم پُرتگال کے شہر لِزبن میں تھے۔ یہ شہر بہت تاریخی ہے۔ میں نے بتایا۔ یہاں ایک قلعہ ہے۔ اُس پر توپیں نصب ہیں۔ “مجھے توپوں سے ڈر لگتا ہے؟” وہ← مزید پڑھیے
اس الوداعی ملاقات میں چند ہی دوستوں کی آنکھوں میں میری لئے اُداسی تھی، وہاں سے فارغ ہونے کے بعد میں نے اپنے ادھورے سب کام مکمل کیے، کرایہ دار کے کچھ پیسے رہ گئے تھے جو میں نے اُسے← مزید پڑھیے
یونان کی سرزمین سے ایک کشتِ زعفران کہانی کسی شخص کی نہیں ہوتی۔بھلا اکیلے کی کوئی کہانی کیا! کہانی تو اس کے اطراف کے کرداروں سے مل کر تشکیل پاتی ہے۔یہ کردار بھی سانس لیتے ہوئے جیتے جاگتے کردار جن← مزید پڑھیے
مسافر خدا کی تلاش میں تھا۔ جستجو جاری تھی۔ خدا کی کتاب سامنے آئی۔ ایک جگہ آیا “کیا تم تدبر نہیں کرتے”۔۔۔۔دوسری جگہ آیا۔۔۔”کیا تم عقل نہیں رکھتے “۔۔۔تیسری جگہ آیا “عقل والوں کے لیے میری نشانیاں ہیں “۔ چوتھی← مزید پڑھیے
“کتنے سال، مہینے اور دن گزر گئے، لیکن میں نے یا کسی اور نے ان کو گِننا مناسب نہیں سمجھا” وہ بہت دھیمی آواز میں بول رہا تھا میں نے اس کے بارے میں ایک دفعہ سوچنا بھی شروع کیا← مزید پڑھیے
اچانک اُسے یاد آیا کہ وہ تو اپنے ” بھول جانے “ کی عادت کی انگلی تھام کر جوان ہوا تھا ۔ ایامِ شباب میں اسی سبب وہ ” بھولے بادشاہ “ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا ۔← مزید پڑھیے
کون ہو تم؟ تمہارا نام کیا ہے؟ کہاں سے آئے ہو؟ کہاں جا رہے ہو؟ تم نے ٹکٹ خریدا ہے؟ اس کے پیسے ہیں تمہارے پاس؟ نیم شب ٹھٹھرتی رات کی گہری تاریکی میں یک طرفہ میرے اتنے زیادہ سوالات← مزید پڑھیے
بہت دن بعد خدا خدا کر کے اسے راضی کیا کہ کہیں ملتے ہیں جب وہ آئی تو ایک تازہ ہوا کا جھونکا اس کے بدن سے لپٹی خوشبو مجھ تک پہلے لے آیا ۔۔ میں یہ سوچ رہا تھا← مزید پڑھیے
وہ ایک اندھیری رات تھی شاید چاند کی آخری راتیں تھیں۔ کمپنی کا فنکشن ختم ہوتے ہوتے رات کے اڑھائی بج چکے تھے، جس وقت میں رائل پام کلب سے نکلا۔ نہر والی سڑک پر گورا قبرستان کراس کرتے ہی← مزید پڑھیے
یہ 90 کی دہائی تھی ۔فلم “چڑھتا سورج” کا سیٹ لگا ہوا تھا ۔ اپنے وقت کے مشہور فلم ڈائریکٹر کی کہانی تھی, جس نے انڈسٹری کو لازوال فلمیں اور کئی سال تک راج کرنے والے اداکار دیے تھے۔ ایک← مزید پڑھیے
شہر کا وہ علاقہ کبھی نواح میں سمجھا جاتا ہوگا مگر اب شہر اس سے کہیں آگے پھیل چکا تھا۔ وہاں متوسط طبقے کے لوگوں کی رہائش تھی۔ زیادہ گھر ایک منزلہ اور آگے لان رکھتے تھے۔ جنگلے بہت اونچے← مزید پڑھیے
دریشہ اپنی ماں اور نانی کے ساتھ جب سمندر کنارے پہنچی تو سورج غروب ہو رہا تھا۔ گلاب کے رنگ میں نہائی کائنات سونے کی طرح چمک رہی تھی۔ سر پر تیرتے لال اور شوخ سرخ بادلوں کا رنگ بیان← مزید پڑھیے
یہ ستمبر کی ایک شام تھی مجھے یاد ہے ہوا میں تھوڑی سی خنکی اور نمی آ چکی تھی ایک کیفے کے چھت پر بیٹھے میں کچھ دوستوں کے ساتھ سگریٹ سلگا رہا تھا مجھے سگریٹ کا وہ برانڈ بھی← مزید پڑھیے