اٹلی ہے دیکھنے کی چیز(قسط7)۔۔سلمیٰ اعوان

بریرہ آرٹ گیلری،وایا دانتے کی سیر اورمرینو سے ملنا

o بریرہ آرٹ گیلری دراصل نشاۃ ثانیہ دور کے کاموں سے سجی ہوئی ہے۔
o پبلیشنگ ہاؤس میں کام کرتی مورینوکا کہناتھا کہ ٹائٹل بنانے کے لئے اُسے پوری کتاب کو پڑھنا پڑھتا ہے۔ روح کو سمجھے بغیر وہ کبھی ٹائٹل نہیں بناتی۔
o نشاۃ ثانیہ کی تحریکوں نے اٹلی میں جنم لیا، پورے یورپ کو متاثر کیا اور پھر اپنی ہی سر زمین پر ختم ہوگئیں۔

اب روم جانا ہے۔بکنگ کروانی ہے۔چلو کل یہ کام ہوگا اور وایا دانتے کا سیر سپاٹا بھی ہوجائے گا۔
یہ اللہ بھی کیسا مسبب الاسباب ہے کہ اگر کشٹ میں ڈالا تو ساتھ اقبال کو فری کردیا۔ ناشتہ بس سادہ سا۔ ایک کپ چائے اور ساتھ میں شہد لگا بند یا پیس۔
اب دھیرے دھیرے سیڑھیاں اُترو۔بلڈنگ کا مرکزی دروازہ اگر بند ہے تو مختلف بٹن دبا کر اُسے کھولو۔بیرونی دروازے کو بھی اب کھولنا سیکھ گئی ہوں۔ٹھک ٹھک بٹن دبتے ہیں۔ایسے لمحوں میں مجھے کھل جا سم سم یاد آتا ہے۔مزہ آتا ہے یہ سب کام کرنے میں۔سڑک پر آکر بس ایک آدھ منٹ میں ہی اقبال اپنے سکوٹراور میرے پرس کے ساتھ آجاتا ہے۔ہیلمٹ پہنتی ہوں۔دونوں ٹانگیں کشادہ کرکے سکوٹر پر بیٹھتی ہوں۔گھوں گھوں کرتا سکوٹر اڑنے لگتا ہے۔
“یااللہ خیر” زیر لب پڑھتی ہوں۔اسٹیشن کی کافی بار کی ایک سمت پارکنگ ایریا ہے۔جب آئی تھی تب تو یہاں گاڑیوں کا ایک اژدہام ہوتا تھا۔واپسی پر کافی بارکے سامنے بیٹھ کرمنہ اُٹھائے، خاموش گھروں کو،ہوا کو درختوں سے اٹھکھیلیاں کرتے اور کہیں اکادُکّا لوگوں کو آتے جاتے دیکھنا اور چائے کا کپ پینا بہت دلچسپ اور پر لُطف شغل لگتا ہے۔اور میں یہ ضرور کرتی ہوں۔جب میرے اندر کے رانجھے کی تسلی ہوجاتی ہے تب اقبال کو فون ہوتاہے کہ وہ آکر مجھے لے جائے۔
ٹکٹ والامرحلہ میرے بھیجے میں نہیں گُھستا۔باقی مرحلے اب آسان ہوگئے ہیں۔سنٹرل اسٹیشن پر ہرگزخیریت والا معاملہ نہ تھا۔تاہم ہر بار ہی کچھ نئے منظروں کا آنکھوں میں گُھسنا بھی ضروری ہے۔ٹکٹ کیلئے بکنگ آفس کی کھوج تھی۔دیکھا تو خیر سے بڑی لمبی قطاریں اور بڑا جھمیلا سا نظرآیا تھا۔
زمین پر ہی چند عورتیں اور لڑکیاں بڑے موڈ میں پھسکڑے مارے بیٹھی تھیں۔میں بھی جاکر شامل ہوگئی کہ کیل کی طرح اکڑے کھڑے رہنے سے فائدہ۔Rick Steves کی اٹلی پر لکھی ہوئی کتاب ابھی کھولی ہی تھی اور مزے کی بات جو صفحہ سامنے آیا تھا وہ ٹھگوں اور لٹیروں بابت ہی تھا۔مزے کی تفصیلات تھیں۔ ابھی زیر لب مسکراتے ہوئے پڑھنے میں محو تھی کہ جب اُس نوجوان لڑکے نے میرے قریب اکڑوں بیٹھ کر پوچھا۔
”مجھے کیا ٹکٹ خریدنا ہے؟“
میٹھے سے لہجے میں یہ فقرہ رِک کی تحریر سے بڑا لگا کھاتا تھا۔مشتبہ نظریں تیر کی طرح اس کے اندر اُتارتے ہوئے بڑا نوکیلا سا جملہ خودبخود ہی زبان سے پھسل گیا تھا۔
”ان دائیں بائیں بیٹھی ڈھیر ساری عورتوں کو چھوڑ کر تم نے مجھے کیوں یہ پیشکش کی؟“
”یہ تو بڑی چنڈالیں اور ہوشیار عورتیں ہیں۔ان کو تو سارے سبق ازبر ہیں۔جو بندہ خود کاموں کا ماہر ہو اُسے کسی کی مدد لینے اور پیسہ کمیشن میں پھینکنے کی کیا ضرورت ہے؟“
بات بڑی پتے کی تھی۔ ٹھک سے دل کو لگی۔ لڑکے کی نظر کی گہرائی بھی داد طلب تھی۔ گھاٹ گھاٹ کے چہرے دیکھنے والے کیا قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔
”روم کا ٹکٹ لینا ہے۔چلو بتاؤ کمیشن کتنا ہوگا؟“
”جو دیں گی لے لوں گا۔“
”نہیں بھئی طے کرو۔“
تین یورو پرمعاملہ نپٹ گیااور میں اٹھ کر اس کے ساتھ ہولی۔
”سوچا بریرہ گیلری دیکھوں گی اور شام Vaya Dante میں گزاروں گی۔“
اب کیا بیٹھی بیٹھی اِن پٹٹرپٹٹر کرتی لڑکیوں کے چہروں کوہونقوں کی طرح دیکھتی رہتی۔کوئی کام کروں۔ کسی ہیلے لگوں۔
مشینوں کے سامنے کھڑے ہوکر میں نے خود مشین میں پچاس پچاس یورو کے دو نوٹ ڈالے۔جونہی ٹکٹ نکلا۔لڑکے سے لے کر اُسے قابو کیا۔دس کا نوٹ بھی ہوشیاری سے سمیٹا اور بقیہ ریزگاری اس کے حوالے کی۔ستاسی یورو کا ٹکٹ۔
بریرہ آرٹ گیلری نقشے پر نزدیک ضرور تھی مگر معلوم کرنے پر پتہ چلا تھا کہ اگر پیدل چلنے کی کوشش کی گئی تو بس پھر تم تو ہلنے جوگی نہیں رہو گی۔میٹرو اسٹیشن سے جاؤ۔مرتا کیا نہ کرتا۔چلو خیر ایک پیاری سی لڑکی کی منت کی۔اُس نے ٹکٹ تھمایا اور ساتھ پیسے بھی لوٹا دئیے۔
”ارے نہ نہ کرنے کے باوجود گاڑی میں چڑھانے بھی چل پڑی۔ریڈ لائن میٹرو جسمیں سوار کرتے ہوئے اُسنے اُنگلیوں سے تین کا اشارہ کیا تھایعنی تیسرے اسٹیشن پر اُتر جانا ہے۔
ایک خوبصورت کشادہ صحن کے گرد دو منزلہ خوبصورت محراب دار برآمدوں والی عمارت اٹلی کے ثقافتی ورثے کی امین یہ میلان کی بہترین آرٹ گیلری جسمیں تیرھویں صدی سے بیسویں صدی کا آرٹ محفوظ ہے۔تاہم یہ فلورنس اور روم کی آرٹ گیلریوں کے پلّے کی نہیں۔یہ پڑھا تھا رائے محفوظ رکھی ہے کہ روم کل جارہی ہوں اور فلورنس تین دن بعد کا پروگرام ہے۔اب مقابلہ تو تبھی ہوگا جب اُن دو شہروں کو بھی دیکھ لوں گی۔
نشاۃ ثانیہ دور کا یہ آرٹ 1809میں اکٹھا کیا گیا۔چودھویں سے بیسویں صدی کے تقریباً 500شاہکاروں سے اِسے سجایا گیا۔یہ عمارت پہلے مناسٹری تھی۔اسکا عظیم الشان صحن جسمیں پیڈسٹل پر کھڑا سیاہی مائل نپولین کا ننگا مجسمہ Antonio Canova کے ہاتھوں کا شاہکار آپ کی توجہ کھینچ لیتا ہے۔
نپولین بونا پارٹ بھی تاریخ کا کیا کردار تھا۔ بڑی پسندیدہ شخصیت ہے وہ میری۔ آندھی اور طوفان جیسی ساری خوبیاں اس میں جمع تھیں۔ 1796 میں یہاں بھی وہ اسی کرّوفر سے آیا اور سب کچھ تہس نہس کر دیا۔ سارے ہسپانوی اور آسٹرین ڈیوک ز کو باہر پھینکا۔ اٹلی کی ساری ادھر ادھر بکھری ریاستوں کو اکٹھا کیا اور بادشاہت کا تاج اپنے سر پر سجا لیا۔ چرچ والوں کو بھی نتھ ڈال دی کہ یہ کیا ساری اچھی اور بہترین زمینوں پر قابض ہوئے بیٹھے ہو۔ سرکار کی ملکیت ہیں ساری۔
اُنیس بیس سال کی حکمرانی کے بعد جہاں گیری کے جنون نے شکست تو دلائی مگر وہ جاتے جاتے اطالویوں پر ایک احسان بھی کرتا گیا۔ ایک عظیم احسان۔
انتونیو بھی کیا لازوال فنکار تھا۔میں بہت دیر اِسے دیکھتی رہی تھی۔دراصل وجہ اُس قربت کی بھی ہے جو مجھے انتونیو سے تھی کہ پیٹرز برگ کی نیو ہرمیٹیج کی راہداریوں میں اِس کے بنائے ہوئے کئی مجسمے ابھی تک میری یادداشتوں میں محفوظ تھے۔خاص طور پر یونانی دیوتا ایروز کی محبوبہ جو اپنے تتلی نما پروں کے ساتھ کیوپڈ پر جھکی ہوئی تھی۔
سیڑھیاں چڑھ کراوپر جانا ہے۔ٹکٹ بھی وہیں سے ملتا ہے۔بے حد و حساب کمرے شاہکاروں سے سجے ہیں۔میں نے آرام کرتے چند لوگوں سے جو مجھے انگریزی سمجھنے والے محسوس ہوئے ہیں۔پوچھا ہے کہ کیا خاص خاص چیزیں مجھے دیکھنا چاہییں؟جواب ملتا ہے۔
”ایک تو Crivelliکو ضرور دیکھئیے۔وہ گوتھک دور کی ساری تاریخ اور فلاسفی آرٹ کے ذریعے بیان کرتا ہے۔یوں بھی وہ ونچی کا ہم عصر ہے۔تقابلی جائزہ ہوجائے گا۔
میں دل میں ہنس پڑی۔
”لوبڑی عالم فاضل اس نے تقابلی جائزے لینے ہیں۔آرٹ کی روح ہی سمجھ جائے تو بڑی بات۔“
ایک اُدھیڑ عمر کی عورت جو مجھے دیکھ رہی تھی نے سکون سے کہا۔
”اگر آپ دیکھ سکتی ہیں تو آرام آرام سے کمرہ نمبر اکیس،چونتیس اور پینتیس میں ضرور جائیے۔“
دوسرے Raphael’s کا کام دیکھیں۔ Wedding of the MadonaاورPierodellaکے شاہکار بھی وہیں پاس ہی ہیں۔انہوں نے چند اور نام بھی بتائے رافیل Raphael’sکا کام دیکھنے کی بھی مجھے شدید خواہش تھی کہ روس کے سینٹ پیٹرز برگ کے ونٹر پیلس میں بھی میں نے اس آرٹسٹ کے شاہکار دیکھے تھے۔اس کا کام کئی لاجز میں جگمگاتا ابھی بھی میرے ذہن کے کسی گوشے میں ہے۔Wedding of the Madona کیا بات تھی۔رافیل اپنے آرٹ کی انتہاؤں پر تھا۔میں نے کمرہ نمبر چوبیس میں بہت وقت گزارا۔رافیل کے ساتھ پائیروڈیلا کا کام بھی دیکھا۔
وقت کا تو پتہ ہی نہیں چلا تھااور جب میں اس کے پرلُطف سے کافی بار میں چائے پیتی اور پیسٹری کھاتی تھی اور ساتھ ساتھ سوچے چلی جارہی تھی کہ ہم کتنے بدقسمت ہیں کہ ہمیں اپنے اثاثوں کو سنبھالنے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں۔اوّل تو اثاثے بھی اس حساب سے نہیں اور جو ہیں وہ بھی انتہا پسندی نے نشانوں پر رکھے ہوئے ہیں۔
اور جب باہر آئی تو اس وقت چار بج رہے تھے۔
”تو میں نے یہاں چارگھنٹے گزارے اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔“ خود سے کہا تھا۔
اب بیچ بیچ میں سے چھوٹے چھوٹے راستے تو کتنے تھے۔مگر وہی بات جوانی ہو تو بندہ میلوں چل لے۔آرٹ گیلری نے ہی تھکا دیا تھا۔بس میں نے سوچا کہ میں Via Danteجاتی ہوں۔وہاں جاکر بیٹھوں گی اور بس نظاروں کے مزے لُوٹ کر لوٹ آؤں گی۔
اوروہاں میری ملاقات مورینوسے ہوئی۔وہ سکوائر میں بینچ پر بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی۔میں نے لوگوں کے ہاتھوں میں کتاب بہت کم دیکھی تھی۔میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا وہ اطالوی ہے؟اثبات میں سر ہلا اور ساتھ ہی یہ بھی جانا کہ وہ میلان میں ایک پبلیشنگ ہاؤس میں کام کرتی ہے۔کتابوں کے ٹائیٹل ڈیزائن کرتی ہے۔
میں خوش ہوئی۔
”ارے واہ یہ تو بہت ہی اچھا ہوا۔ چلو کچھ اِس بارے میں پتہ چلے گا۔“
”ٹائیٹل بناتے ہوئے اس کے مدّنظر کیا چیزیں ہوتی ہیں؟“
سوال بھی فوراً ہی کردیا تھا۔
اس کا جواب میرے لئیے حیرت انگیز تھا کہ ایسا ممکن نہیں وہ کتاب پڑھے اور اسکی روح کو سمجھے بغیر کوئی ٹائیٹل بنا دے۔
اللہ ایک ہمارے پبلیشر ہیں کتاب چھاپ رہے ہیں اور جانتے ککھ نہیں۔جس کتاب کو چھاپ رہے ہیں اس کے بارے میں خود نہیں جانتے۔توبھلا ٹائیٹل پر کیا توجہ دیں گے؟مصنف اگر خود بڑا نکتہ چیں قسم کا ہے تو وہ ہر مرحلے پر اپنا خون جلاتا،اپنا پیسہ برباد کرتا محض اپنی تخلیق کو منظر عام آنے کی خواہش میں اس ستم کو مردانہ وار اپنے سینے پر سہتا ہے۔
کتاب جو وہ پڑھ رہی تھی۔اسکا نام IL Plasoتھا۔بہت سے لکھاریوں کی منتخب کہانیوں کا انتخابی مجموعہ تھا۔اس کا مطلب “بہت بڑا گھر” سے تھا۔
”آپ کے ہاں نیٹ اور موبائل نے کتاب کو کتنا متاثر کیا؟“
”فرق تو پڑا ہے مگر پڑھنے والوں نے کتابیں اب ڈاؤن لوڈ کرلی ہیں۔“
مورینو کمر عمری کے باوجود بڑی ذہین اور انٹیلیکچوئل Intellectual قسم کی لڑکی تھی۔ اُس نے مجھ سے میرے اُن چند دنوں کے تاثرات بارے پوچھا۔
”میں آرٹ اور فن کے بحربیکراں میں جو غوطے کھاتی اور اپھری ہوئی پھرتی تھی۔ اُن کیفیات کو گوش گزار کر دیا۔“
ہنسی اور جب بولی تو لہجے میں کہیں علم ودانش کے دریا بہتے تھے۔اٹلی نے تعمیری سٹائل کو بہت عروج دیا۔ بلاشبہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ نشاۃ ثانیہ کی تحریکیں جو لگ بھگ 1400کے اِس جزیرہ نما اٹلی کے بطن سے اٹھیں۔ جنہوں نے اس کی عظمتوں کے سامنے یورپ کو سرنگوں کر دیا۔
کم وبیش اگلی دو صدیوں تک نہ صرف یہ ایک طرح قدیم یونانی، رومن سٹائل، علم اور انسانیت کا ایک طرح احیا کا زمانہ تھا۔ جو نہ صرف یورپ میں پھیلابلکہ اس کے ہر شعبہ ہائے زندگی کو اس نے متاثر کیا۔ آج کے یورپ کے بے شمار پینٹرز،مجسمہ ساز اور دانش ور جیسے مائیکل اینجلو،لیونارڈو،رافیل سب اٹلی کے بیٹے تھے۔
یہ اس کے ثقافتی عروج کا زمانہ تھا۔اس نے لوگوں کی سوچ مذہب سے لے کر زندگی کے ہر پہلو میں بدلی۔سیاست میں یہ تبدیلی جمہوریت کی صورت آئی۔مذہب میں چرچ کے غلبے کے خلاف۔انسان اور انسان دوستی کے حق میں تحریکیں چلیں۔صدیوں کی جہالت اور فرسودہ نظریات جو سائنس میں رواج پائے بیٹھے تھے وہ چیلنج ہوئے۔کچھ ایسا ہی حال تعمیرات میں ہوا کہ کالموں اور گنبدوں کی طرف واپسی ہوئی جو رومن اور یونانی طرز تعمیر کے بنیادی ستون تھے۔پینٹنگ میں اس کا مطلب 3-D realismسے ہے۔
اٹلی نے اپنے شہروں کو آرٹ،یونانی دیوتاؤں اور رومن سٹائل گنبدوں والی عمارتوں سے سجا دیا۔انہوں نے یونانی طرز جمہوریت کی داغ بیل ڈالی اور قدرتی دنیا دریافت کی۔ثقافتی یلغارکا طوفان اٹھا تھا اور یہ جزیرہ نما ایک بار پھر یورپ کے لئیے رحجان ساز ثقافتی مرکز کی سی حیثیت اختیار کرگیا۔
شاید ابھی ہمارے درمیان اور باتیں ہوتیں کہ اُس کا موبائل بجا۔معذرت کرتے ہوئے وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ کچھ دیر باتوں میں مصروف رہی۔ پھر ہنستے ہوئے اجازت چاہی کہ وہ اپنی جس دوست کے انتظار میں یہاں بیٹھی تھی وہ اب آگئی ہے۔اپنا بیگ کندھے سے لٹکاتے ہوئے وہ مسکرائی اوربولی۔
”آپ سے باتیں کرکے بہت مزہ آیا۔“
”جیتی رہو۔ مجھے بھی بہت اچھا لگا۔“
جب وہ وایا دانتے کی رونقوں میں گم ہو رہی تھی، اپنے بچپن کا گانا میری یادداشتوں میں جیسے بجنے لگا تھا۔
”جیون کے سفر میں راہی ملتے ہیں بچھڑ جانے کو۔“
واقعی یہ پیارا سا چہرہ جوابھی مجھے ملا۔ جس نے بیتے وقت کی چند ساعتیں میرے ساتھ گزاریں۔ اب کہیں دوبارہ اُسے دیکھنا ممکن ہے؟
”ہم موجیں ساگر کی
بہہ جائیں جب
لوٹ کر نہ آئیں کبھی“
تھوڑی سی افسردگی اور ملال نے مجھے گھیر لیاتھا۔ مگر یہ کیفیت بس چند لمحوں کی ہی تھی۔ میں سکوائر کی رونقوں کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔
مجھے تو یہ ارباط سٹریٹ کی طرح نظر آئی تھی۔شام اُتررہی تھی اور اس کی رنگینیاں عروج پر پہنچ رہی تھیں۔گانے والوں کے ٹولے،فوٹوگرافراورماسک پہنے اتراتے پھرتے لوگ۔
سورونو اسٹیشن پر اسما ء کا ملنا گویا خدا کی طرف سے بھیجی جانے والی کوئی غیبی مدد جیسا تھا۔پی آئی اے آفس میلان میں کام کرتی لڑکی ازخود ہی میرے پاس آئی۔تعارف کروایا۔ ڈیوٹی سے واپس آرہی تھی۔والد کوئی بیس سال سے اٹلی میں مقیم ہیں۔وہ بہن بھائی سب یہیں بڑھے پلے۔
اس نے مجھے گھر چلنے کی دعوت دی اور ساتھ ہی یہ بھی کہاکہ وہ ہر قسم کی مدد کیلئے حاضر ہے۔میں نے روم جانے کا بتایا اور یہ بھی کہا کہ اگر وہ میرے لئیے وہاں کسی ہوٹل کی بکنگ میں مدد کردے تو میں شکرگزار رہوں گی۔
”فکر نہ کریں۔“ اُس نے نمبر لیا۔ٹکٹ پر میرے روم پہنچنے کا وقت دیکھا اور بولی۔
”دو گھنٹے کے بعد آپ کو اطلاع دیتی ہوں۔“
نو بجے تک میری روم کے Fiamma ہوٹل کی 55 یورو پر بکنگ ہو چکی تھی۔یہ بھی اُس نے بتایا تھا کہ ہمارے آفس کا بندہ آپ کو ریلوے اسٹیشن سے پک کرلے گا اور ہوٹل پہنچائے گا۔ہوٹل ریلوے اسٹیشن کے بالکل قریب ہے۔
”اسماء تم تو کوئی فرشتہ ہو جسے خدا نے میری مدد کیلئے بھیجا۔“ میری آواز میں ممنونیت کا گہرا رچاؤ تھا۔
شام کو مسز سمتھ سے ملنے گئی وہ مارکیٹ جارہی تھیں۔دعوت دی کہ چلو گی۔
میں ہنسی۔”اندھے کو کیا چاہیے؟پوچھتی کیوں ہیں؟“
گیراج سے گاڑی نکالنے گئیں تو سوچا کہ میں بھی اُن کا ہاتھ بٹاؤں۔مرکزی دروازہ نمبروں سے کُھلتا تھا جس میں مَیں طاق ہوئی پڑی تھی۔گاڑی سڑک پر آگئی۔دروازہ بند کرتے ہوئے میں ساتھ بیٹھی تو ہنسیں اور میٹھے سے لہجے میں شکریہ ادا کیا۔
اِس چھوٹے سے قصبے کا چرچ بڑا خوبصورت تھا۔کھیل کے میدان اور پارک شاندار تھے۔سبزے کی بہتات، خاموشی اور سکون کی فراوانی تھی۔تیسری دنیا کے ملکوں کا تو ایک مسئلہ ان کی آبادی ہے۔کلبل کلبل کرتی چینیٹوں کی طرح بلوں سے نکلتی اور بلوں میں گھستی۔اوپر سے کٹا مٹی کے طوفان جو منہ ناک سے منوں کے حساب سے مرنے تک اندر جاتے ہیں۔
”کیا کریں بھئی۔“
سپر مارکیٹ میں سبزیوں کے سائز اور جسامت حیرت زدہ کرتے تھے۔بینگن کون سی اور کِس دنیا کی مخلوق ہے؟پہچاننے میں نہیں آرہے تھے۔کچھ ایسا ہی حال سیبوں کا تھا۔
بہرحال واپس آکر انہوں نے سارا سامان قرینے سے سمیٹا۔جب ہم کافی پیتے تھے۔ میں نے سامنے گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ دس بج رہے تھے۔ ادھر ادھر کی باتوں میں وقت کا تو خیال ہی نہیں رہا۔ گھبراہٹ سی ہوئی کہ خاصا وقت ہوگیا ہے۔ کہیں میں مخل نہ ہو رہی ہوں۔
”ارے نہیں تو۔“ وہ خوش دلی سے بولیں۔
”دیکھو تو کتنا اچھا لگا ہے۔ تاریخ کو دہراتے ہوئے۔ ماضی میں جاتے ہوئے۔ پرانے کرداروں پر بات کرتے ہوئے۔“
میں نے مورینوسے ملاقات کا احوال سنایا۔ یہ بھی اعتراف کیا کہ نشاۃ ثانیہ (The Renaissance) کے نام سے شناسائی تو تھی۔ مگر اُس کی گہرائی سے لاعلم تھی۔مجھ پر تو اس نشاۃ ثانیہ کی حقیقت اپنے پورے معنی سے آج کھلی ہے۔
میں خاموش ہوگئی۔ چند لمحوں بعد جیسے ملتجی سے لہجے میں بولی۔
”اگرآج آپ کا موڈ کچھ باتیں کرنے کا ہے تو مجھے اس کے باقی ماندہ پہلوؤں یعنی اِس کے زوال سے بھی آگا ہ کریں کہ عروج کیسے ہوا سُن بیٹھی ہوں۔“
زیرک خاتون بولیں۔
”ہر عروج کے نصیب میں زوال بھی لکھ دیا جاتا ہے۔“
کوئی صدی بھر بعدہی زوال پذیری شروع ہوگئی۔ پہلی اینٹ پرتگال کے واسکوڈے گا ما نے ماری کی جو ہندوستان کے ساحلوں پر لنگر انداز ہوا اور نیا سمندری راستہ افریقہ کے گرد دریافت کر کے اٹلی کی مشرق پر تجارتی اجارہ داری توڑنے کا باعث بنا۔
دوسرے پُرتگال،فرانس،سپین،انگلینڈ اور ہالینڈ جیسی مظبوط مرکز کے ساتھ حکومتوں نے اٹلی کو بے اثر کرنا شروع کردیا۔اور وہ نشاۃ ثانیہ جو اٹلی میں پیدا ہوا۔اسے اپنی ہی جنم بومی میں زوال آگیا۔اٹلی ثقافتی طور پر تو زندہ رہا مگرابھرتی یورپی طاقتوں کے لئے ایک ترنوالہ ثابت ہوا۔
فرانس اور سپین کے اٹلی پر حملے شروع ہوگئے اور مزے کی بات کہ یہ دعوت بھی گھر کے مالکوں نے ہی دی۔ اٹلی کے مختلف لارڈز جو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے مرے جا رہے تھے۔ اوپر سے کیتھولک اور پروٹسٹنٹوں کی مذہبی لڑائیوں کا بھی ملک گڑھ بن گیا۔
1600سے 1800تک دو صدیاں غیر ملکی لارڈز نے اِس ملک پرحکومتیں کیں کہ یہ ان کے لئیے وہ انعام تھے جو انہوں نے اٹلی کو فتح کرنے کے لئیے اپنی حکومتوں کو اپنی خدمات کی صورت دے کر حاصل کئے۔فکرو سوچ کی دنیا تو پروٹسٹنٹ اور کیتھولک جھگڑوں میں پھنسی ہوئی تھی۔
عدالتی اور سرکاری سطح پر انسانی سوچ اور جدّت کے استحصال کی سب سے بڑی مثال گلیلیو کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
اور چھم سے جیسے مجھے بر ٹولٹ بریخت Bertolt Brecht کا ڈرامہThe life of Galileo یاد آگیا تھا۔ اب یہ کیسے ممکن تھا کہ بریخت کے ساتھ مجھے اپنے ملک کاوہ عظیم دانشور بابائے ٹیلی ویژن جناب اسلم اظہر اور ان کا”دستک تھیٹر گروپ“ یاد نہ آتے۔ آئے۔ منصور سعید بھی۔ یہ ڈرامہ میں نے اپنے بڑے بیٹے کے کہنے پر دیکھا تھا۔ کیا شاہکار چیز تھی؟ سارا ڈرامہ اس اہم مقدمے کے گرد گھومتا ہے جس کے تحت کلیسائے روم نے اُسے مجبور کر دیا تھا کہ وہ اپنی اِس شہرہ آفاق انقلابی سائنسی دریافت سے انحراف کرجائے۔
اسے دیکھتے ہوئے سانس کتنی بار رکی۔ بتانا مشکل ہے۔ میں نے مسز سمتھ کو یہ سب سنایا۔ وہ دکھ سے بولیں۔
”تمہاری باتوں نے مجھے بھی کتناکچھ یاد دلا دیا ہے۔“
دل دُکھ سے بوجھل سا ہوگیا ہے۔ میں نے دیکھا تھااُن کی آنکھیں نم سی ہوگئی تھیں۔
اِس ذکر پرمجھے جون کی وہ کسی حد تک گرم سی صبح ایک لشکارے کے ساتھ یاد آئی ہے۔ روم کے کونونٹ منروا میں کھڑا وہ خستہ حال بوڑھا جو آنے والے وقتوں میں انسانیت کے ایک عظیم سائنس دان کی صورت سامنے آنے والا تھا۔ اس وقت بے چارگی اور بے بسی کی تصویر بنا اُس معافی نامے پر دستخط کرتا سامنے آتا ہے جو گوتھک چرچ اور کلیسا نے اس کے خلاف بدعتی نظریے کے اظہار پر فتوی کی صورت جاری کیا تھا۔ اس نے کہا بھی کہ اس نے کب پوپ اربن ہشتم کا مذاق اڑایا ہے۔ ہاں اس کے علم اور مشاہدے نے جو اُسے بتایا اور سمجھایا ہے اُس نے تو اسی کے بارے بات کی ہے۔ زمین ساکت نہیں ہے وہ سورج کے گرد گھومتی ہے۔ مشتری کے گرد گھومتے ستارے اور بے شمار ستاروں کی دریافت مقدس کتاب سے کہاں انحراف ہے؟ ایک علم ہے جس کایہ تو اظہار ہوا ہے۔ یہ بے ادبی اور گستاخی کا ارتکاب کہاں ہے؟
کتنا بڑا انسان کیسی تنگ نظری کا شکار ہوا۔اُس کی کتابوں پر پابندی لگا دی گئی۔ دو سوسال تک اس کی کتابوں پر پابندی لگی رہی۔ پادریوں نے اس کی کتابیں پڑھنے والوں پہ فتویٰ لگا دیا تھا کہ انہیں لافانی ارواح کی ہیبت ناک سزا ملے گی۔ گیلیلو کی کتابوں پر 1832ء میں پابندی ہٹی۔
اب اُنیسویں صدی کا آغاز ہوا چاہتا تھا۔ کوئی چار سال رہتے ہوں گے یہی 1796 کے لگ بھگ نپولین بوناپا رٹ کرّوفر سے آیا یوں کہ اٹلی کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ مار مار کر بُھرتا بنا دیا۔
تاہم یہ بھی نپولین ہی تھا کہ جس نے ایک بیج اطالویوں کے اندربویاکہ آخر اُن میں کیا کمی ہے اگر وہ متحد ہوں تو باقی یورپ کی طرح خود حکومت کر سکتے ہیں۔
اور یہی وہ چیز تھی جو اگلے پچاس سالوں میں دھیرے دھیرے لوگوں کے دلوں دماغوں میں اترتی چلی گئی۔اسے انہوں نے Risorgimentoکا نام دیا۔یعنی دوبارہ اٹھنا۔ یعنی اٹلی کی عظمتوں کا احیاء۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply