سماجی انصاف کاخواب بھی ادھورا۔۔ابھے کمار

دنیا بھر میں ہر سال ۲۰ فروری کے روز عالمی یوم ِسماجی انصاف کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس سال بھی اقوام ِمتحدہ سے لے کر مختلف تنظیموں نے ایک بہتر اور مساوی معاشرہ   تشکیل دینے کے  عہد کودہرایا ہے۔اس موقع پر سوشل میڈیا پر بہت ساری ایسی پوسٹیں نظر آئیں، جن میں غربت، تعصب، غیر مساوی نظام، بے روزگاری اور انسانی حقوق کی پامالی پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ یہ بات بے حد افسوسناک  ہے کہ گزشتہ دو سو سالوں میں دنیا نے ترقی کے سارے سابقہ ریکارڈ کو توڑ دیا ہے، مگر اسی دنیا میں آج بھی کروڑوں لوگوں کو ہر روز خالی پیٹ سونا  پڑتا ہے۔ ترقی اس قدر دیکھنے کو ملی ہے کہ انسان چاند پر پہنچ چکا ہے اور برق رفتاری  سے دوڑنے والی بُلٹ ٹرین دنیا کے ایک حصہ کو دوسرے حصّے  سے جوڑ رہی ہے، وہیں انسان آج بھی صاف پانی پینے اور موزوں مکان میں رہنے کےلیے بھی جدو جہد کر رہا ہے۔ مشین کے حلقہ میں اتنی ترقی حاصل کرنے کے بعد بھی  انسان کے اوپر کام کا بوجھ گھٹنے کے بجائے  بڑھتا ہی جا رہا ہے۔جہاں سرمایہ دار وں کی آمدنی بڑھتی ہی جا رہی ہے، وہیں مزدور کی مزدوری گھٹ رہی ہے۔ اقتصادی ترقی اور جدید تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی غیر مساوی سماجی نظام تبدیل نہیں ہوا ہےاور بڑی تعداد میں لوگ آج بھی ذات برادری، دھرم، نسل، جنس کے امتیاز کا  شکار ہیں ۔ گاوٴں میں رہنے والوں کیا   کہیں، جو لوگ شہر میں رہتے ہیں اور تعلیم یافتہ بھی ہیں ، ان کی سوچ بھی زیادہ  نہیں بدل پائی ہے۔ آزادی کے ۷۰ سال گزر جانے کے بعد بھی   ہمارا سماج ذات برادری پر مبنی امتیاز کو پوری طرح سے ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ دھرم اور مذہب کے نام پر آج بھی سیاست کی جا رہی ہے۔ شاید مذہبی سیاست کم ہونے کے بجائے اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ جہاں ملک کے کمزور ترین طبقات کوفسادات میں   نشانہ بنایا جاتا ہے ، وہیں اکثریتی طبقہ کو اقلیتوں کا ڈر دکھا کر   ووٹ حاصل کیا جا رہا ہے ۔

تضاد دیکھیے کہ اپنی کارکردگی سے ہندوستانیوں نے آئی ٹی سیکٹر میں دھوم مچا دی  ہے، مگر اسی شعبہ سے بھاجپا کوایک بڑی حمایت بھی ملتی ہے۔ جہاں دنیا دوسرے سیارے  پر بسنے کی بات سوچ رہی ہے، وہیں بھارت میں بڑی تعداد میں آج بھی لوگ چھوت چھات کے شکار ہیں اور اچھا کپڑا پہنے اور گھوڑے  پر سواری کرکے  شادی کرنے پر عالیٰ ذات کے لوگ دلت سماج کے لوگوں پر حملہ کرتے ہیں۔ بھارت میں جمہوریت کی اقامت کو  ۷۰ سال سے بھی زیادہ وقت گزر گیا ہے ، مگر آج بھی سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں مٹھی بھر اعلیٰ  ذات کے لوگوں کا ہی قبضہ ہے، وہیں مزدور، کسان، دلت، آدی واسی، پسماندہ، خواتین ، مذہبی اقلیت اور دیگر محکوم طبقات کو ان کی واجب حصہ داری سے محروم رکھا گیا ہے۔حقوق کو غصب کرنے کے لیے ارباب اقتدار ہر روز ایک نئی چال چلتا ہے تاکہ ان کا یہ غیر مساوی نظام بدستور بنا رہے۔ ارباب اقتدار نہیں چاہتے ہیں   کہ نیچے سے لوگ  اُٹھ  کر اوپر آئیں اور پالیسی سازی میں ان کے سامنے بیٹھیں۔

بھارت کی اقتصادی پالیسی ہمیشہ سے ہی امیرلوگوں کے مفاد کو پورا کرتی رہی ہے، مگر گزشتہ سات سالوں میں بر سر اقتدار بھاجپا نے سرمایہ داروں کو اس طرح فائدہ پہنچایا ہے کہ ملک کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ ایسے عناصر کی سوچ ہمیشہ سے غیر مساوی رہی ہے اور انہیں ایسا لگتا ہے کہ مالدار لوگ جتنے بھی مالدار ہوں گے ملک اتنی  ہی ترقی کرےگا۔ تبھی تو موجودہ حکومت نے جو بھی بچے ہوئے مزدوروں کے حقوق تھے ، ان میں سے بہت سارے تحفظات کو ختم کر دیا ہے اور تاجر اور سرمایہ داروں کوکھلی چھوٹ دے دی ہے کہ وہ جو چاہے کریں۔ مگر سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ان سب باتوں پر عدالت بھی مزدورں کی بات سننے کے بجائے سرمایہ داروں کے نقطہ نظر سے فیصلہ سناتی ہے۔ آج حالات اس قدر خراب ہو گئے ہیں کہ زیادہ تر لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے دن رات جدو جہد کر رہے ہیں، وہیں کورونا وبا کے دور میں بھارت کے سرمایہ داروں کی آمدنی کئی مرتبہ بڑھ گئی ہے۔

بہت سارے لوگوں کو ایسا لگتا ہےکہ سماجی انصاف کے لیے کام کرنا یا پھر لوگوں کےفلاح اور بہبود کے لیے پالیسیز  بنانا وقت اور سرکاری پیسے  کی بربادی ہے۔ مگر یہ بات پوری طرح سے غلط ہے۔ سماج کے اندر     ناہمواری  پائی جاتی ہے۔ یہ غیر برابری کا نظام آسمان سے نہیں ٹپکا ہے، بلکہ کچھ مٹھی بھر لوگوں نے اپنے ذاتی فائدہ کے لیے اسے بنایا ہے اور وہ اسے بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ سماج میں کوئی امیر گھر میں پیدا ہوتا ہے تو کوئی کھلے آسمان تلے  جنم لیتا ہے۔ کسی کو بچپن کے دنوں سے ہی اچھی خوراک اور بہترین تعلیم دی جاتی ہے، وہیں دوسری طرف دیگر ایسے بھی بچے ہیں، جن کے ماں باپ ان کو   پیٹ بھر  کھانا بھی نہیں دے پاتے ہیں۔ بہت سارے لوگ تو اپنے بچوں کو اسکول تک نہیں بھیج پاتے ہیں۔ اگر کچھ نے کوشش بھی کی تو ان کے بچوں کو سرکاری اسکول میں جانا پڑتا ہے، جہاں معقول سہولیات  میسر نہیں آتیں ۔ اس طرح بچپن سے ہی دو سسٹم کام کرنے لگتے ہیں ۔ ایک کے لیے دنیا کی ساری سہولتیں ہیں اور دوسروں کے لیے تکلیفیں اور مشکلیں سامنے کھڑی ہیں۔ امیری غریبی کے علاوہ لوگوں کو ذات اور دھرم کے نام پر بھی امتیاز جھیلنا پڑتا ہے۔ اس بات کو ہمیں ہر وقت یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت میں ۷۰ فی صد کے قریب دلت کو زمین میسر نہیں  ہے ۔ زیادتر  دِلت کھیت میں کام کرنے والے مزدور ہیں یا پھر فیکٹری یا شہر میں کام کرنے والے ورکر۔ چھوت چھات بھلے   ہی قانون کی کتاب میں ایک جرم قرار دے دیا گیا ہو، مگر آج بھی بھارت سے یہ لعنت پوری طرح سے ختم نہیں ہو پائی ہے۔ آج بھی پڑھے لکھے لوگ   ذات اور دھرم کے تعصب سے اپنے آپ کو آزاد نہیں کر پائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل نیٹ ورک کی بنیاد پر لوگوں کو کامیابی اور ناکامی حاصل ہوتی ہے۔ سیاست سے لے کر کاروبار تک، میڈیا اور سینما سے لے کر یونیورسٹی اور عدالت تک آگے، اور وہی آگے بڑھتا ہے جس کی ذات برادری کے لوگ پہلے ہی آگے بڑھے ہوئے ہیں۔

اسی لیے ڈاکٹر بھیم راوٴ امبیڈکر نے صاف طور پر کہا کہ ہندو سماج کے اندر   جذبہ ء اخوت کا فقدان ہے، کیونکہ یہاں لوگ اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر نہیں سوچ پاتے ہیں۔ بھاجپا کے لوگ بھلے ہی دن رات قوم اور نیشن کی بات رٹتے رہتے ہیں اور قومیت کو سب سے اہم ترین نظریہ بنا کر پیش کرتے  ہیں  ۔مگر سچائی یہ ہے کہ بی جے پی میں بھی اعلیٰ  ذاتوں کی ہی بالادستی ہے اور و ہی سارے فیصلے لیتے ہیں۔بقول سوشلسٹ نظریہ ساز ڈاکٹر رام منوہر لویہا ، اگر آپ بھارت میں  اعلیٰ  ذات میں پیدا ہوئے ہیں اور آپ انگریزی بولتے ہیں اور آپ مالدار بھی ہیں تو سمجھ لیجیے کہ آپ ارباب اقتدار کے زمرہ میں آتے ہیں۔ ذات، ملکیت اور کلچر کی بنیاد پر بھارت میں کچھ مٹھی بھر لوگ سارے وسائل پر قبصہ جمائے ہوئے ہیں، جبکہ زیادہ تر لوگ آج بھی غربت اور غیر برابری کے شکار ہیں۔

آج بھارت میں آزادی کے ۷۰ سال سے بھی زیادہ گزر گئے  اور اب تو انگیریز بھی آس پاس نہیں ہیں کہ ان کو ساری دقتوں کے لیے ذمہ دار ٹھہرا دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں جو کچھ بھی بُرا ہو رہا ہے اس کے لیے سب سے زیادہ ذمہ دار خود بھارت کی  حکمراں جماعت ہے، جس نے اکثر اپنی اور اپنی ذات کے مفاد کو  ترجیح دی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں سب کچھ ہونے کے باوجود بھی ہم ترقی یافتہ ملک نہیں بن پائے  ہیں اور دنیا کی ایک بڑی غریب اور بیمار آبادی یہیں بستی ہے۔ ہم پریشان ہیں کیونکہ ہمارے لیڈروں کے دل میں کھوٹ ہے اور وہ انصاف کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ اگر بھارت کو ایک مضبوط جمہوریت اور مساوی سماج بنانا ہے تو ارباب اقتدار کو صرف امیروں کی جھولی بھرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ ترقی کے تار انصاف سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(مضمون نگار جے این یو سے تاریخ میں پی ایچ ڈی ہیں۔)

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply