• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بھارتی سفارت کاری کا راز دار چلا گیا (2,آخری حصّہ)۔۔افتخار گیلانی

بھارتی سفارت کاری کا راز دار چلا گیا (2,آخری حصّہ)۔۔افتخار گیلانی

قازقستان میں بھیڑ کی آنکھ یعنی آئی بال ضیافت کا ایک اہم جز ہوتی ہے۔ نذر بائیوف نے اپنے ہاتھوں سے آئی بال لیکر ان کی  پلیٹ پر ڈالی ۔ بقول لامبا صاحب بڑی مشکل سے اسکو گلے سے اتار کر اب سانس درست کر ہی رہے تھے کہ صدر نے پوچھا کہ انکو یہ ضیافت کیسی لگی؟ سفارتی آداب کے مطابق انہوں نے اس آئی بال کی شان میں کچھ زیادہ ہی قصیدہ پڑھا، کہ صدر نے ایک اور آئی بال منگوا کر ان کی  پلیٹ میں ڈال دی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھیڑ کی پوری آنکھ گلے سے اتارتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو روا ں ہوگئے تھے۔

کشمیر کے حوالے سے بھارت اور پاکستان کے درمیان مفاہمت کی گنجائش ڈھونڈنے کا کام 1999میں شروع ہو گیا تھا۔ نواز شریف نے نیاز احمد نائیک اور واجپائی نے اپنے معتمد خاص آر کے مشرا کو اس پر مامور کردیا تھا۔ دونوں افراد نے اپریل 1999کو چار دن تک دہلی کے امپیریل ہوٹل میں اس ایشو کے خدوخال کا جائزہ لیکر اس پر خاصا کام کیا تھا۔ اس ملاقات میں طے ہوا تھا کہ بھارت کشمیر کے اٹوٹ انگ کا راگ چھوڑ دے گا اورپاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کی ضد سے کنارہ کشی کریگا۔ اور کوئی بھی حل دونوں ممالک کی اسٹریٹجک ضروریات اور کشمیری عوام کی خواہشات میں توازن رکھے گا۔ اس سے ایک ماہ قبل سری لنکا کے صحت افزا مقام نوارا علیا میں بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ اور انکے پاکستانی ہم منصب سرتاج عزیز کے درمیان جھیل کے کنارے ایک بنچ پر اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو ہوگئی تھی۔

ذرائع کے مطابق جسونت سنگھ کشمیر کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کے مخالف تھے، مگر جغرافیائی بنیادوں پر تقسیم پر انکو کوئی اعتراض نہیں تھا۔چونکہ ان ہی دنوں فرانس اور جرمنی کے درمیان سار تنازعہ، سویڈن اور فن لینڈ کے درمیان آلینڈ قضیہ، آسٹریا اور اٹلی کے درمیان ساوتھ ٹیرول اور آئیرلینڈ اور برطانیہ کے درمیان شمالی آئیرلینڈ کے تنازعہ سلجھ رہے تھے ، اسلئے امید تھی کہ بھارت اور پاکستان بھی شاید اسی راہ پر کشمیر کا تنازعہ کو حل کروائیں گے۔ دراصل 1998میں جوہری دھماکوں کے بعد واجپائی کے مشیر برجیش مشرا نے دنیا میں بھارت کو ایک مقام دلوانے کیلئے مخصوص اہداف مقرر کئے تھے، جس میں اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت لینا، نیوکلیر کلب کا ممبر بننا او ر2025تک بھارت کو چین کی طرز پر ایک عالمی اقتصادی طاقت بنانا شامل تھا ۔

ان کے مطابق ان حصولیابیوں کا راستہ کشمیر اور پاکستان سے ہوکر گزرتا ہے۔ اسلئے وہ کچھ لو یا دو کو لیکر کشمیر کے کسی حل کے متلاشی تھے۔ جب من موہن سنگھ نے 004 2میں لامبا کو صدر مشرف کے معتمد طارق عزیز کے ساتھ بیک ڈور سفارت کاری کیلئے مقرر کیا، تو ان کے پاس ایک خاکہ پہلے ہی موجود تھا۔ لامبا نے 2004سے 2006تک پاکستانی مذاکرات کاروں کے ساتھ 30دور کی بات چیت کے بعد جس حل کا خاکہ تیار کیا تھا، اس کو پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے نو نکات میں اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔ اس کے مطابق :

۱۔ کشمیر کے لائن آف کنٹرول کے آر پار دونوں خطوں میں تشدد کی روک تھام کو یقینی بنانا اور عسکریت پر قد غن لگانا ۔

۲۔ دونوں اطراف فوجوں کے جماؤ  میں کمی کرنا اور سویلین علاقوں سے فوجوں اور مسلح دستوں کا انخلاء ۔

۳۔ سیلف رول یا حق خود اختیاری۔

۴۔ صاف و شفاف انتخابات۔

۵۔ پاکستان کا گلگت۔ بلتستان اور بھارت کا لداخ پر کنٹرول۔

۶۔ مشترکہ میکانزم کے تحت ایک باڈی کا قیام، جو لائن آف کنٹرول کے آر پار ٹریڈ، سیاحت وغیرہ کا انتظام و دیکھ بھال کرے۔

۷۔ پانی اور دیگر وسائل پر مشترکہ پالیسی اور انکو استعمال کرنے کا مشترکہ میکانزم۔

۸۔ فارن منسٹری سطح پر ایک مانیٹرینگ میکانزم کا قیام اور 15سال بعد اس انتظام کا جائزہ ۔

۹۔ امن ، سلامتی ، استحکام اور دوستی ٹریٹی پر دستخط، جس سے دونوں ممالک ایک دوسرے کی اقتصادی ترقی میں حصہ دار بنیں۔

جس طرح واجپائی نے من موہن سنگھ کو امن مساعی کو آگے بڑھانے کی درخواست کی تھی، اسی طرح من موہن سنگھ نے بھی اپنے جانشین نریندر مودی کو لامبا کے ملاقاتوں کی تفصیلات سے آگاہ کرکے اسکو منطقی انجام تک پہنچانے کی درخواست کی تھی۔ سنگھ کو یقین تھا کہ مودی ایک بھاری منڈیٹ کے ساتھ پاور میں آیا ہے، اس لئے وہ اپنی پارٹی کو پاکستان کے ساتھ امن مساعی پر راضی کرواسکیں گے، جو من موہن سنگھ کیلئے مشکل امر تھا۔ پاکستان اور بھارت میں اکثر تجزیہ کار 2008 میں ہوئے ممبئی حملوں اور پاکستان میں وکلا کی ایجیٹیشن کو امن مساعی کے پٹری سے اترنے کے ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ مگر ان کو شاید یہ علم نہیں ہے کہ 2007 میں کانگریس پارٹی نے ہی اس میں ٹانگ اڑائی تھی۔ امن مساعی کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے 2007میں طے ہوگیا تھا کہ چونکہ سائچن گلیشیر اور سرکریک کے معاملے پر خاصی پیش رفت ہو چکی ہے اس لئے ان پر ایگرمنٹ کرکے باقی مسائل کو حل کروانے کیلئے عوامی سطح پر ماحول تیار کیا جائے۔

فروری 2007کو پاکستان کے سیکرٹری دفاع طارق وسیم غازی جب معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے دہلی وارد ہوئے اس سے چند روز قبل الیکشن کمیشن نے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کی صوبائی اسمبلی کے انتخابا ت کا اعلان کردیا تھا۔ مذاکرات سے ایک روز قبل سونیا گاندھی کی رہائش گاہ پر کانگریس کی اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس اتر پردیش میں امیدوار طے کرنے کیلئے بلایا گیا تھا۔ مگر اس میں سونیا گاندھی کی موجودگی میں ان کے مشیر مرحوم احمد پٹیل نے من موہن سنگھ کو سائچن پر مذاکرات اور وہاں سے فوجوں کے انخلاء کے سوال پر خوب آڑے ہاتھوںلیا۔ میٹنگ میں موجود افراد کا کہنا ہے کہ اسطرح کی صورت حال میں سونیا گاندھی اکثر من موہن سنگھ کی حمایت میں کھڑی ہوجاتی تھی، مگر اس وقت و ہ خاموش رہی۔ احمد بھائی نے من موہن سنگھ کو بتایا کہ پاکستان کیساتھ کسی ایگرمینٹ کرنے سے اتر پردیش میں پارٹی کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہ اجلاس جاری تھا کہ معلوم ہوا کہ شمال مشرقی ریاستوں کا دورہ کرتے ہوئے فوج کے سربراہ جنرل جے جے سنگھ نے سائچن سے فوجوں کے انخلاء کی مخالفت کی ہے۔ جبکہ چند روز قبل کابینہ کی سلامتی سے امور کمیٹی کے اجلاس میں انہوں نے اس معاہدے کو منظوری دی تھی۔ احمد پٹیل کی یہ مخالفت پاکستان کے ساتھ امن مساعی کے تابوت میں ایک کیل ثابت ہوئی۔ اسکے فوراً بعد پاکستان میں وکلا ء کی ایجی ٹیشن نے مشرف کو داخلی طور پر الجھائے رکھا۔ کانگریس کے اندرون ذرائع کا بھی کہنا ہے کہ پارٹی نے من موہن سنگھ کو چوائس دی تھی، کہ پاکستان کے ساتھ امن مساعی یا امریکی کے ساتھ نیوکلیر ڈیل میں کسی ایک ایشو پر ہی وہ عوامی سطح پر رائے عامہ بنائے گی۔ اور وزیر اعظم نے نیوکلیر ڈیل کو ہی ترجیح دی ۔خیر بھارت اور پاکستان کے درمیان اگر کبھی بھی مستقبل میں امن و امان کی صورت حال بن جاتی ہے اور دونوں ممالک اپنے تنازعات پر امن طور پر سلجھانے پر تیار ہو جاتے ہیں اس کا کریڈٹ لازماً ستی لامبا کو ہی جائیگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایس کے لامبا بھارتی سفارت کاری کے رازوں کے امین تھے ۔ ان کے سینہ میں بے پناہ راز دفن تھے، جن کی وہ بخوبی حفاظت کرتے تھے۔ وہ ایک بہت ہی اچھے میزبان تھے، مگر ان سے خبر کی امید رکھنا عبث تھا۔ لامبا صاحب کیلئے بہترین خراج عقیدت یہی ہے کہ مزید ہزاروںبے گناہ و معصوم افراد کو موت کی بھیٹ چڑھانے کے بجائے دونوں ممالک دیرنہ تنازعات کو عوامی خواہشات کے مطابق حل کرنے کئے عمل کو شروع کرکے اسکو منطقی انجام تک پہنچادیں۔ طاقت کے نشہ میں سرشار موجودہ حکمرانوں کو جلد یا بدیر یہ نقطہ سمجھنا پڑے گا اور ستیندر لامبا پشاوری کے نقش قدم پر چل کر اس خطے کو عدم استحکام سے نجات دلوانی پڑے گی۔بشکریہ 92 نیوز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply