رودادِ سفر(4) تائیوان سے تعارف۔۔شاکر ظہیر

گیسوؤں کے سائے میں آرام کش​
سر برہنہ زندگی تھی، میں نہ تھا​
دیر و کعبہ میں “عدم” حیرت فروش​
دو جہاں کی بدظنی تھی، میں نہ تھا
فلپائن سے تائیوان جانے کے لیے منیلا ایئرپورٹ پہنچے, میں اور فاروقی صاحب طیارے میں سوار ہو گئے دو اڑھائی گھنٹے کا سفر تھا تائپے Taipei ائیرپورٹ تک کا ۔ فلپائن کا منیلا ائیرپورٹ ہمارے اسلام آباد ائیرپورٹ سے بہت بہتر, صاف ستھرا اور جدید طرز پر بنا ہوا ہے۔ اڑھائی گھنٹے کے سفر کے دوران میں نے دو کام کیے, ایک دعائیں پڑھتا رہا اور دوسرا فلپائن میں جو کچھ نیا دیکھا سیکھا اس کی جمع تفریق میں مگن رہا ۔ مثلاً مغرب اور مشرق کا امتزاج مجھے پہلی بار نظر آیا ۔ یعنی فلپائنی ہیں تو مشرقی لیکن وہ مغربی ثقافت میں ڈھل رہے تھے ۔ اپنے مذہب سے بھی محض ظاہری طور پر ہی جڑے ہوئے تھے ۔ دوسرے میں اس سے پہلے یہی سمجھتا تھا کہ مسیحی ہم سے شدید نفرت کرتے ہیں لیکن یہ بات مجھے فلپائن میں کہیں نظر نہیں آئی ۔ عام لوگ ایسی باتیں نہیں سوچتے اور کسی کے مذہبی عقائد و جذبات کا احترام کرتے ہیں ۔ تیسرا میں سمجھتا تھا یہ عبادت نہیں کرتے بلکہ کچھ گانا بجانا ہی ہوتا ہے لیکن یہ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ لے اور سر میں حمدیہ کلمات ہوتے ہیں جنہیں خاص طور پر چرچ میں لڑکے اور خاص کر نوجوان لڑکیاں سیکھتی اور گاتی ہیں ۔ ایک اور بات کہ یہ لوگ بھی بہت توہم پرست ہیں ۔ میر صاحب جو ہمارے رشتہ دار تھے, بتا رہے تھے کہ جس گھر میں وہ رہ رہے ہیں اسے کوئی فلپائنی کرایے پر نہیں لیتا تھا کہ وہاں کسی عورت نے خودکشی کی تھی اور اب بھی اس کی روح وہاں بھٹکتی ہے ۔ اور بقول ان کے اس کا مشاہدہ انہوں نے بھی کیا تھا ۔ کبھی کھڑکیاں خودبخود بند ہو جاتیں, کبھی رونے کی آوازیں آتیں اور کبھی وہ عورت پھندے پر لٹکی نظر آتی تھی ۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ ان کا وہم تھا جو لوگوں سے کہانیاں سن کے بنا تھا یا واقعی ایسا ہی ہوتا تھا ۔ ویسے تو دنیا میں انسان کے علاؤہ بھی خدا کی مخلوق موجود ہے ۔
خاص بات یہ معلوم ہوئی کہ لوڈ شیڈنگ صرف پاکستان میں ہی نہیں ہوتی اور جگہوں پر بھی ہوتی ہے اور بارش کے بعد گلیاں سڑکیں صرف پاکستان میں نہروں کا روپ نہیں اختیار کرتیں یہ فلپائن میں بھی نہروں کا روپ دھار لیتی ہیں ۔ اور راز کی بات یہ پتہ چلی کہ ہماری گلی سے جو شام کو الہڑ دوشیزہ گزر کر جاتی تھی وہ دوشیزہ نہیں بلکہ He اور She کا مکسچر تھا ۔
یہی کچھ جمع تفریق کرتے خیالات بنتے دعائیں پڑھتے تائیوان کے تائپے ایئرپورٹ پر ہم طیارے سمت اتر گئے ۔ فاروقی صاحب امیگریشن کاؤنٹر پر مجھ سے آگے تھے وہ نکل گئے اور میں مسکین صورت بنا کر کاؤنٹر پر بیٹھی خاتون کے سامنے کھڑا ہو گیا ۔ وہ کبھی مجھے دیکھتی کبھی میرے پاسپورٹ پر لکھے سٹوڈنٹ اور کبھی پاسپورٹ پر لگے بزنس ویزے کو ۔ آخر اس نے ایک انگریزی بولنے والے کو بلایا اور مجھ سے پوچھا کہ آنے کا مقصد کیا ہے میں نے کہا بزنس ۔ اس نے کہا تمہارے پاسپورٹ پر تو سٹوڈنٹ لکھا ہے ۔ میں نے بتایا پہلے میں طالبعلم ہی تھا اب کاروبار کےلیے آیا ہوں ۔ بڑی مشکل سے اس نے خود کو میری بات پر یقین کرنے کےلیے آمادہ کیا اور مجھے انٹری دے دی ۔ اور میں بھی فاروقی صاحب کے ساتھ سامان لینے پہنچ گیا ۔ ویسے یہ میرا پہلا باقاعدہ تعارف تھا تائیوان کے چائینیز سے ۔ سامان لے کر فاروقی صاحب نے ائیرپورٹ بس سروس سے ٹکٹ لیا اور ہم بس میں بیٹھ کر تائپے شہر کے ایک ہوٹل میں آ گئے ۔ سٹرکیں بہت صاف ستھری کشادہ اور سڑک کے کناروں پر سبزہ ، بلکہ جس طرف نظر پڑتی سبزہ ہی سبزہ تھا ۔ نہا دھو کر کھانے کےلیے نکلے اور ایک باربی کیو والے کے پاس گئے اور بیف کا آرڈر دیا ۔ یہاں حلال والی بات صرف بیف ، چکن اور مچھلی تک محدود تھی ۔ اگلے دن فاروقی صاحب کسی کام سے نکل گئے اور میں ہوٹل میں اکیلا تھا ۔ کھانے کےلیے باہر نکلا اور ایک بیکری سے کچھ سادہ سے بسکٹ وغیرہ لیے ۔ فاروقی صاحب واپس آئے تو انہیں بتایا کہ میں بسکٹ وغیرہ لے کر آیا تھا انہوں نے بتایا کہ کچھ چیزیں بیکری میں بھی ایسی ہوتی ہے جن میں سور کے گوشت کے ریشے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ میں نے سوچا یہ کیا مصیبت ہے ہر چیز میں یہ حرام گوشت ہی شوق سے کیوں استعمال کرتے ہیں ۔ ویسے حرام ہمارے لیے ہے اور یہ مشتبہ اشیاء میں سے تھا جن کے بارے میں انسانی عقل فیصلہ نہیں کر سکتی تھی کہ اسے چرندوں میں رکھا جائے یا درندوں میں اس لیے اللہ پاک نے اس کے بارے میں واضح فیصلہ دے دیا ۔ اس سور سے ہمارا پالا ہر جگہ پڑا جہاں بھی ہم گئے ۔ یہ ان کےلیے ایسے ہی ہے جسے ہمارے ہاں بکری ۔ یہ الگ بات ہے اس کا گوشت خریدتے وقت اس کی بو کی وجہ سے یہ خود بھی ناک پر رومال رکھتے ہیں اور پکاتے وقت بھی ۔ اسی لیے خدا نے بھی طیب چیزوں کہہ کر حلال و حرام کو واضح کیا کہ انسانی فطرت اسے جانتی ہے کہ پاک کیا ہے مشتبہ اور تھا جسے واضح کر دیا ۔ اور اس پر بھی انہیں ناک بند کرنا پڑتا تھا ۔
اگلے دن ہم فاروق صاحب کے ایک دوست کے گھر گئے جو بہت عرصے سے تائیوان میں کاروبار کے سلسلے میں مقیم تھے ۔ وہیں پاکستانی کھانا کھایا ۔ وہ ایک دو کمروں کے گھر میں ایک کمرے میں مقیم تھے ۔ دوسرا کمرہ کسی تائیوانی کے پاس تھا ۔ رات ہم بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے ۔ وہ تائیوانی کمرے سے باہر نکلا ہاتھ میں ایک بڑی شیشے کی بوتل پکڑی تھی ۔ غور سے دیکھا تو اس میں ایک محلول کے اندر سانپ بھی تھا ۔ فاروقی صاحب سے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ یہ شراب میں اس نے سانپ ڈالا ہوا ہے ۔ پھر اس نے بیٹھ کر پینی شروع کی اور پھر شور شرابہ شروع ہو گیا ۔ وہ اتنی باتیں کر رہا تھا کہ جیسے اس کی بات سننے والے دنیا میں کوئی نہیں اور وہ بہت اونچی آواز میں باتیں کرکے سب کو زبردستی سنا کر دل کی بھڑاس نکال رہا ہے ۔ یہ شو آدھا گھنٹہ جاری رہا پھر وہ کمرے میں سو گیا اور ہم بھی ۔ میں نے فاروقی صاحب کے دوست سے پوچھا کہ کیا اس تائیوانی کا کوئی خاندان نہیں ہے انہوں نے بتایا کہ یہاں خاندان کا سردرد پالنے کی روایت دم توڑ رہی ہے اور یہ زیادہ تر broken فیملی سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں ۔ اور ایسی broken فیملی کے بچے ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں مثلاً تنہائی ، احساس کمتری ، لوگوں سے دور دور رہنا اور کسی کو اپنا نہ سمجھنا ۔ یعنی ایسے لوگ گھٹ گھٹ کر جیتے ہیں اور تنہا ہی رہتے ہیں ، جب تک دل کرتا ہے ایک کام کرتے ہیں ورنہ چھوڑ کر کہیں اور نکل جاتے ہیں ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ مغرب میں بہت آزادی ہے میرے خیال میں انسان اس دنیا میں کہیں بھی آزاد نہیں جو آزاد رہتے ہیں پھر وہ اکیلے ہی رہ جاتے ہیں ۔ کوئی بھی آسودگی ذمہ داری کے بغیر نہیں ہوتی ۔ جیسے چائنیز کے ہاں ایک ضرب المثال موجود ہے کہ کوئی بھی ڈنر فری نہیں ہوتا ۔
خیر دو دن بعد فاروقی صاحب نے ہمیں بتایا کہ ہم نے دوسرے شہر جانا ہے اور پھر ٹرین کا ٹکٹ لیا اور ٹرین سٹیشن پہنچ گئے ۔ ٹرین کا ٹکٹ شہر میں بنی مختلف ٹرین کی ایجنسیوں سے مل جاتا ہے ۔ تائپے ٹرین سٹیشن بہت بڑا اور بہت صاف ستھرا تھا ۔ ٹرین ٹھیک وقت پر آئی اور طے شدہ وقت پر چار گھنٹے میں hualien شہر پہنچ گئی ۔ تائیوان ایک جزیرہ ہے جو لمبائی میں زیادہ اور چوڑائی میں کم ہے اور آبادی سمندر کے ساتھ ساتھ ہے درمیان میں پہاڑوں کے سلسلے ہیں ۔ بہت سرسبز اور شاداب ، بہت بارش ہوتی ہے ۔ بہت مہذب چائنیز ہیں. چائنا کے اندر Mao کمیونسٹ انقلاب کے بعد چائنا کے پڑھے لکھے لوگ اور کاروباری طبقے کے لوگ نکل کر تائیوان ، سنگاپور اور ملائشیا چلے گئے ۔ اس لیے ان میں اور باقی رہ جانے والے چائنا کے چائنیز میں بہت فرق ہے ۔ اس کے علاؤہ تائیوان میں مقامی قبائل بھی موجود ہیں جو پہاڑی لوگ کہلاتے ہیں ۔ ہر قبیلے کی اپنی زبان اور اپنا کلچر ہے ۔ یہ آپس میں اپنی قبائلی زبان بولتے ہیں لیکن دوسروں کے ساتھ mandarin Chinese میں بات کرتے ہیں لیکن ان کے لہجے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ قبائلی ہیں ۔ تائیوان چائنیز جو چائنا سے نکل کر آئے وہ زیادہ تر Fijian کے صوبے سے تعلق رکھتے ہیں جو fujian language بولتے ہیں ۔ اس طرح تائیوان اڑھائی کروڑ کی آبادی کے ساتھ بہت مکس کلچر معاشرہ ہے ۔ مذہب کے لحاظ بدھ ازم ، تاؤ ازم ، کرسچن ، ایتھسٹ اور مسلمان ہیں
مسلمان بہت تھوڑی تعداد میں موجود ہیں تقریباً ساٹھ ہزار ہے اور مسلمان شاز ہی نظر آتے ہیں ۔ پھر بھی کہا جاتا ہے کہ ہیں ۔ بلکہ پہلے جو مسلمان آئے تھے وہ سوسائٹی میں گم ہو گئے اور ان کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا ۔ ان کی غیر مسلموں کے ساتھ شادیوں نے ان کے وجود کو ختم کر دیا ۔ جو ہیں وہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیسے اپنی تہذیب اور مذہب کو بچائے ہوئے ہیں ۔ ان مقامی مسلمانوں کے علاوہ وہ مسلمان بھی ہیں جو باہر سے کاروبار یا سٹڈی پر آئے اور مقامی عورتوں سے شادیاں کیں ان میں پاکستانی بھی شامل ہیں. یہ لوگ اپنے مذہب و تہذیب کی بقاء کےلیے بہت فکرمند ہیں کہ ان کی آئندہ نسل کا کیا بنے گا ۔ کیونکہ یہاں تو وہ خود اکیلے ہی آئے تھے اور معاشرہ بھی غیر مسلم تو پھر بقاء کیسے ہوگی ۔
خیر میں اور فاروقی صاحب ان تمام خیالات سمت hualien کے ریلوے سٹیشن پر اتر گئے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply