کازخ نائب وزیر کی وحشت/ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثل برگ آوارہ’سے
موسم چونکہ سرد تھا۔ اس لیے میرا قیام شولپان کے گھر پر ہی رہا تھا۔ ایک روز مجھے ایک پرانا شناسا مل گیا تھا جو ایک ایجنٹ یعنی ہیومن سمگلر تھا   اور جسے میں پہلے ماسکو میں بھی، جہاں وہ کوئی چار سال پیشتر تک تھا، کوئی اتنا پسند نہیں کرتا تھا لیکن ایک عرصے بعد ملاقات ہوئی تھی اس لیے تھوڑی دیر بعد آپس میں کھل گئے تھے۔

 

 

 

میں شولپان کی جانب اشارہ کرکے بولا تھا، “یہ دیکھنے میں اتنی اچھی نہیں لیکن مجھے اچھی لگتی ہے”۔ شولپان نے اپنے چند منٹوں کے رویے سے اس شخص پر نجانے کیا اچھا اثر چھوڑا تھا کہ اس نے مجھ سے کہا تھا،” اگر آپ نے اس کو دھوکہ دیا تو میں آپ کو قتل کردوں گا”۔ میں نے اس کی بات شولپان کو بتاتے ہوئے کہا تھا کہ لو بھئی تجھے مفت کا جاں نثار محافظ بھی میسّر آ گیا ہے۔ شولپان خوش ہوئی تھی اور کھلھلا کر ہنس دی تھی۔

دو ہفتوں کے دوران مجھے احساس ہو گیا تھا کہ شولپان کے ہمراہ گاہے گاہے گھوم پھر کر وقت بتانا، گپ شپ لگانا، ٹخ ٹلیاں کرنا اور سونا اتنا برا نہیں لیکن اس کے ساتھ مستقل طور پر رہنا جانکاہ ہو سکتا ہے۔ وجہ یہ تھی کہ وہ نہ صرف لاپرواہ تھی بلکہ پھوہڑ بھی تھی۔ اسے ڈھنگ کی کوئی چیز بنانا نہیں آتی تھی۔ وہ جب باہر سے آتی تھی، جینز اتار کر لاپرواہی کے ساتھ ایک جانب پٹخ دیتی تھی اور کرسی پر بیٹھ کر کمپیوٹر کھول لیتی تھی۔ اس کے بعد سب جائیں بھاڑ میں۔

مجھے پہلی بار، چاہے اپنے لیے ہی سہی، کھانا بنانے کی خاطر اتنا وقت باورچی خانے میں بتانا پڑا تھا، پھر میں بھی کوئی اتنے اچھے پکوان نہیں بنا سکتا تھا۔ میں اوب  گیا تھا۔ دوسری جانب رؤف تاتار تھا کہ باتیں بناتا تھا یا غائب ہو جاتا تھا۔ اس کے گھر فون کرو تو ملتا نہیں تھا۔ صاف لگ رہا تھا کہ وہ دھوکہ دینے کے چکر میں ہے۔ اس دوران شولپان اس کی چین لائن مارکیٹنگ سے نکل چکی تھی اور اس نے فلم ڈائریکشن کے کورس میں داخلہ لے لیا تھا۔ اس نے مجھے اپنے ہم جماعت لڑکے لڑکیوں سے بھی ملوایا تھا جن میں ایک مقامی کورین لڑکا بہت سوشل تھا جو ہر بات پر ” یولکا زیلیونے” یعنی سرو سبز کہتا تھا۔ اس نے یہ طریقہ گالیاں دینے سے اپنے آپ کو بچانے کی خاطر استعمال کیا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس کی زیادہ اٹھک بیٹھک روسیوں کے ساتھ رہی ہوگی جو امریکیوں کی طرح دوستوں کے ساتھ عام بول چال میں گندی گالیوں کا خوب استعمال کرتے ہیں۔

شولپان کو فلم سازی کا بہت شوق تھا۔ وہ ہر وقت فلمیں بنانے کی بات کرتی تھی۔ تاکہ کوئی اچھی فلم بنا سکے، وہ پیسے کمانے کے لیے پورنو فلمانے کے بھی حق میں تھی۔ ایسی ہی ایک گفتگو کے دوران میں نے کہا تھا، “تمہاری پورنو کے لیے مرد تو میں ہوں، لڑکیاں مل جائیں گی۔ “مل جائیں گی” اس کے منہ سے نکلا تھا، پھر سنبھل کر بولی تھی لیکن تم کیوں اس فلم میں کام کروگے؟ “تاکہ تمہارا خرچ بچے” میں نے مسکرا کر کہا تھا۔ “نہیں مجھے نہیں بنانی پورنو” اس کے بعد اس نے پورنو بنانے سے متعلق میرے سامنے کبھی کوئی بات نہیں کی تھی۔

اس نے مجھے کاز فلمز، جو کزاخستان میں فلم سازی کا سرکاری ادارہ تھا، کے ڈائریکٹر جنرل سے بھی ملایا تھا جس نے گفتگو کے دوران پوچھا تھا کہ کیا آپ پاکستان میں ہماری فلم “ابلائی خان” کی نمائش کا اہتمام کر سکتے ہیں؟ یہ فلم ایک کازخ ہیرو کے متعلق تھی جو یونیسکو کے تعاون سے تیار ہوئی تھی۔ کاز فلمز کے سٹوڈیوز کمپلکس کی عمارت میں موجود سینما ہال میں یہ فلم میں نے اور شولپان نے اس ادارے کے ڈائریکٹر جنرل کے ساتھ مل کر دیکھی تھی۔ ہال میں بس ہم تین تھے اور پروجیکٹر خاص طور پر چلایا گیا تھا۔ فلم بہت اچھی تھی۔ دیکھنے کے بعد میں نے فلم کی تعریف کی تھی اور ساتھ ہی کہا تھا کہ جناب یہ فلم پاکستان میں بطور نمائش پیش نہیں کی جا سکتی۔ ڈائریکٹر جنرل نے مایوس اور حیران  ہوکر پوچھا تھا،”آخر کیوں؟”۔ “جناب جس سینما میں یہ فلم دکھائی جائے گی لوگ اس سینما کو نذر آتش کر دیں گے کیونکہ آپ کی اس فلم میں لوگ جوتوں سمیت مسجد میں نماز پڑھتے دکھائے گئے ہیں”۔ ” لیکن یہ تو چند صدیوں پہلے کا واقعہ ہے جب بند مقامات کو گرم کرنے کے وافر اور مناسب انتظامات مفقود تھے۔ اس قدر شدید سردی میں لوگوں کو اسی طرح ہی نماز پڑھنی تھی۔ اس میں کیا غیر اسلامی ہے؟ اگر جوتوں کے تلوؤں کے ساتھ کوئی نجاست نہیں لگی تو نماز جوتوں سمیت بھی پڑھی جا سکتی ہے” ڈائریکٹر جنرل نے کہا تھا۔

میں نے اس سے اتفاق کیا تھا کہ فلم میں کچھ غلط نہیں دکھایا گیا لیکن ہمارے ہاں سینماؤں میں اس بارے میں فلم سے پہلے توضیحی اعلان تو نہیں کیا جائے گا ناں پھر ہمارے ہاں لوگ مذہب کے معاملے میں حد سے بڑھ کر جذباتی واقع ہوئے ہیں، اس لیے معذرت چاہتا ہوں کہ آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکوں گا۔

موصوف بڑے بددل ہوئے تھے لیکن مہذب آدمی تھے چنانچہ بڑے تپاک سے رخصت کیا تھا۔ بعد میں سوچا ہوگا کہ یہ پاکستانی بھی کوئی عجیب طرح کے لوگ ہیں۔ ایک کازخ کو پاکستانیوں سے متعلق بھلا کیسے سمجھ آ سکتی ہے جنہیں اسلام مُلاؤں نے سکھایا ہے جو منظق اور استدلال سے عاری ہے۔ اس کے برعکس کازخ لوگوں کی پاکستانیوں کو سمجھ نہیں آ سکے گی۔ سٹیپی پر مشتمل اس ملک میں (سٹیپی سینکڑوں ہزاروں میلوں میں پھیلی ہوئی غیر مسطح زمین کو کہتے ہیں جہاں کاشت نہیں کی جا سکتی۔ ہر چیز خود رو ہوتی ہے اور درخت تو ہوتے ہی نہیں) قدیم زمانوں میں اناج کی کمی کے سبب ایک محاورہ بنا تھا کہ اگر قرآن کہیں اونچائی پر رکھا ہو تو روٹیوں پر پیر دھر کے اسے مت اتارو البتہ اگر روٹی کہیں بلندی پر دھری ہو تو قرآن پر (نعوذ باللہ) کھڑے ہو کر روٹی اٹھا لو۔ روٹی بھوکے کے لیے سب سے زیادہ مقدم ہوتی ہے۔

فلم سے متعلقہ لوگوں کی محدود افراد کی کوئی محفل تھی جس میں شولپان نے مجھے ساتھ لے جانے کی اجازت لے لی تھی۔ اس محفل میں کوئی اٹھارہ بیس افراد تھے۔ جام صحت تجویز کرتے ہوئے روسی لوگ کسی کی تعریف میں بعض اوقات مبالغہ آرائی اور دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں۔ سننے والے اس کو درگذر کرتے ہیں۔ ایسا ہی اس مشرقی ملک میں کیا جائے گا، مجھے احساس نہیں تھا۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی متعلقہ نائب وزیر تھے۔ نائب وزیر بالعموم فیڈرل سیکرٹری کو کہا جاتا ہے۔ دو تین پیگ پینے کے بعد جن کے سبب اوئیگور قوم سے تعلق رکھنے والے یہ نائب وزیر مخمور ہو چکے تھے، اپنی باری آنے پر جام صحت تجویز کرتے ہوئے روس کی ملکہ ترنم آلا پوگاچووا کے ساتھ اپنی قربت کے بارے میں عیاں دروغ گوئی سے کام لینے لگے تھے۔ جس جانب وہ کھڑے ہو کر لمبی تقریر فرما رہے تھے، اس طرف بیٹھے لوگ مسکرا رہے تھے۔ ان کے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں میں مَیں اور شولہان بھی تھے۔ میں بھی مسکرا رہا تھا۔ نائب وزیر موصوف کو شاید اچھا نہیں لگا کہ ایک غیر ملکی ان کی کہی بات پر طنزاًٍ  ہنسے۔ انہوں نے مجھے آنکھ کا اشارہ کرتے ہوئے استفسار کیا تھا ،” تم کیوں مسکرا رہے ہو” اس سے پہلے کہ  کوئی جواب دیتا، انہوں نے دوچار قدم طے کیے اور پورے زور کا مُکہ میری بائیں آنکھ کے اوپر جڑ دیا تھا۔ ان کی انگشت شہادت میں سونے کی ایک چوڑی مہردار انگوٹھی تھی۔ وہ شخص مکہ مارتے ہی تیزی سے باہر کے دروازے کی جانب گیا تھا۔ میں ہکا بکا تھا۔

شولپان چیختی ہوئی اس شخص کے پیچھے لپکی تھی، آنکھ کے اوپر بھنو سے نیچے کی کھال پھٹ گئی تھی، جونہی خون کا فوارہ چھوٹا میں بھی پنجابی زبان میں “تیری تے” کہتا ہوا شولپان کے ساتھ اس شخص کے پیچھے بھاگا تھا لیکن نائب وزیر کام دکھا کر غائب ہو چکا تھا۔

شولپان کا کوریائی دوست مجھے اور شولپان کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر ایمرجنسی سنٹر لے گیا تھا، جہاں میری کھال میں پانچ ٹانکے لگائے گئے تھے۔ اگلے روز ورکنگ ڈے تھا۔ شولپان اور کوریائی جوان شخص اخبارات کے دفاتر میں چلے گئے تھے۔ شام تک نائب وزیر مجبور ہو کر مجھ سے معافی مانگنے پہنچا تھا۔ میں نے تو اسے معاف کر دیا تھا لیکن شولپان نے اسے خوب سنائی تھیں۔ جس کا شولپان کو خمیازہ بھگتنا پڑا تھا، کچھ عرصے بعد اسے ایک بے بنیاد الزام لگا کر فلم سازی کے کورس سے نکال دیا گیا تھا۔

جب میرے ٹانکے کھل گئے تو میں نے واپس ماسکو جانے کی ٹھانی تھی۔ رؤف یکسر غائب ہو گیا تھا۔ اس کا بھائی اور اس کی بیوی اس کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے تھے۔ میں باورچی خانے میں کھانے نہیں بنا سکتا تھا۔ میں نے شولپان کو یہ نہیں بتایا تھا کہ میں نینا کو چھوڑ کر آ گیا تھا بس یہی کہا تھا کہ میں لمبے عرصے کے لیے الماآتا آیا ہوں۔ میرے واپس جانے کے فیصلے پر شولپان کا منہ تو بنا تھا لیکن وجہ وہ جانتی تھی کہ اس کی لاپرواہی اور پھوہڑ پن نے مجھے بیزار کر دیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شولپان مجھے ریل گاڑی میں سوار کرا کر کے گئی تھی۔ چوراسی گھنٹوں کے بعد جب میں ماسکو کے ایک سٹیشن پر پہنچا تھا تو میرے پاس دو راستے تھے کہ یا تو دفتر چلا جاؤں جہاں اب میں نے رہائش رکھی ہوئی تھی یا براہ راست نینا کے گھر چلا جاوں اور جو ہو سو ہو۔ دفتر دور تھا اور نینا کا گھر نزدیک لیکن میں نے تیسرا راستہ اختیار کیا تھا۔ سب سے نزدیک میرے بھتیجے شہزاد کا ہوسٹل پڑتا تھا میں اس کے پاس چلا گیا تھا۔ شام تک فون پر نینا سے مذاکرات کرکے صلح پر آمادہ کرنے کے بعد میں ایک بار پھر اس کے ہاں چلا گیا تھا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply