اخلاقی نفسیات (4) ۔ منبع/وہاراامباکر

صحیح کیا ہے اور غلط کیا؟ اخلاقیات کہاں سے آتی ہے؟ اس سوال کے جواب پر کئی مکتبہ فکر ہیں۔ آسان جواب دو لگتے ہیں۔ فطرت یا تربیت۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ نے فطرت کا انتخاب کیا تو آپ nativist ہیں۔ آپ کا خیال ہے کہ اخلاقیات کا علم ذہن میں فطری طور پر ہے۔ یہ پیدا ہوتے ہی ہمارے ساتھ ہے۔ صحیح اور غلط کی پہچان کا آلہ ہم میں پیدائشی طور پر فٹ ہے۔ اس خیال سے کئی روایتی مذہبی خیالات اور ارتقائی نفسیات اتفاق کریں گے۔
اگر آپ نے تربیت کا انتخاب کیا تو آپ empiricist ہیں۔ آپ کا خیال ہے کہ انسان پیدا ہوتے وقت صاف
تختی ہے۔ دنیا بھر میں اخلاقیات کا معیار ایک نہیں تو بھلا یہ فطرت کا حصہ کیسے ہو سکتی ہے؟ ہم بچپن میں جو تجربات سے سیکھتے ہیں، وہی بڑے ہو کر ہمارے ذہن پر نقش ہو جاتا ہے اور یہ ہمیں صحیح اور غلط کا بتاتا ہے۔ یہ خیال پروگریسو نظریات کے لئے اہم رہا ہے۔ (ایمپیریکل کا مطلب مشاہدے اور تجربے سے حاصل کردہ علم ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ان دونوں میں انتخاب کا سوال ایک غلط سوال ہے۔ دونوں ہی کسی حد تک درست ہیں لیکن مکمل جواب نہیں دیتے۔
بیسویں صدی کے آخر تک اس سوال کے بارے میں ایک اور نکتہ نظر زیادہ نگاہ میں تھا جس کو rationalism کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بچے اخلاقیات خود سیکھتے ہیں۔ جین پیاگے ڈویلپمنٹ سائکلولوجی کے شعبے کا بڑا نام ہیں۔ انہیں نے اپنا کیرئیر زولوجسٹ کے طور پر شروع کیا تھا۔ کیڑوں اور کیچووں کی سٹڈی میں ان کے لئے مسحور کن عمل metamorphosis تھا۔ اس میں کیڑا اپنی پوری جون ہی بدل لیتا ہے۔ جیسا کہ سنڈی تتلی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ جب انہوں نے اپنی توجہ بچوں کے رویے کی طرف کی تو یہ دلچسپ خیال بھی ساتھ لے کر آئے۔ ننھے بچوں کی محدود صلاحیت سے بالغ سوچ کی غیرمعمولی نفاست تک ویسی ہی تبدیلی تھی جیسا تتلی بننے کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چھوٹے بچے کے سامنے دو ایک ہی گلاسوں میں ایک ہی جتنا پانی رکھتے۔ بچے کے سامنے ان میں سے ایک کو پتلے گلاس میں انڈیلتے۔ ظاہر ہے کہ پتلے گلاس میں سطح اونچی ہو جاتی۔ بچے سے پوچھتے کہ دونوں میں سے زیادہ کس گلاس میں ہے؟ چھ سال سے کم عمر بچے پتلے گلاس کی طرف اشارہ کر دیتے۔ جبکہ زیادہ بڑے بچے اس سے دھوکا نہ کھاتے۔ چھوٹے بچے یہ نہیں سمجھتے تھے کہ پانی کا کُل حجم برقرار رہتا ہے اور گلاس تبدیل کرنے سے فرق نہیں پڑتا۔ انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ان چھوٹے بچوں کو یہ سمجھانا بھی بے کار ہے۔ بچہ اگر ایک خاص عمل تک پہنچ جائے گا اور اس نے پانی سے کھیل کر دیکھا ہو گا تو وہ خود ہی سمجھ جائیں گے۔ یعنی کہ پانی کے حجم کی کنزرویشن کا علم بچے کی جبلت کا حصہ نہیں اور نہ ہی اسے بڑے سکھا سکتے ہیں۔ بچے اس کو خود سمجھ لیں گے جب ان کا ذہن تیار ہو گا اور جب انہیں ٹھیک تجربات ملیں گے۔
پیاگے نے اپنی اس اپروچ کو بچوں کی اخلاقی سوچ کی سٹڈی پر بھی استعمال کیا۔ بنٹے کھیلتے بچوں کے ساتھ کھیل میں کھیلتے اور مشاہدہ کرتے کہ کب کھیل کے قوانین کی پابندی، اپنی باری کا احترام اور تنازعے حل کرنے کی صلاحیت آتی ہے۔ بچوں کی میچورٹی کے ساتھ ہی یہ علم بڑھتا جاتاہے۔
پیاگے نے کہا کہ اخلاقیات گلاس میں پانی کی سطح جیسا ہے۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ فطری ہے اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ بالغ اسے براہِ راست سکھا سکتے ہیں۔ یہ خود سیکھا جاتا ہے۔ بچہ دوسرے بچوں سے معاملہ کرتا ہے۔ تین سال کے بچے کو انصاف کی سمجھ ہو ہی نہیں سکتی لیکن پانچ سے چھ سال کی عمر میں کھیلیں کھیل کر، بحث کر کے اور دوسرے بچوں سے معاملہ کر کے سیکھ لے گا اور یہ پندونصائح کے مقابلے میں کہیں زیادہ کارگر طریقہ ہے۔
نفسیاتی ریشنلزم کا یہ خلاصہ ہے۔ جس طرح سنڈی اگر ٹھیک مقدار میں پتے کھاتی رہے تو یہ اپنے وقت پر پر اگا کر تتلی بن جاتی ہے۔ اگر ہم ٹھیک ماحول میں رہیں تو ہماری اخلاقیات کی تتلی بھی نمودار ہو جاتی ہے۔ ہماری نیچر ریشنل ہے اور اچھی اخلاقی عقل ڈویلپمنٹ کا حتمی نکتہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(فلسفے میں ریشنلزم کی طویل تاریخ رہی ہے اور اس لفظ کا کوئی بہت واضح مطلب نہیں لیکن ہم اس سلسلے میں ریشنلزم کا آئیڈیا اسے کہیں گے جس کے مطابق عقل اخلاقیات کا سب سے اہم اور قابلِ اعتبار طریقہ ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیاگے کے کام کو لارس کوہلبرگ نے آگے بڑھایا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply