ایک گمشدہ نوجوان کا آخری خط/عبدالباعث

یہ ستمبر کی ایک شام تھی
مجھے یاد ہے ہوا میں تھوڑی سی خنکی اور نمی آ چکی تھی ایک کیفے کے چھت پر بیٹھے میں کچھ دوستوں کے ساتھ سگریٹ سلگا رہا تھا مجھے سگریٹ  کا وہ برانڈ بھی یاد ہے بہت زیادہ سستا ہونے پر اِن دِنوں میں پائن سگریٹ  پیتا تھا ابھی دو ہی کش لگائے تھے کہ آنکھوں کے سامنے ایک گہری تاریکی چھا گئی اور دو تین گھونسے لگنے کے بعد کچھ یاد نہ رہا

پھر جب ہوش آیا تو ایک تاریک کمرے میں خود کو پایا دو تین دانت ٹوٹ گئے تھے
دائیں ہاتھ اور کمر میں کافی حد تک درد محسوس ہورہا تھا اور بائیں پاؤں کی  تین انگلیاں ٹوٹ گئی تھیں
بس تب سے میں یہاں پڑا ہوا ہوں
پہلے پہل تو سب اچھا تھا دن میں دو گلاس پانی اور دو وقت روٹی ملتی تھی،اور کچھ گالیاں جیسے کہ حرامی ، سوّر کے بچے، بہن ۔۔۔، اخروٹ کی اولاد
یقینی طور یہ مجھے بہت برا لگتا تھا مگر پھر مجھے اس کی عادت سی ہوگئی۔۔ چند ہفتے پہلے ایک بلوچ نوجوان کے مرنے کے بعد اب ان کے حصے کی روٹی بھی مجھے مل رہی ہے مجھے لگتا ہے پیٹ کا کسی حد تک بھرا ہونا بہت ضروری ہے

یہ وہی لقمے ہیں،جو میں اس بلوچ نوجوان کی یادوں سے بانٹ کر کھاتا ہوں بہت اچھا لڑکا تھا مگر افسوس میں اس سے نام نہ جان سکا اور یہ ہوتا بھی کیسے کہ میرا جبڑا اس بلوچ کی موجودگی میں گھونسوں، تھپڑوں سے پھولا اور اکڑا ہوا تھا
آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے روٹی نگلی، نا کہ کھائی

مگر میں نے اسے اکثر یہی بولتے ہوئے سنا
کہ “لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے”

پھر نہ جانے اسے کیا ہوا
ایک شام دو بندے آئے اور اسے لے گئے
اس کے بعد مجھے اپنی چھٹی حس نے بتایا کہ غم کی شام صرف ایک شام نہ تھی نوجوانوں کی نوجوانی کی عمر تھی
(یہاں تک آپ نے پڑھ کر ہنسنا ہے)
اس نوجوان کے جانے کے بعد اب ایک اور بندے کو لایا گیا تھا جس کی  زبان میری سمجھ سے اب تک باہر ہے
مگر وہ منّتیں سماجتیں کر رہا تھا
شاید  وہ اپنے ساتھ کئے گئے ظلم پر ماتم منا رہا تھا یا شائد وہ انصاف اور رہائی مانگنے کے لئے رو رہا تھا اس کے آنے سے مجھے دکھ اور خوشی دونوں محسوس ہوئیں
اس کی دو ہی وجوہات تھیں
ایک تو یہ کہ اب اس اندھیرے میں مَیں اکیلا نہ تھا اور دوسرا اب میرا وقت قریب تھا ،پھر میرے مرنے کے بعد میرے حصے کا کھانا اسے ملے گا مگر نہ جانے کس کی  دعائیں ہیں شائد مری ماں کی یا بہنوں کی یا شائد اس بوڑھے باپ کی جو اب تک مجھے زندہ رکھا گیا ہے۔

آج جب روٹی لائی گئی تو آتے وقت دروازے کی روشنی سے میں نے اپنے ہاتھ پر پہنی گھڑی جس کو میرے بچپن کی ایک سہلی نے مجھے دیتے ہوئے  کہا تھا کہ “وقت کو تھام کے رکھو ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں بیڑیوں میں جکڑ کے رکھ دے” میں نے جلدی سے خود کو اس گھڑی کے میلے شیشے میں دیکھنے کی کوشش کی مگر خود کو پہچان نہ پایا (گھڑی نہیں چلتی وہ بند ہے آپ مطمئن رہیں)
اپنے آپ سے ایک ڈر سا محسوس ہونے لگا
نہ جانے میں نے کس سے سنا تھا یا شائد کہیں پڑھا تھا کہ چہرے دس سالوں میں بدل جاتے ہیں مگر میں نے اکثر چہروں کو بہت جلدی بدلتے ہوئے دیکھا ہے
(بعض اوقات کسی کی بتائی ہوئی باتیں جھوٹی ثابت ہو جاتی ہیں )

سفید بال، چہرے میں جھریاں، بینائی بھی اب ویسی  نہ تھی یاداشت بھی نہایت کمزور ہوچکی ہے اب بہت زیادہ دیر تک سوچنے کے بعد مجھے امی ابو کے چہرے یاد آتے ہیں آنسو مکمل خشک ہوچکے ہیں اب تو بہت دکھ اور پریشانی میں بھی ایک آنسو نہیں گرتا
ان سب سے پتا چلتا ہے کہ شائد اب یہاں دس سال مکمل ہوگئے اور گیارہواں برس شروع ہونے والا ہے

میں چاہتا ہوں کہ  جاری برس کے دوسرے مہینے کی تیرہ تاریخ کو مجھے مار دیا جائے تاکہ میں اس تاریکی پر اور بوجھ نہ بنوں اور میرے حصے کا کھانا بھی اس درمیانی عمر کے بندے کو ملنا شروع ہو جائے
چلو تمہیں ایک بات بتاتا ہوں
ایک دن روٹی لانے والے شخص سے میں نے اپنی اس خواہش کا اظہار بھی کیا مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا
کیونکہ یہاں اکثر سوالوں کے جواب نہیں ملتے  بلکہ سوال کرنے والوں کو اُٹھایا جاتا ہے

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے پتا ہے یہاں سوال کرنا منع ہے
اور کچھ بہت ہی گندے اور غلیظ قسم کے سوالات اٹھانے کی وجہ سے ہی ہمیں یہاں لایا گیا ہے مگر چونکہ اب بہت وقت بیت چکا ہے ویسے بھی لوگوں نے میری تلاش بھی چھوڑ دی ہوگی نہ جانے ابو امی زندہ ہونگے یا نہیں
البتہ بہن بھائی ضرور زندگی کے  کاموں میں مصروف ہوں گے
اور میری منگیتر (ہاہاہاہا) میں نے بتایا نا کہ میری گھڑی بند ہے بلکہ میں ہی پورا قید و بند میں ہوں سو عین ممکن ہے اس کے اب دو سے زائد بچے ہوں خدا حیاتی کرے
وہ ایک انتظار سے عاری عورت رہی
میرے پاس گنتی کے بس کچھ ہی دن بچے ہیں
یہ میرا پہلا اور آخری خط ہے اگر کوئی اپنا زندہ ہو تو اسے تھما دو یا پھاڑ دو
ویسے بھی کسی کی ہنسی خوشی زندگی دس سال کی پرانی یادوں سے مسخ نہیں ہونی چاہیے نہ ہی کسی کی یاداشت پر بوجھ بننا اچھا ہے!!

Facebook Comments

عبدالباعث
عبدالباعث اسی طرح تخلیقی توانائی اور زرخیز فکر کا مالک ہے جسطرح ان کی نوجوانی۰ اسی طرح خوبصورت دل و دماغ رکھتا ہے جس طرح اپنی حسن و رعنائی کیلئے شہرت رکھنی والی اسکا مومند قبیلہ۰ نازک خیالات اور شستہ لب و لہجے کا یہ نوجوان شاعر ادیب پشتونوں کے تاریخی سرزمین چارسدہ سے تعلق رکھتا ہے۰ کم عمری میں کمال پختگی کیساتھ پشتو، اردو ،انگریزی میں یکساں مہارت کیساتھ لکھتا ہے۰ نوجوان و مثل پیران پختہ کار تخلیق کار و فنکار عبدالباعث اپنے ھم عمر پشتون نوجوانوں کیلئے قابل تقلید بھی ہے اور مشعل راہ بھی۰

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply