رودادِ سفر ( 37)/شاکر ظہیر

ہوناں ( Hunan ) صوبے سے مسٹر چھن ( Chen ) میرے واپس ایوو آنے کے بعد بھی رابطے میں رہے ۔ مسٹر چھن ( Chen ) کا پروگرام سردار صاحب کے مائننگ پروجیکٹ میں انوسمنٹ کرنے کا تھا ۔ اس وزٹ کےلیے ایک گروپ تشکیل دیا گیا جنہوں نے کراچی سے دالبندین بلوچستان اور پھر وہاں سے چاغی جانا تھا ۔ اس سفر کےلیے مسٹر چھن ( Chen ) مجھے بھی ساتھ لے جانا چاہتے تھے ۔ پروگرام ایسے بنا کہ ان کے گروپ کی روانگی سے کچھ دن پہلے میں ایوو سے پاکستان اپنے گھر جاؤں گا ۔ مسٹر چھن ( Chen ) گروپ کے ساتھ کراچی جائیں گے ۔ میں کچھ دن گھر قیام کے بعد مسٹر چھن کی پاکستان آمد والے دن کراچی پہنچ جاؤں گا ۔ اس پروگرام پر عمل درآمد کرتے ہوئے میں کراچی ان کے پاس پہنچ گیا مجھے ائیرپورٹ پر ریسیو کرنے کےلیے مسٹر وانگ اور سردار صاحب کے بیٹے سردار سعادت موجود تھے ۔ گروپ میں کوئی پندرہ لوگ تھے اور ساتھ کچھ وہ بھی تھے جو پہلے سے وہاں کسی پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے ۔ دو تین کا وقفہ ہمارے پاس تھا کیونکہ دالبندین تک ہفتے میں ایک ہی فوکر طیارہ جاتا تھا ۔ خیر ان دو تین دنوں میں مختلف چائنیز لوگوں سے ملاقاتیں بھی ہوئی جو پہلے سے کسی نہ کسی کاروبار کے حوالے سے کراچی میں مقیم تھے ۔ ان میں ایک خاتون بھی تھیں جو بقول ان کے سترہ سال سے پاکستان میں مقیم تھیں اور ایک وہ بھی جو گدھے کی کھال چائنا بھیجتے تھے ۔ کچھ ایسی فراغت کا امکان بھی تھا کہ مسٹر چھن کے ساتھ دوستانہ ماحول میں بات چیت ہو سکے جو میری اپنی بڑی خواہش تھیں کیونکہ ان کا گھرانہ انتہائی مہذب اور پڑھا لکھا تھا ۔ میری دلچسپی کا موضوع چائنا کی تاریخ تھی کیونکہ اس سے ان کے مختلف علاقوں کے لوگوں کے رویہ سے متعلق بہت کچھ اندازہ ہو جاتا ہے اور اس کے علاؤہ مسلمانوں پر اور ان کی مساجد پر کیا بیتی اس کا بھی اندازہ ہو جاتا ۔ پیپلز ریپبلک آف چائنا کے قیام تک والی تاریخ تو مجھے معلوم تھی اس سے آگے کچھ ایسے واقعات بھی پیش آئے جس نے لوگوں کے مزاج اور رویوں پر بہت اثر چھوڑا ۔ لوگوں میں خوف اور شک کرنے کی نفسیات کو پیدا کیا ۔ میں ان کچھ خاص واقعات کے متعلق ان سے جاننا چاہتا تھا اور یہ باتیں شاید چائنا کے اندر کوئی کھل کر ڈسکس کرنے کو تیار نہ ہوتا ۔ اس لیے میرے پاس یہ بہترین موقع تھا ۔ میرے لیے یہ دلچسپی کا موضوع اس لیے بھی تھا کہ کچھ چائینز اسے ترقی کی طرف بہت بڑا قدم اور کچھ اسے تباہی گردانتے تھے ۔ بہرحال مجھے یہ موقعہ مل ہی گیا کہ میں مسٹر چھن اور مسٹر وانگ جو کافی عرصے سے یہاں مقیم تھے اکٹھے بیٹھ گئے اور پاکستان کے متعلق گپ شپ شروع ہو گئی ۔ میں نے موضوع کو چائنا کی سیاست کے طرف موڑا اور گریٹ لیپ فارورڈ ( Great leap forward ) کے متعلق جاننا چاہا کیونکہ میرے خیال میں اس کی ناکامی ہی کلچر ریولوشن کا باعث بنی ۔ یہ وہی کلچر ریولوشن تھی جس نے تمام مذاہب کے ماننے والوں پر زمین تنگ کر دی اور کیمونسٹ حکومت کے اقدامات پر تنقید کرنے والوں کو غدار اور انقلاب دشمن کہہ کر قتل کر دیا ۔ ان میں خاص کر یونیورسٹیوں کے پروفیسر بھی شامل تھے ۔ مسٹر چھن نے بات شروع کی ۔
اکتوبر 1949 میں ( Kuomintang ) چینی نیشلسٹ پارٹی کی شکست کے بعد چینی کیمونسٹ پارٹی نے عوامی جمہوریہ چین کے قیام کا اعلان کیا ۔ فوری طور پر بڑی اراضی کے مالکان سے ان کی زمینیں زبردستی لے کر اجتماعی زراعت کے گروپوں میں تقسیم کر دی گئیں ۔ پارٹی کی طرف سے برائی قرار دی جانے والی فصلوں جیسے افیون کی فصل کو تباہ کر دیا گیا اور اس کی جگہ چاول کی فصل اگانے کو کہا گیا ۔
زرعی اراضی کی اس انتظام کے متعلق پارٹی کے اندر بہت بحث مباحثہ ہوا ۔ اعتدال پسند دھڑے کے سربراہ اور پولیٹ بیورو کے رکن لیو شاؤکی ( Liu Shaoqi ) نے یہ رائے پیش کی کہ تبدیلی بتدریج ہونی چاہیے کسانوں کے مشترکہ فارمنگ کےلیے پہلے زرعی مشین کی انڈسٹری کے مستحکم ہونے کا انتظار کرنا چاہیے ۔ ماؤ زے تنگ کی قیادت میں موجود بنیاد پرست دھڑے نے یہ دلیل دی کہ انڈسٹری کو مستحکم کرنے کےلیے بہترین طریقہ کار یہی ہے کہ زراعت پر حکومت کا کنٹرول حاصل کیا جائے تاکہ کسانوں کی اگائی فصل کم لاگت پر خرید کر مہنگے داموں فروخت کی جائے اور اس سے صنعت کےلیے سرمایہ دستیاب ہو سکے گا ۔
1949 سے پہلے کسان اپنی زیر ملکیت زمین روایتی طریقوں سے کاشت کرتے اور فصل کی کٹائی کے بعد تہواروں ، ضیافتوں ، اور آباؤ اجداد کو خراج عقیدت پیش کرتے جو ثقافتی تہوار تھے ۔ یہ محسوس کیا گیا تھا کہ زراعت پر ریاستی اجارہ داری سے اور اس سے انڈسٹری کو ترقی دینے کا ماؤ کا پروگرام کسانوں میں غیر مقبول ہو گا ۔ لہذا یہ تجویز کیا گیا تھا کہ کسانوں کےلیے زراعت میں جدت لانے کے اجتماعات منعقد کیے جائیں جس کے ذریعے سے آہستہ آہستہ زراعت کو پارٹی کے کنٹرول میں لایا جائے اور انہی پروگرامات سے کسانوں میں جدید زرعی اوزاروں اور جانوروں کی افزائش کے مسودے بھی بانٹے جائیں ۔ یعنی کسانوں کی جدید طرز زراعت کی تربیت بھی کی جائے گی اور اپنے پروگرام کے متعلق ان کی ذہن سازی بھی ۔
اس پالیسی کو 1949 اور 1958 کے درمیان بتدریج آگے بڑھایا گیا ، پہلے 5-15 گھرانوں کی “باہمی امدادی ٹیمیں” قائم کی گئیں ، پھر 1953 میں 20-40 گھرانوں کی ” ابتدائی زرعی کوآپریٹیو “، پھر 1956 میں ” 100-300 خاندانوں کے اعلی کوآپریٹیو ۔ 1954 کے بعد سے کسانوں کو اجتماعی کاشتکاری کی انجمنیں بنانے اور ان میں شامل ہونے کی ترغیب دی گئی ، جو ان کی اپنی زمینوں کو ان کی ملکیت میں لوٹے بغیر یا ان کے ذریعہ معاش کو محدود کیے بغیر ان کی کارکردگی میں اضافہ کرے گی ۔
1958 تک نجی ملکیت کو ختم کر دیا گیا اور تمام گھرانوں کو ریاست کے زیر انتظام کمیونز ( communes ) میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا ۔ ماؤ نے مطالبہ کیا کہ کمیون ( مشترکہ پیداواری یونٹ ) اناج کی پیداوار میں اضافہ کریں تاکہ شہریوں کو کھانا کھلایا جا سکے اور برآمدات کے ذریعے زرمبادلہ کمایا جا سکے ۔ یہ اصلاحات عام طور پر کسانوں میں غیر مقبول تھیں اور عمومی طریقہ کار یہ اپنایا گیا کہ کسانوں کو میٹنگوں میں بلاہا جاتا اور انہیں کچھ دنوں اور بعض اوقات ہفتوں تک وہاں ٹھہرا کر جب تک وہ ” رضاکارانہ طور پر ” اجتماعی زراعتی پروگرام میں شامل ہونے پر راضی نہ ہو جائیں زبردستی روکا جاتا ۔
فضول خرچی کو روکنے اور بچت کی حوصلہ افزائی کےلیے شہروں میں راشننگ بھی متعارف کروائی گئی تھی ۔ بچت جو سرکاری بینکوں میں جمع کرائی گئی تھی وہ سرمایہ کاری کےلیے دستیاب ہو گئی ۔ اگرچہ خوراک سرکاری مقرر کردہ سٹورز سے خریدی جا سکتی تھی لیکن اس کی قیمت کسانوں سے خریدی گئی قیمت سے بہت زیادہ رکھی گئی اور یہ بھی فضول خرچی کو روکنے کے نام پر کیا گیا ۔
ان معاشی تبدیلیوں کے علاوہ پارٹی نے دیہی علاقوں میں بڑی سماجی تبدیلیاں لاگو کیں جن میں تمام مذہبی سماجی تقریبات کو ختم کیا گیا ، ان کی جگہ سیاسی میٹنگز اور پروپیگنڈہ سیشنز متعارف کروائے گئے ۔ دیہی تعلیم اور خواتین کی حیثیت کو بڑھانے کی کوششیں کی گئیں (اگر وہ چاہیں تو طلاق لے سکتی ہیں) اور بچوں کی چھوٹی عمر میں شادی اور افیون کی لت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ۔ 1956 میں داخلی پاسپورٹ کا نظام متعارف کرایا گیا تھا ، جس میں اجازت کے بغیر شہروں کے سفر کو روکا گیا تھا ۔ سب سے زیادہ ترجیح شہری ڈومیسائل کو دی گئی جن کے لیے ایک فلاحی ریاست بنائی گئی ۔
اجتماعیت کے پہلے مرحلے کے نتیجے میں پیداوار میں معمولی بہتری آئی ۔ 1956 میں ہانگ زی ( Yang ze ) دریا کے ساتھ کے علاقے میں قحط کو غذائی امداد کی تقسیم کے ذریعے روکا گیا ۔ لیکن1957 میں پارٹی کا فیصلہ یہ تھا کہ ریاست کی طرف سے ایسے حادثات سے بچنے کےلیے سٹاک کی گئی فصل کے تناسب کو بڑھایا جائے تاکہ آئندہ آنے والی آفات سے بہتر طور پر نپٹا جا سکے ۔ پارٹی کے اندر اعتدال پسندوں نے ، بشمول زو اینلائی ( Zhou Enlai ) نے اس بنیاد پر اجتماعیت کے اس نظام کو تبدیل کرنے کی سفارش کی کہ ریاست کا خوراک کا زیادہ اسٹاک اپنے پاس رکھنے سے لوگوں کی خوراک کی ضروریات کا سارا انحصار حکومت کے مستقل ، موثر اور شفاف کام پر ہو گیا ہے ۔
1957 میں پہلے 5 سالہ اقتصادی منصوبے کی تکمیل تک ماؤ ان شکوک و شبہات میں مبتلا ہو گئے کہ کیا سوشلزم کا راستہ جو سوویت یونین نے اختیار کیا تھا وہ چین کے لیے مناسب ہے ۔ ماؤ روسی خروشیف کی طرف سے سٹالنسٹ ( Stalin ) پالیسیوں کے مخالف جانے پر تنقید کرتے تھے اور مشرقی جرمنی ، پولینڈ اور ہنگری میں ہونے والی بغاوتوں نے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی ۔ اس خیال سے کہ سوویت یونین مغربی طاقتوں کے ساتھ ” پرامن بقائے باہمی” کی خواہاں ہے ماؤ اس بات پر قائل ہو چکے تھے کہ چین کو کمیونزم کےلیے اپنے راستے پر چلنا چاہیے ۔ کوریا کی جنگ کے ساتھ ساتھ دنیا کے بیشتر حصوں سے چین کی تنہائی نے ماؤ کو اپنے گھر میں تصوراتی دشمنوں جو اصل میں پارٹی کے اندر ہی اعتدال پسند تھے اور ماؤ کی سخت پالسیوں سے اختلاف رکھتے تھے ماؤ کو محتاط کر دیا ۔ ماؤ ایک ایسی معیشت کی ترقی کے لیے اپنے منصوبے کو تیز کرنے پر مجبور ہوئے جہاں حکومت کو دیہی ٹیکس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ ملے ۔
نومبر 1957 میں اکتوبر انقلاب کی 40 ویں سالگرہ منانے کےلیے کمیونسٹ ممالک کے پارٹی لیڈر ماسکو میں جمع ہوئے ۔ سوویت کمیونسٹ پارٹی کی فرسٹ سیکرٹری نکیتا خروشیف نے پرامن مقابلے کے ذریعے اگلے 15 سالوں میں صنعتی پیداوار میں امریکہ سے آگے بڑھنے کی تجویز پیش کی ۔ ماؤ اس نعرے سے اس قدر متاثر ہوئے کہ چین نے اپنا پروگرام پیش کیا کہ 15 سالوں میں صنعتی شعبہ میں برطانیہ کو پیچھے چھوڑنا ہے ۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کےلیے گریٹ لیپ فارورڈ ( Great leap forward ) مہم کا آغاز دوسرے پانچ سالہ منصوبے کے دوران ہوا جو 1958 سے 1963 تک چلنا تھا ، لیکن یہ مہم 1961 تک بند کر دی گئی ۔ ماؤ نے جنوری 1958 میں نانجنگ میں ایک میٹنگ میں گریٹ لیپ فارورڈ کی نقاب کشائی کی ۔ اس پروگرام کا مقصد بڑے سائز میں مشترکہ کاشتکاری اور اس کے ساتھ ساتھ سستی لیبر کو استعمال کرے انڈسٹری کی اعلی پیداوری صلاحیت حاصل کرنا تھا ۔ لیکن اس سارے پروگرام کو صرف طاقت استعمال کرکے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی اس میں لوگوں کی نفسیات اور بنیادی مشینری کو سامنے رکھا ہی نہیں گیا تھا ۔ زمینی حقائق کو پس پشت ڈال کر بس ایک جنونی سی کوشش کی گئی جس کے نتائج بہت شدید نکلے ۔ بنیادی معلومات اور تجربے کو ایک طرف رکھ کر چھوٹی چھوٹی سٹیل کی بھٹیاں لگائی گئیں اور کسانوں نے اپنی زراعت کو چھوڑ کر ان بھٹیوں میں کام کرنا شروع کر دیا ۔ سٹیل کی پیداور بڑھانے کےلیے ایندھن کے طور پر درخت کوئلہ سب کچھ استعمال کیا گیا جس سے زمین اور ماحول کو شدید نقصان پہنچا اور بنیادی سائنسی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے جو سٹیل کی پیداوار ہوئی وہ بھی بہت ہی ناقص تھی ۔ پارٹی کے اندر موجود اعتدال پسند خاموشی سے اس احمقانہ پروگرام کو دیکھنے رہے ۔ ماؤ نے خود جب اپنے ملک میں موجود بڑی سٹیل مل کا دورہ کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ اچھی کوالٹی کا سٹیل ایسی چھوٹی بھٹیوں پر تیار نہیں ہو سکتا ۔ آخر کار اپنی ساخت بچانے کےلیے اس پروگرام کو خاموشی سے سمیٹ دیا گیا ۔
یہی حال آبپاشی کے منصوبوں کا بھی تھا کہ بغیر کسی پلاننگ کے نہروں کا کام شروع کیا گیا اور ہزاروں لوگ بھوک سے مر گئے ۔ چھن ہائی (Qing hai ) اور کانسو ( Gansu ) صوبے کے رہنے والے ان منصوبوں کو قاتل منصوبوں کا نام دیتے ہیں ۔
یہی حال زراعت کا بھی تھا ۔ ماؤ کے حکم کے مطابق بیچ نارمل فاصلے کی بجائے قریب قریب بوئے گئے تاکہ تھوڑی جگہ سے زیادہ فصل حاصل کی جا سکے ۔ بیج دو میڑ گہرائی میں بوئے گئے کہ اس سے جڑیں دور تک ایک دوسرے سے متصل رہتی ہیں ۔ درمیانی زرخیز زمین کو بالکل ہی چھوڑ دیا گیا کہ اس سے کھاد اور محنت کا نقصان ہوگا ۔ ان سارے اقدامات سے پیداوار بجائے زیادہ ہونے کے بہت کم ہوئی ۔ اور لوکل باڈیز کو مجبور کیا گیا کہ پیداور میں اضافے کے غلط اعداد و شمار احکام بالا کو دیے جائیں ۔ انہوں نے بھی پارٹی میٹنگ میں اصل پیداور سے دس گنا زیادہ اعداد و شمار پیش کیے ۔ لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ سٹیٹ نے ان کے پیش کردہ اعدادو شمار کے مطابق ان سے پیداوار کو حکومت کو بیچنے کا مطالبہ کیا ۔ حکومتی اہلکاروں نے ان کسانوں پر شدید تشدد کیا جو اعداد و شمار کے مطابق حکومت کو اجناس پیش نہ کر سکے ۔ اس عمل کے دوران ہزاروں لوگ قتل اور بھوک سے مر گئے ۔ لوگ اس دور کو قحط اور موت کا دور کہتے ہیں ۔ ژندہ بچے صرف وہ جو درختوں کے پتے ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے ۔
پارٹی میٹنگ میں جب اس ( Great leap forward ) کی ناکامی پر بحث ہوئی پارٹی کے اندر ریفارمز نے تنقید کی ۔ ماؤ نے ان لوگوں کو ملک دشمن عناصر قرار دیا جو ان کی اس پالیسی کی مخالفت کر رہے تھے ۔ اور ایسے مخالفین کے خلاف ملک گیر مہم شروع کر دی گئی ۔ اس ناکام پالیسی نے ماؤ کی شہرت کو شدید نقصان پہنچایا جس کے بچاؤ کےلیے اور لوگوں کی توجہ ہٹانے کےلیے کلچرل ریولوشن کی تحریک شروع کی گئی ۔ یہ تحریک اصل میں ان لوگوں کے خلاف تھی جو ماؤ کی پالیسوں کی ناکامی اور اس کے نتیجے میں لاکھوں اموات پر تنقید کر رہے تھے اور ماؤ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے ۔ ماؤ نے زرعی کم پیداور ہونے اور قحط کا خطرہ ہونے کے باوجود اپنی شہرت بچانے کےلیے غلہ دوسرے ممالک کو برآمد کر دیا ۔ اور پھر 1961 میں کینیڈا اور آسٹریلیا سے غلہ درآمد کر کے کچھ علاقوں میں بھیجا گیا ۔ یہ چائنا کی تاریخ کا بدترین قحط تھا جس میں پندرہ ملین افراد موت کا شکار ہوئے ۔
یہی گریٹ لیپ فارورڈ ( Great leap forward ) کا جنونی اور تصوراتی منصوبہ تھا جس میں انسان کی نفسیات اور اس کے بینادی حقوق کی آزادی کا خیال نہیں رکھا گیا اور اس کی ناکامی نے کئی لاکھ لوگوں کی جان بھی لی اور لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس بھی پیدا کیا ۔ جو حکومت لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کےلیے قائم کی جاتی ہے اس نے غلامی کے نئے ادارے کی شکل اختیار کر لی ۔ انسان کوئی جانور یا مشین نہیں کہ جیسے آپ اس کی پروگرامنگ کریں وہ اس کے مطابق عمل کرتا رہے ۔ خدا نے اسے ارادہ و اختیار دے کر بھیجا ہے ۔ اگر اس سے احساس تحفظ ہی چھین لیا جائے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اس پروگرام کے دوران کئی لوگ بھوک اور حکومتی تشدد سے ہلاک ہوئے اور کئی لوگوں نے خودکشی کر لی ۔ مخلص ہونا الگ بات ہے اور کسی شعبہ کے متعلق علم کا ہونا الگ بات ۔ یہ ایک جنون اور خود پسندی تھی جس نے لاکھوں لوگوں کی جان لی ۔ پھر وہ سارے خواب جو لوگوں کو دیکھائے گئے تھے وہ بھی چکنا چور ہو رہے تھے ۔ اپنی ساخت کو بچانے کےلیے ایک اور ایسی جنونی کوشش کی گئی جسے کلچر ریولوشن ( cultural Revolution ) کا نام دیا گیا ۔ یعنی اپنی ناکامی کو دشمنوں کی سازش اور مذہب کو اس کا سبب کہہ کر سیاسی مخالفین کے خلاف قتل و غارتگری شروع کر دی گئی ۔ اس کے متعلق میں بہت کچھ جاننا چاہتا تھا لیکن مسٹر وانگ سے ملنے کچھ مہمان آ گئے اس لیے ہم نے بات وہیں روک دیا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply