درسی کُتب سے آگے کی سوچیے۔۔نذر حافی

ہم کسی بھی مسئلے پر اکٹھے نہیں ہوتے۔ اب سنگل نیشنل کریکولم کو ہی لے لیجئے۔ اس کی اہمیت کا سب کو اعتراف ہے، لیکن یہ اعتراف اپنے ہمراہ شدید اختلافات، اعتراضات اور تحفظات کو لئے ہوئے ہے۔ ویسے یہ ہمارے ہاں کا چلن بھی ہے کہ جب بھی آپ کوئی بڑا کام کرنے لگیں تو معترضین کی ایک فوج ظفر موج آکر سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف بڑے کام کی تعریف بھی ہم میں سے ہر ایک نے اپنے طور پر پہلے سے کر رکھی ہے۔ چنانچہ بڑے کام کے نام پر ہمارے ہاں بعض اوقات انتہائی چھوٹے اور نیچ کام کئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر جہاد کو ہی لے لیجئے۔ یقیناً جہاد مسلماتِ دین میں سے ہے، لیکن اتنے بڑے اور عظیم کام کو ہمارے صدر مملکت ضیاء الحق اور اُن کے ہمنواوں نے امریکی و سعودی مفادات کیلئے استعمال کیا۔ ہمارے بڑوں نے اپنی تجوریاں بھریں اور دینی مدارس جو کہ تعلیم و تربیت اور رفاہِ عامہ کے مراکز تھے، وہ دہشت گردوں کی نرسریوں میں تبدیل ہوگئے۔ اس کا نتیجہ داخلی انتشار، قتل و غارت، خون خرابے اور باہمی بغض و عناد کی صورت میں سامنے آیا۔

آج بظاہر ضیاء دور کی پیدا کردہ ان دراڑوں کو بھرنے کے لئے سنگل نیشنل کریکولم کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ اب سنگل نیشنل کریکولم کے حوالے سے آپ اقلیتوں کے اعتراضات سنئے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ ملک کی اکثریتی آبادی زبردستی اقلیتوں پر ٹھونس رہی ہے۔ اس کے بعد آپ اکثریتی آبادی کا تعین اگر مسلکی بنیادوں پر کریں تو پہلی مذہبی اکثریت اہلِ سنت ہیں، جنہیں بریلوی کہا جاتا ہے اور دوسری بڑی اکثریت شیعہ حضرات ہیں۔ توقعات کے برعکس وہ بھی اقلیتوں کی مانند اس نصابِ تعلیم سے سخت رنجیدہ ہیں۔ آپ دینی حلقوں کے اعتراضات سنئے تو لگتا ہے کہ سیکولر اور لبرل حضرات اس نصابِ تعلیم سے خوش ہونگے، لیکن سیکولر اور لبرل حضرات کی سنئے تو وہ اسے تعلیمی نصاب کے نام پر ڈھونگ سمجھتے ہیں۔ اچھا تو جب اتنی بڑی اکثریت یکساں طور پر اس نصابِ تعلیم سے راضی نہیں ہے تو پھر اس کا مقصد کیا ہے؟ مقصد بھی بنانے والوں نے بتا دیا ہے۔ اُن کے بقول اس نصاب کا مقصد قومی وحدت ہے۔

یہ کون سی اور کیسی وحدت ہے، اس پر الگ سے بات کریں گے، لیکن اس وقت آپ یہ ملاحظہ کریں کہ اکثریت میں لوگوں کو اس نصاب پر کیا اعتراضات ہیں۔؟ سب سے اہم اعتراض یہ سامنے آیا ہے کہ اسلامیات کی کتاب میں بدعات اور شدید مسلکی عناد کو داخل کر دیا گیا ہے۔ بطورِ نمونہ وہ کہتے ہیں کہ نیا درود شریف ایجاد کیا گیا ہے، جو کہ صریحاً بدعت ہے۔ یہ ایسی ایجاد ہے کہ جس کا سراغ کتاب و سنّت یا صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں میں نہیں پایا جاتا۔ کسی بھی صحابی، تابعی، تبع تابعین، سلف صالحین میں سے کبھی کسی نے یہ درود نہ پڑھا ہے اور نہ سُنا ہے اور نہ ہی دنیا کے کسی گوشے میں یہ درود مسلمانوں کا کوئی بھی مسلک یا فرقہ پڑھتا ہے۔ یہ صرف اور صرف بچوں کو منحرف کرنے اور اُن کے والدین کو زِچ کرنے کی ایک کوشش ہے۔

اس کے ساتھ ہی یہ اعتراض بھی ہے کہ اسلامیات میں باقی سب کچھ ہے، سوائے اہل بیتِ اطہار ؑکے ذکر کے۔ مثال کے طور پر معترضین کا کہنا ہے کہ
جماعت اول تا ہشتم کی کتابوں میں جتنی احادیث بھی بچوں کو حفظ کرانے کیلئے لکھی گئی ہیں، ان میں سے ایک حدیث بھی اہلِ بیتؑ سے مروی نہیں ہے۔ یعنی نہ ہی تو اہل بیتؑ کا ذکر بعنوانِ اہل بیتؑ ہے اور نہ ہی ان کی تعلیمات و سیرت بیان کی گئی ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں نصابی کتب لکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ہم نے تو صحابہ کرام، علمائے کرام، دانشمندوں، سلاطین و فاتحین، صوفیائے کرام و امہات المومنین نیز خلفائے راشدین کے ضمن میں گاہے بگاہے اہلِ بیت ؑ کا ذکر تو کر دیا ہے۔ اس جواب کے باوجود ناقدین کا نقد یہاں پر پھر بھی قائم ہے۔ ناقدین کے مطابق کتاب و سنّت میں اہلِ بیت رسولﷺ کا مقام و مرتبہ دیگر اُمّت خصوصاً صحابہ کرام ؓسے جداگانہ طور پر ممتاز اور مشخص ہے۔

کتاب و سنّت کی تعلیمات اور صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں کی روشنی میں اہل بیت ؑ کا مقام اتنا بلند ہے کہ کبھی بھی کسی صحابیؓ نے اہل بیتؑ سے بلند ہونا تو دور کی بات، ان کی برابری کا دعویٰ بھی نہیں کیا۔ اسی طرح کبھی کسی صحابیؓ نے اپنے آپ کو درود شریف میں شامل نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ چودہ سو سالوں سے آج تک مسلمان اپنی پنجگانہ نمازوں میں جو درودِ ابراہیمی ؑ پڑھتے ہیں، اُس میں بھی صحابہ کرام کا ذکر نہیں ہے۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ اب پاکستان گورنمنٹ یا پارلیمنٹ اس درودِ ابراہیمی کو بھی تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لے۔ بہرحال ابھی تک پاکستانی پارلیمنٹ یا حکومت نے یہ فیصلہ نہیں کیا، لہذا فی الحال درودِ ابراہیمی اپنی اصلی حالت میں دستیاب ہے۔ یاد رہے کہ دینِ اسلام کے نام پر لوگوں کے نجی عقائد میں اس قدر مداخلت صرف پاکستان کے اندر ہی دیکھنے میں آتی ہے۔

یہ امر انتہائی اہم ہے کہ معترضین کا اعتراض صرف اہلِ بیت ؑ کے ذکر کے حذف ہونے تک محدود نہیں ہے، بلکہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اہلِ بیت کا ذکر حذف کرنے کے ساتھ ساتھ اہلِ بیت کے دشمنوں اور انتہائی متنازعہ لوگوں اور اہلِ بیت ؑ کو اذیّتیں دینے والوں کو ہیرو بنا کر نصاب میں شامل کیا گیا ہے، جیسے ابو موسیٰ اشعری اور عمرو ابن العاص وغیرہ وغیرہ۔ معترضین کے اعتراضات کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ اُن کے مطابق اہلِ بیت ؑ سے مروی متفقہ، مصدقہ اور مسلمہ سیرت النبیﷺ کو نظر انداز کرکے ورقہ بن نوفل کی داستان اور معراج النبیﷺ کے ضمن میں قطعیاتِ اسلام کے خلاف اور خلافِ عقل، نیز حدیث کے معیار کے مطابق ضعیف اور اسرائیلیات پر مبنی قصّے کہانیوں سے اسلامیات کو بھر دیا گیا ہے۔

اُن کا دعویٰ ہے کہ خلافتِ راشدہ کے مدّمقابل حضرت سعد بن عبادہ ؓ جیسے صحابہ کرام ؓ کا بیعت سے انکار اور موقف، اہلِ بیت ِرسولﷺ کا بیعت سے انکار اور اختلاف، مسلمانوں کے دوسرے بڑے فرقے یعنی اہلِ تشیع کا نکتہ نظر سرے سے بیان ہی نہیں کیا گیا۔ بغیر کسی لگی لپٹی کے اسلامیات کے مضمون سے نہ صرف یہ کہ اہلِ بیت کو نکال دیا گیا ہے بلکہ حضرت سعد بن عبادہ ؓ، حضرت عمار یاسرؓ، حضرت اویس قرنیؓ، حضرت ابوذر غفاریؓ جیسے جیّد صحابہ کرام کی شہادت و مجاہدت، نظریات و افکار اور ان کے راستے و سیرت و حق گوئی و بے باکی کو سرے سے حذف کر دیا گیا ہے۔

اس اعتراض کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ضیاء الحق کے پروردہ جہادی و سرکاری ادارے گولی سے اہلِ بیت ؑکے محبّین، ان کی تعلیمات اور سیرت کو معاشرے سے حذف نہیں کرسکے تو اب وہ قلم اور نصابِ تعلیم کے ذریعے یہی کام کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں پر راقم الحروف کی طرف سے یہ بتانا ضروری ہے کہ اہلِ بیتؑ کے خصوصی مقام و مرتبے کے صرف شیعہ ہی قائل نہیں ہیں بلکہ سوائے نواصب و خوارج کے سارے اہلِ سُنّت، اہلِ بیت ؑ کے لئے ایک ایسے خاص مقام و مرتبے کے قائل ہیں کہ جو کسی بھی دوسرے شخص کو حاصل نہیں۔ اس بناء پر پاکستان میں محبّان اہلِ بیتؑ کی تعداد دوسرے ہر فرقے سے زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ اہلِ سنّت کا اہلِ تشیع سے تو اختلاف ہے، لیکن اہلِ بیت ؑ سے اختلاف نہیں ہے۔ سخت ترین اور کٹر اہلِ سُنت فرقے بھی ردِّ روافض کے قائل ہیں، نہ کہ ردِّ اہلِ بیت کے۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نصابی تعلیم کے پیچھے اہلِ سُنّت کے بجائے کوئی اور ہاتھ سرگرم ہے۔

ان اعترضات کو فی الحال یہیں پر چھوڑ دیجئے اور اب کچھ ہمارے اعتراضات بھی ملاحظہ کیجئے۔ ہمارا پہلا اعتراض اس نصاب کے بیان کردہ ہدف پر ہے۔ ہمارے نزدیک قومی وحدت ضروری ہے، لیکن لوگوں کے عقائد و نظریات کو مسخ کرنے، حذف کرنے اور کچلنے کا نتیجہ قومی وحدت کی صورت میں نہیں نکل سکتا۔ اس سے بڑھ کر ہمارا اعتراض یہ ہے کہ نصابِ تعلیم کا اصلی ہدف سائنس، ٹیکنالوجی، تہذیب و ثقافت، تمدّن، انسانی اقدار، قطعیاتِ تاریخ اور ایمان و عقیدے کو اگلی نسلوں میں منتقل کرنا ہوتا ہے۔ یہاں پر سب سے اہم نزاکت یہ ہے کہ ایمان و عقیدے کا تعلق صرف ایک مضمون یعنی اسلامیات سے نہیں ہے۔ ایمان اور عقیدے کو سارے مضامین کے ہمراہ منتقل ہونا ہوتا ہے۔ یعنی سکول میں بچہ سائنس و ٹیکنالوجی یا علومِ انسانی و سوشل سائنسز کو اس طرح سے پڑھے کہ اس کے ایمان اور عقیدے میں اضافہ ہوتا چلا جائے۔

گویا وہ علوم کے ذریعے کائنات میں اپنے پروردگار کی نشانیوں کو کشف کرے اور علوم اُسے ایک مردِ مومن بنانے میں مددگار ثابت ہوں، لیکن اس وقت ہمارے ہاں صاحبانِ ایمان کا سارا تمرکز صرف اور صرف اسلامیات کی کتاب پر ہے۔ اس وقت ہماری توجہ اس پر ہے ہی نہیں کہ تعلیمی درسگاہوں میں جاری الحاد کی یلغار کو صرف اسلامیات کی کتاب سے نہیں روکا جا سکتا۔ ہمارا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اسلامیات میں بچوں کو سمجھانے، مکالمے اور سوال اٹھانے کے بجائے ایک خاص منہج پر برین واشنگ کرنے، رٹانے اور پڑھانے کیلئے محتویٰ شامل کیا گیا ہے۔ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے، چونکہ اگر اس نصاب کے ساتھ ہمارا دعویٰ قومی وحدت کا ہے تو پھر ہمیں رٹانے کے بجائے بچوں کو عملی طور پر مسلمان بنانے کیلئے انہیں عملاً فراخدلی کا مظاہرہ کرنا سکھانا ہوگا، انہیں سوالات اٹھانے اور تحمل سے سوالات سننے اور جواب دینے کا تجربہ کرانا ہوگا۔

خاص ایّام میں انہیں ایک دوسرے کی مجالس و محافل، عبادت گاہوں اور مقدس مقامات میں لے جا کر وہاں بیٹھنے، بات کرنے اور اظہارِ یکجہتی کرنا عملاً سکھانا ہوگا، انہیں دوسروں کی اہم مناسبتوں، عیدوں اور غم کے ایّام میں شریک ہونے، مبارکباد دینے اور تعزیّت کرنے کی عملی ترغیب دینی ہوگی۔ اگر عملی طور پر یہ سب نہیں ہے تو پھر صرف رٹے لگانے سے قومی وحدت کے بجائے، اگلے چند سالوں میں لکیر کے فقیر جوانوں کا ایک بند دماغ لشکر تیار ہو جائے گا۔ ہمارا تیسرا اعتراض یہ ہے کہ پاکستان میں اصل مسئلہ نصابی کُتب کا نہیں ہے۔ نظامِ تعلیم اور سارے کے سارے نصابِ تعلیم کا ہے۔ اگر ہم نصابی کتب کے ذریعے قومی وحدت چاہتے ہیں تو نظامِ تعلیم کے سارے شعبوں میں سب ادیان نیز مسالک و مذاہب کو اُن کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی دینے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح نصابِ تعلیم میں سکولوں کی تعداد، استادوں کی بھرتیوں، استادوں اور طالب علموں کی وضع قطع اور یونیفارم، پیشہ وارانہ تربیت اور سکولوں میں اساتذہ کی تعیناتی کے وقت بھی سب ادیان و مذاہب کو زمینی حقائق کے مطابق ایجوکیشنل سسٹم میں قبول کیا جائے۔

مثال کے طور پر کتاب تو بہت اچھی لکھی ہوئی ہے، لیکن پڑھانے والا ایسے مدرسے کا فارغ التصیل ہے، جو طالبان، القاعدہ اور داعش کی نرسری ہے۔ اب ایسے استاد کی موجودگی میں قومی وحدت کا خواب کیونکر پورا ہوسکتا ہے!؟ اسی طرح کتاب میں تو اصلاح کر دی گئی ہے، لیکن اُستاد کے حُلیے، لباس اور ظاہری قیافے سے کسی داعشی و طالبانی مُلّاں جیسی وحشت ٹپک رہی ہے تو پھر اُس استاد کی کلاس میں دیگر مذاہب و مسالک کے بچے خوفزدہ رہیں گے یا قومی وحدت سیکھیں گے!؟ آپ نے ہمارے تین اعتراضات پڑھ لئے۔ اس کے ساتھ ہی ہم اپنی چار تجاویز بھی بیان کرکے بات کو ختم کرنے جا رہے ہیں۔ ہماری پہلی تجویز یہ ہے کہ نصابی کتب میں قومی یکجہتی اور مذہبی بھائی چارے کی خاطر ردِّ روافض اور ردِّ اہلِ بیت میں فرق کیا جائے۔ نصابی کتب میں اہلِ بیت ؑ کا ذکر اُسی طرح خاص اور منفرد انداز میں کیا جائے، جیسے کہ کتاب و سنّت اور صحابہ کرام ؓ سے ثابت ہے۔ نیز درود شریف کی مانند نئی ایجاد کردہ بدعات، دشمنانِ اہلِ بیتؑ کا ذکر، خلافِ عقل اور اسرائیلیات پر مبنی واقعات کو حذف کیا جائے۔

ہماری دوسری تجویز یہ ہے کہ ملی اتحاد کیلئے اسلامیات کا نصاب آیات و روایات اور سیرت کے واقعات کو رٹنے و پڑھنے تک محدود ہونے کے بجائے عملی وحدت کے طریقہ کار پر مبنی ہونا چاہیئے۔ ہماری تیسری تجویز یہ ہے کہ ہماری توجہ اسلامیات کی کتاب کے علاوہ دیگر مضامین پر بھی ہونی چاہیئے۔ ہمیں ماہرینِ تعلیم کی مدد سے تعلیم و تربیت کا ایسا انتظام کرنا چاہیئے کہ بچہ سکول میں جو بھی مضمون پڑھے، اُس سے اس کے ایمان میں اضافہ ہو۔ ایمان کا مسئلہ کسی ایک فرقے یا مسلک کا نہیں ہے۔ لہذا نصابی کتب کو فرقہ وارانہ جنگ کیلئے استعمال کرنے کے بجائے توحید، نبوت اور معاد جیسے عقائد و ایمان کے منتقل کرنے کی خاطر استعمال کیا جانا چاہیئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہماری چوتھی اور آخری تجویز یہ ہے کہ نصابی کتب سے یہ معاملہ حل ہونا والا نہیں۔ بغیر کسی تعصّب کے سارے مسالک و مذاہب کو اُن کی آبادی کے تناسب سے نظامِ تعلیم میں جگہ دینے کی ضرورت ہے۔ جب نظامِ تعلیم میں میرٹ اور آبادی کے تناسب کی پابندی کی جائے گی اور سب مسالک کو اُن کا حقیقی حق دیا جائے گا تو نصابِ تعلیم میں بھی مسلکی ہم آہنگی جنم لے گی۔ لہذا نصابِ تعلیم میں مسلکی ہم آہنگی ہوگی تو تب جا کر قومی وحدت کا مسئلہ حقیقی معنوں میں حل ہوگا۔ جب نصابِ تعلیم کے تھنک ٹینکس میں بیٹھے ہوئے پالیسی میکرز یہ طے کریں گے کہ ہم نے قومی وحدت کی خاطر اپنے ملک کی کسی اقلیت یا فرقے کو حذف نہیں کرنا بلکہ طالبان، القاعدہ اور داعش کے طرزِ تفکر کو حذف کرنا ہے تو تب جا کر ایک قوم اور ایک نصاب کا خواب پورا ہوگا۔ ہم ایک پاکستانی ہونے کے ناتے یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ہمیں حقیقی معنوں میں قومی وحدت درکار ہے اور اگر اس ملک کی درسگاہوں میں ہم شہرون مسیح اور مشال خان جیسے بچوں کو بچانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں صرف درسی کتابوں کو ہی نہیں بلکہ اس نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم کو تبدیل کرنا ہوگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply