میرے کھلونے ۔۔حبیب شیخ

آج میں گھنٹوں اپنے کھلونوں کے ساتھ باہر کھیلتی رہی۔ آج بھی سکول بند تھا، میرا چھوٹا سا سکول، میرا پیارا سکول۔ یہ تو اب تقریباً بند ہی رہتا ہے، بس کبھی کبھی کھلتا ہے کچھ دنوں کے لئے اور اس کے بعد پھرچھٹّی ہی چھٹّی ۔ کبھی استاد یا استانی نہیں ہوتے، کبھی  سکول کے پاس پیسے نہیں ہیں، کبھی جان کا خطرہ ہے۔ میری سہیلیاں زرینہ اور فریحہ بھی میرے ساتھ کھیلنے کے لئے آجاتی ہیں۔ ہم نے بہت سارے کھلونے ڈھونڈ کر جمع کئے ہیں۔ شروع شروع میں مجھے یہ بہت عجیب  و  غریب لگتے تھے لیکن اب یہ مجھے ان سے زیادہ اچھے لگتے ہیں جن کی تصویریں میں نے ایک کتاب میں دیکھی تھیں، بےڈھنگے جانور، رنگ برنگے برتن، گڑیا تو انسان لگ ہی نہیں رہی تھی اتنے تنگ اور کم کپڑوں میں۔ میں اپنےکھلونوں میں سے کسی کو چُن کر کپڑے پہنا کر اپنی گڑیا بنا لیتی ہو ں، کچھ اور کھلونوں کو ترتیب دے کر میں اور میری سہیلیاں گھر بنا لیتی ہیں اور پھر بڑی دیر تک ہم کھیلتے رہتے ہیں۔ کبھی ہم ایک دوسرے سے کھلونے بھی بدل لیتے ہیں۔ ہم نے اپنے کھلونوں کے خود ہی نام رکھے ہوئے ہیں مثلاً نوک دار، آتشی، راکٹ، پٹاخہ۔

آج میں زرینہ اور فریحہ کے ساتھ مل کر جنگ جنگ کھیلتی رہی۔ کتنا مزہ آیا تھا جب میں نے ان دونوں کے گڈی گڈے کو ماردیا! میرے پاس اب تیس کھلونے ہیں، زرینہ کے پاس مجھ سے کچھ کم لیکن فریحہ نے بہت زیادہ کھلونے جمع کئے ہوئے ہیں۔ وہ اگر گھر سے ذرا دور بھی چلی جائے تو اس کی پھوپھی اسے کچھ نہیں کہتی۔

آج جب ہمارا کھلونوں سے دل بھر گیا تو سوچا کہ ٹینک پہ چڑھ کر آنکھ مچولی کھیلیں ۔ پتا نہیں یہ ٹوٹا پھوٹا ٹینک کس نے یہاں لا کر کھڑا کردیا ہے اور واپس لے جانا بھول گیا ہے۔ آج پھر اس پہ لڑکے چڑھے ہوئے تھے۔ مجھے ان کی شرارتیں بالکل پسند نہیں وہ خواہ مخواہ ہمیں تنگ کرتے ہیں۔ ان کو ٹینک کی لمبی توپ سے لٹکنے کا کتنا شوق ہے! ہم ٹینک پہ کھیلے بغیر واپس آ گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج کی رات خاموش رات نہیں ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ  رات میں مجھے صرف جھینگروں کے بولنے کی آواز آئے لیکن وہ سب چپ ہیں جیسے وہ اس علاقے میں رہتے ہی نہیں ہیں۔ آج دوسری طرح کی خوفناک آوازیں آرہی ہیں۔ میری امّی نے مجھے اور میرے چھوٹے بھائی کو بہت زور سے اپنی بانہوں میں جکڑرکھا ہے اور بہت پریشانی کے عالم میں رو رہی ہیں اور گڑگڑا کر دعائیں مانگ رہی ہیں۔ لیکن مجھے اب ان بھیانک آوازوں سے اتنا ڈر نہیں لگتا، نہ میں پہلے کی طرح کانپتی ہوں اور نہ ہی چیخیں مارتی ہوں۔ میں تو بس اگلے دن کا انتظار کر رہی ہوں جب یہ آگ سلگتے گولےگولیاں ٹھنڈی ہو جائیں گی۔ پھر میں کتنے سارے اور کھلونے ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کر لوں گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply