• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ڈاکٹر گوپی چند نارنگ بطور نقاد-ایک ذاتی تاثر(دوم،آخری حصّہ )-ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ بطور نقاد-ایک ذاتی تاثر(دوم،آخری حصّہ )-ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ڈاکٹر نارنگ کا قلم تمام عمر متحرک رہا ہے ۔ ان کی کتابوں کا اگر بالاستیعاب مطالعہ کیا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ایک موضوع پر انہوں نے خدا جانے کتنا وقت صرف کیا ہو گا۔ جس عر ق ریزی اور جانفشانی سے انہوں نے زندگی پھر تحقیق اور تنقید کے کام کو نبھایا ہے، اس کی مثال کم از کم اردو  میں تو ملنا مشکل ہے۔ میں یہاں صرف چند ایک کتابوں کا ذکر ہی کروں گا کہ میں خود نہ تو تنقید نگار ہوں اور نہ ہی ادبی مورخ۔ لیکن ان کی کچھ تنقیدی نگارشات ایسی بھی ہیں ، جنہیں میں نے اپنی رہنمائی کے لیے بھی گاہے بگاہے کھولا ہے، متعلقہ متن کو نشان زد کیاہے، مستقبل کے لیے ان میں بک مارک کی پرچیاں رکھی ہیں اور پھر کئی بار بوقت ضرورت ان سے استفادہ کیا ہے۔

میں اب مختصراً کچھ نارنگ صاحب کی ان کتابوں اور ان میں مشمولہ اُن موضوعات کے بارے میں کہوں گا، جو اس لحاظ سے بہت اہم ہیں کہ ان میں موجودمضمون اور متن نے نا صرف اردو تنقید کے نسبتاً مختصر ذخیرے میں با معنی اضافہ کیا بلکہ اس لحاظ سے بھی کہ ان کے بعد آنے والے نقادوں کی نئی نسل نے بھی ان سے ہدایات حاصل کیں۔ کچھ احباب ، بشمولیت ناصر عباس نیر جو اس سیمینار میں موجود ہیں، اس پر صاد کریں گے کہ ہندوستان اور پاکستان، دونوں ملکوں میں اگر اس وقت تک تنقید کی فضا اور اس کا محاورہ بدل چکا ہے، تو یہ بہت حد تک ڈاکٹر نارنگ کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔

اپنی نوجوانی کے دنوں میں ایک محقق کے طور پر اپنا کام شروع کر کے نارنگ صاحب نے مختلف موضوعات پر کام کیا، جو شاید اس وقت کی عین ضرورت تھے۔ ان کی کتابوں کو غور سے دیکھیں تو ایک کا موضوع دوسری کتاب میں نہیں ملتا۔ انہیں خود کو دہرانے کی ضرورت کبھی نہیں پڑی۔ ان میں مرثیہ نگار انیسؔ پر ان کی کتاب ایک سنگ ِ میل ہے جو ’’موازنہ انیسؔ د دبیرؔ‘‘ کے تین چوتھائی صدی کے بعد ایک ایسا کام ہے جس کے لیے رثائی ادب کے شائقین ہمیشہ کے لیے ان کے ممنون رہیں گے۔ اسی طرح سانحہ کربلا کو بطور شعری استعارہ دیکھنے کی کوشش نارنگ صاحب سے پہلے خال خال ہی ہوئی تھی، لیکن انہوں نے اس موضوع پر لکھ کر اس استعارے کو ہمیشہ کے لیے مذہبیات سے انسانیت کے تناظر میں بدل دیا۔ بطور محقق نارنگ صاحب کے دیگر کارناموں میں اردو مثنویوں اور صنف غزل پر کام بھی اسی سیریز کا ایک حصہ ہے۔ امیر خسرو کے ہندوی کلام پر تحقیقی کام اس لحاظ سے بے بدل ہے کہ اس میں اس کی ہندوی بیخ و بنیاد تلاش کی گئی ہے۔ مجھے شاید یہ بات کہنے میں کچھ تامل ہو کیونکہ مجھے بوجوہ (جن کا مجھے علم ہے بھی اور نہیں بھی) صنف غزل کے ’’دشمن‘‘ کے طور پر پہچانا جاتا ہے، لیکن کہہ ہی دوں تو بہتر رہے گا۔ انہوں نے نے اردو غزل کی تاریخ سے وہ کوائف اخذ کیے ہیں (اور انہیں ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے) جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فارسی سے اردو میں آنے کے بعد اردو غزل نے کس طرح مقامی رنگ میں خود کو تخلیقی طور پررنگ لیا اور اب اگر اردو کے کچھ اشعار کا فارسی میں ترجمہ کیا جائے تووہ اس فارسی شاعری کے بالمقابل اپنی آزادنہ حیثیت سے پیش کیا جا سکتا ہے ، جس کو اردو میں اول اول فارسی کے تتبع کے طور پر اپنایا گیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں یہ ضروری ہے کہ ساختیات اور پس ساختیاتی سیناریو کو تھیوری کے تناظر میں دیکھنے کے بعد اسے اردو کے اہل قلم، خصوصی طور پر تنقید کے صفحے پر صرف سطحیت پر انحصار رکھنے والے نقاد حضرا ت (نقاد خواتین تو تھی ہی نہیں ) کے لیے اردو میں اس تھیوری کا تعارف دینا ایک جوکھم کا کام تھا۔ لیکن نارنگ صاحب نے وہ کام کیا، جس کے لیے شاید اردو تنقید کا منظر نامہ انہی کا منتظر تھا ۔۔۔ میں تفصیل میں جانے سے گریز کروں گا کہ کیسے ر غیر خواندہ یا نیم خواندہ یا کلیتاً جاہل لوگوں نے ان پر طرح طرح کی الزام تراشیاںکرنے کی مزموم کوششیں کیں، لیکن یہ کام آج بھی سب کے سامنے ہے، اور اردو تنقید میں اسی کام نے کئی نئے باب وا کیے ہیں۔
ڈاکٹر نارنگ اتفاق سے اس سیشن میں موجود نہیں ہیں۔ شاید میں یہ سب باتیں اس قدر تفصیل سے نہ کہہ سکتا اگر وہ اس وقت یہاں حاضر ہوتے کہ سب متین اور سنجیدہ لوگوں کی طرح اپنے کانوں سے اپنی تعریف سننا شاید انہیں گوارا نہ ہوتا اور میں بھی شاید یہ سب کچھ نہ کہہ سکتا۔
چلتے چلتے یہ بھی بتا دوں کہ اس کتاب کا ہندوستان کی سولہہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply