شہر کا وہ علاقہ کبھی نواح میں سمجھا جاتا ہوگا مگر اب شہر اس سے کہیں آگے پھیل چکا تھا۔ وہاں متوسط طبقے کے لوگوں کی رہائش تھی۔ زیادہ گھر ایک منزلہ اور آگے لان رکھتے تھے۔ جنگلے بہت اونچے نہ تھے، پیدل گذرتے گھروں میں لگے درخت اور پھول نظر آتے تھے۔ علاقے کی گلیوں اور سڑکوں کے نام ستاروں اور سیاروں کے نام پر تھے۔ جویپٹر سٹریٹ یعنی گلی ِمشتری کو مرکری سٹریٹ یعنی گلیِ عطارد کاٹتی جاتی تھی، جبکہ اس کے متوازی سٹار سٹریٹ یعنی ستاروں کی گلی تھی۔ سٹار سٹریٹ سے ایک راستہ گلی اپالو کو نکلتا تھا، جس پر جاکر آگے آپ گلیگسی سٹریٹ یعنی گلیِ کہکشاں میں داخل ہوجاتے تھے۔ ساتھ ہی جیمنی وے یعنی راہِ جوزہ تھا جس کے ساتھ پلینٹ سٹریٹ یعنی گلیِ سیارہ تھی۔ اس کائناتی کرہِ ارض کی ایک گلی میں گردش ِ لیل و نہار نے ہمیں بھی لا کر بٹھا دیا تھا۔
وہ ہفتہ کاد ن تھا، صبح کا وقت تھا، ہفتہ وارانہ چھٹی ہونے کے باعث ناشتہ آرام سے کر رہے تھے کہ اچانک ایک زوردار آواز آئی، ایسے لگا کہ باہر سڑک پر کوئی ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔جلدی سے باہر نکلے کہ دیکھیں کہ کیا واقعہ پیش آیا ہے۔ دوسرے لوگ بھی گھروں سے باہر نکل آئے تھے۔ دیکھا کہ گلی عطارد کی دو رویے سڑک کے درمیان سڑک پار کرنے کی راہ میں الٹے یو کی شکل کے جو دو لوہے کے سٹینڈ لگے ہیں ، ان میں سے ایک کو توڑتی ایک گاڑی دوسری جانب آتی سڑک پر آگئی تھی ۔ یہ سٹینڈ اس لیے لگائے جاتے ہیں کہ پیدل سڑک عبور کرتے لوگوں کو اگر سڑک کے درمیان کھڑا ہونا ہو تو اس جگہ پر رک کر انتظار کرلیں اور جب مناسب جانیں توآگے سڑک پر سے گذر جائیں۔ خوش قسمتی سے اُس وقت کوئی شخص اس جگہ پر نہ تھا سو کوئی جانی نقصان نہ ہوا تھا۔ حادثے میں کوئی اور گاڑی شامل نہ تھی، مگر لگتا تھا کہ حادثے کی شکار گاڑی کی رفتار تیز تھی کہ وہ اپنی سڑک چھوڑتی اور لوہے کی رکاوٹ توڑتی دوسری جانب آن پہنچی تھی۔ حادثے سے گاڑی کے دائیں پہیے کے ساتھ کا انجن ماونٹ ٹوٹ چکا تھا اور اُس جانب سے انجن سڑ ک پر آن گرا تھا۔ سڑک اب ایک جانب سے بلاک تھی کہ کوئی ٹریفک نہ گذر سکتی تھی۔
گاڑی کی حالت خستہ تھی مگر ڈرائیور کو دیکھا تو اُس کا حلیہ عجیب اور حالت عجیب ترین تھی ۔ پتلے دبلے کلین شیو گورے نےقمیص نہیں پہن رکھی تھی اور اس کی آنکھیں خالی تھیں، ان میں کوئی چمک نہ تھی، بالکل کھوکھلی محسوس ہوتی تھیں، نیم مردہ۔وہ یقیناً کسی نشے کے اثر میں تھا اور بلا تکان گالیاں دے رہا تھا۔
اس کا اوپری دھڑ مختلف ٹیٹوز سے بھرا پڑا تھا،سامنے سینے کے درمیان میں ایک لڑکی کا چہرہ جو ایک اڑتے پرندے کے پروں کے بعد انسانی کھوپڑی کی شکل دھارے سارے سینے کو گھیرے تھا۔ اس کے ساتھ مختلف سیاہ رنگ کی لکیریں عجیب سے ڈیزائن بنائے تھیں جن میں خالی جگہیں سیاہ رنگ سے بھر دی گئی تھیں۔ پشت پر کمر کو پورا گھیرتا ایک اور ٹیٹو تھا، جس میں گردن سے نیچے کوئی شیطانی شکل تھی ؛ ماتھے پر کئی گہری شکنیں جو شکل کے گنجے سر کو جاتی تھیں، آنکھیں چوکٹھوں سے باہر ابلتیں، منہ میں ایک تلوار پکڑی تھی جس کی وجہ سے دانت نظر آرہے تھے، دانت لمبے اور خونخوار محسوس ہوتے تھے ،خصوصاً سامنے کے آخری اوپر او ر نیچے کے دانت کسی عفریت کے دانتوں کے مانند لمبے اور باہر نکلے تھے۔ منہ میں پکڑی تلوار کے دونوں جانب رسیوں میں بل کھائی دو گھنٹیاں لٹکی تھیں۔ اس کے ساتھ دونوں کاندھوں تک سیاہ لکیروں کے کچھ ڈیزائن تھے جن سےڈرائیور کا جسم بھرا پڑا تھا۔
گھروں سے نکلے لوگوں نے اُس عفریت زدہ شخص کو دیکھا اور کچھ نے اس سے حالت کے بارے میں پوچھا۔ گالیوں کے درمیان میں اُس نے بتایا کہ اُسے کوئی چوٹ نہیں لگی، البتہ نظر آرہا تھا کہ اُس کی ذہنی حالت ابتر ہے۔ جیسے تماشائی آئے تھے ، اُسی طرح واپس ہوگئے۔ اب وہاں میں، ہمارا بیٹا اور ایک پڑوسی کھڑے رہ گئے۔ وہ سفید فام پڑوسی جسے میں اس سے قبل کبھی نہیں ملا تھا بلکہ کبھی دیکھا بھی نہ تھا۔
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
سڑک ایک طرف سے بلاک تھی۔ ڈرائیور اپنے تعیں گاڑی کو سڑک سے ہٹانے کی کوشش کررہا تھا، کبھی گاڑی کو دھکا دینے کی کوشش کرتا، کبھی زمین پر گرے انجن کو جاکر دیکھتا، اگلا دروازہ کھولتا ، سر پر ہاتھ پھیرتا، اِدھر اُدھر دیکھتا، پھر منہ پر خارش کرنے لگ جاتا ، اُسے کچھ سمجھ نہ آرہی تھی، مگر اس تمام وقت میں اگر کچھ تسلسل میں تھا تو وہ اس کی بلاتکان گالیاں تھیں، اپنے آپ کو ، گاڑی کو ، چلے گئے تماشائیوں کو ، نشے کی ڈوز کو، کسی کی باہوں میں گذاری رات کو، سڑک پر پڑے انجن کو ، اپنی قسمت کو، اُس دن کی افتاد کو وہ سب کو بلاتکان گالیاں دے رہا تھا۔ بلاتکان گالیاں بھی مشین گن کے فائر کے مانند ہوتی ہیں، آدمی نہ چاہتے ہوئے بھی خوف زدہ ہوجاتا ہے۔
ہفتے کی صبح کی پھیلی خاموشی میں وہ شخص ایک اِستثنا تھا۔
خوف اور ترس دونوں میرے ساتھ تھے۔
میں نے پڑوسی سے کہا کہ ہمیں گاڑی کو سڑک سے ہٹانے میں اُس کی مدد کرنی چاہیئے۔ اُس نے بے نیازی سے نفی میں جواب دیا ، کہنے لگا میں تو پولیس کو فون کرنا چاہوں گا کہ لگتا ہے یہ نشے میں گاڑی چلا رہا تھا۔
میں اور بیٹا دونوں ڈرائیور کی مدد کو پہنچے۔ گاڑی کا انجن ایک طرف سے زمین پر تھا اور گاڑی کو دھکا لگا کر آگے پیچھے کرنا ممکن نہ تھا۔ ہم گاڑی کو جیک کی مدد سے اٹھاتے اور پھر آگے دھکا دیتے۔ اس سے گاڑی کچھ انچ ہی آگے جاتی۔ جیک سے گاڑی کو اٹھانے میں قوت لگ رہی تھی، پسینہ بہنے لگا، گاڑی انچوں کے سفر پر تھی، ڈرائیور کی گالیاں ہوا کے دوش پر تھیں، وہ ان لوگوں کو گالیاں دے رہا تھا جو باہر نکلے اور مدد کرنے کی بجائے اپنے گھروں کو لوٹ گئے تھے، سڑک ایک طر ف سے بند ہو گئی تھی اور پڑوسی ایک جانب کھڑا سگریٹ کے کش لگارہا تھا۔
رکی سڑک پر گاڑیوں کی قطار بننے لگ گئی تھی، موقع پاکر قطار کی اگلی گاڑی دوسری جانب کی سڑک پر آتی اور پھر آگے سے واپس اپنی راہ پر ہوکر چلی جاتی ۔ زندگی بھی اپنی ڈگر پر چلتی ہے، ڈگر ، ایک لمبی ڈگر، تبدیلی آئے تو ہمیشہ کے لیے راہ بدل جاتا ہے۔ کچھ عرصے کے لیے راہ بدلنا مشکل ہے، گرنے کا خطرہ رہتا ہے۔
جیک لگا کر گرے انجن کی گاڑی کو اٹھاتے اور پھر آگے دھکیلتے مجھے ساتھ سے جاتی گاڑیوں سے بھی خطرہ محسوس ہو رہا تھا۔
اتنی دیر میں سامنے سے آتی ایک گاڑی رکی ، اس میں ایک سفید فام نوجوان نکلا ۔ سارے معاملات کا اندازہ لگا کر وہ واپس ہوا ، اپنی گاڑی کو ایک محفوظ جگہ پر پارک کیا اور مخالف سے آتی گاڑیوں کو روکنے اور راہ کی رہنمائی کرنے لگا۔راہ آگے ایک یونیورسٹی کو جاتی تھی۔ ایک چینی طالب علم یونیورسٹی سے رات بھر پڑھ کر آرہا تھا۔ اس نے بھی اپنی گاڑی کو روکا اور گاڑیوں کے روکنے اور چلانے میں دوسرے نوجوان کی مدد کرنے لگا۔ دونوں مخالف سڑکوں پر تھے، ایک سڑک پر آتی تمام گاڑیوں کو روک کر قطار بنواتا ، اس دوران دوسری جانب کی ٹریفک جاری رہتی۔ پھر دوسرا چلتی سڑک کی ٹریفک روکتا اور رکی گاڑیاں دوسری سڑک پر آکر بلاک گاڑی کو عبور کرکے واپس اپنے راہ پر آجاتیں۔ زندگی میں رکاوٹیں پھلانگنے کے علاوہ ان سے بچ کر بھی نکلا جاسکتا ہے۔ ہر جگہ ٹکراؤ حل نہیں ہوتا۔
نوع انساں رنگ رنگ کی ہے، گندمی، سفید ، ٹیٹو زدہ سفید، چُنی آنکھوں والے چینی، نشے میں مدہوش، خوف زدہ مددگار، رضاکار، کونے میں کھڑے سوٹے لگاتے تماشبین، سب تصویر میں اپنی رنگا رنگی لاتے ہیں، منظر ان سب کے جوڑ سے بنتا ہے۔ یک رنگی پر زور دیتے کتنا ظلم کرنے کے درپے ہیں، وہ خود بھی منظر کے ایک رنگ ہیں۔
پسینے میں بھیگے میں ، بیٹا اور اوپرکے بدن سے ننگا نشئی ایک ٹیم تھے، جو گاڑی کو اپنی جگہ سے ہٹانے کی بے سود سعی کو جانتے ہوئے بھی کوشش میں لگے تھے ۔عجب ہے کہ نتیجہ کوشش کے تابع نہیں اور کوشش بھی نتیجے سے کوئی تناسب نہیں رکھتی۔
اُس دن بے سود دھکا لگاتے ، اپنے ہی کچھ اشعار ذہن میں آن پہنچے۔
آرزو و عطا کے بیچ میں
خواب و تعبیر کے درمیان
عمل و جزا کے سفر میں
تدبیر و تقدیر کے دوش پر
آدمی کی کیا حقیقت ہے
دھکے کی سعیِ بے سودجاری تھی کہ اچانک ایک ٹو ٹرک آن پہنچا۔ یہ ٹرک پیچھے سے ہموار ہوتا ہے جس کے آخر میں ایک ڈھلوان زمین تک نکل آتی ہے۔ ڈرائیور کے کیبن کے پیچھے ایک موٹر لگی ہوتی ہے، جو ایک سٹیل کی رسی کو ڈرم پر لپیٹتی ہے۔ رسی خراب گاڑی کے آگے باندھی جاتی ہے اور موٹر رسی کو ڈرم پر لپیٹتی ہے اور ڈھلوان پر سےکھینچی جاتی خراب گاڑی ٹو ٹرک پر لاد دی جاتی ہے۔
پسینہ پسینہ تھا سو یہ اچانک ٹو ٹرک کو دیکھ کر جان میں جان آئی۔
سگریٹ کے کش لگاتے پڑوسی نے ٹرک کے ڈرائیور کو مسکرا کر ہاتھ ہلایا۔
ٹرک کا ڈرائیور اپنے ٹرک سے اتر کر گاڑی کے ڈرائیور کے پاس آگیا۔ دونوں میں بات چیت شروع ہوگئی۔ ایسے معاملات میں عموماً ٹو ٹرک والے حادثے والی گاڑی کے مالک کو لوٹ لیتے ہیں۔ وہ پریشانی میں ہوتا ہے، اور دوسرے فریق کا بڑا تجربہ ایسے پریشان حالوں سے فائدہ اُٹھانے کا ہوتا ہے۔ گاڑی ہٹانے کی منہہ مانگی قیمت سے لے کر اکثر وہ اونے پونے ایسی گاڑی خرید لیتے ہیں۔ مزید اُن کا ورکشاپوں سے رابطہ ہوتا ہے سو خراب گاڑی کو ٹھیک کروا کر منہہ مانگے دام پر بعد میں بیچ دیتے ہیں۔
دونوں میں بات نہیں بن رہی تھی۔ گاڑی ڈرائیور کا تجربہ بھی چوری، فراڈ سے متعلقہ لگتا تھا ۔ سڑک پر گاڑیوں کی قطار تھی اور حادثے والی گاڑی ہم سے اتنا بھی نہ ہٹ پائی تھی کہ سڑک پر ٹریفک چل سکتی۔
ٹیٹو زدہ ڈرائیور کی گالیوں کی شدت میں اضافہ ہو گیا تھا جب کہ ٹرک ڈرائیور جانتا تھا کہ مچھلی کنڈی میں پھنسی ہوئی ہے، کچھ دیر زور لگا سکتی ہے مگر کچھ دیر میں دم اکھڑ جائے گا اور پھر اپنے ہاتھ میں آجائے گی۔ آخر دونوں میں معاملہ طے ہوگیا، مگر گالیاں بتار ہی تھیں کہ گاڑی کا ڈرائیور سمجھ رہا تھا کہ وہ لوٹ لیا گیا ہے، مگر کم ہوتے نشے میں اُسے یہ بھی سمجھ آرہی تھی کہ اس کے پاس کوئی اور راستہ نہیں۔
آخر دونوں میں معاملہ طے ہوگیا۔
سٹیل کی رسی گاڑی کو کھینچ رہی تھی اور سڑک پر انجن کا گرا سرا اپنی لکیر ثبت کرتا جارہا تھا، سیاہ چارکول پر ایک گہری لکیر جو ڈرائیور کے جسم پر بنے ٹیٹوز کی لکیروں سے مماثلت رکھتی تھی۔
میں اور بیٹا ایک جانب کھڑے پانی پی رہے تھے، جو وہ گھر سے لایا تھا۔ ڈرائیور نے ہم سے پانی لیا اور دوسروں کو گالیاں دینے کے وقفے میں کہا کہ تم اچھے لوگ ہو۔ اس کی آنکھیں ابھی بھی ویران تھیں۔ خوف اور ترس دونوں میرے ساتھ تھے۔
گاڑی ٹرک پر لاد دی گئی تھی۔ اتنے میں ٹرک کا ڈرائیور میرے پاس آیا اور اپنا بزنس کارڈ میری طرف بڑھاتے کہنے لگا ، تم ایک اچھے آدمی ہو۔ اگر آیندہ کوئی ایکسیڈنٹ دیکھو تو مجھے اس نمبر پر اطلاع دینا، میں اس کے صلے میں تمہیں پچاس ڈالر دوں گا۔
صلہ ،میں سوچ میں پڑ گیا کہ صلہ کے کتنے مختلف معنی ہیں، کینوس پر صلے کے کیا کیا مختلف رنگ ہیں اور صلے کی چاہت نے کیا کیا سلسلے شروع کیے ہیں، اور سوال گھوم پھر کے دوبارہ سامنے آگیا، آدمی کی کیا حقیقت ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں