یونیورسٹی کی کینٹین میں اکثر اُن کی بحث ہوتی۔
وہ ہمیشہ نوک جھونک کرتا اور وہ مسکرا دیتی۔
آج پھر وہ وہ شرارت کے موڈ میں تھا۔
کیا یار ! یہ تم لڑکیاں بھی نا، عجیب وضع کا لباس پہنتی ہو۔
اوپر سے بالوں میں ، جوتوں پر، چہرے پر ہاتھوں پر جہاں دیکھو یہ شوخ و بھڑکیلے رنگ ہی رنگ۔
ہمارا مردوں کا لباس دیکھو، سنجیدہ رنگ، سلجھا ہوا انداز اور باوقار سادگی۔
جی جی بالکل ،وہ دھیرے سے مسکرائی، کیونکہ تم نے ہمیں دکھانا ہوتا ہے ، باوقار اور سادہ۔
اور ہم تمھاری مرضی کا پہنتے ہیں، اوچھا اور بھڑکیلا۔۔
ارے باپ رے میرا ہسٹری کا پیڑید تھا۔
وہ ماتھے پر ہتھیلی مارتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں