روداد سفر /عقلی دلائل اور مذہب۔۔قسط 44/شاکر ظہیر

تمنا عمادی صاحب کی کتاب ” الطلاق مرتان ” بہت مشکل کتاب تھی یا مجھے مشکل لگی کہ ان کا انداز بیاں ہی بہت مشکل ہے ۔ لیکن مجھے اسے سمجھنا تھا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے ایک دوست کو یہ مسئلہ در پیش تھا اور ان کا ایک بہت پیارا بیٹا بھی تھا اور وہ مسئلہ بھی میرے اور میری بیوی کے سامنے پیش آیا تھا ۔ وہ دونوں دوبارہ اکٹھے رہنا چاہتے تھے اور مجھ سے مشورہ کر رہے تھے اور میرے پاس اس کا کوئی معقول جواب نہیں تھا ۔ کچھ علما  سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ چاروں ائمہ کے نزدیک یہ طلاق واقع ہو گئی ہے ۔ اچھا واقع ہو گئی ہے یہ فتویٰ ہے ، جس کے ہاتھ میں نکاح کی ڈور ہے وہ یہ کہتا ہے کہ میں نے معاہدہ توڑا ہی نہیں نہ اسے توڑنے کا ارادہ کیا ۔ میں تو صرف وارننگ دے رہا تھا ۔ اب فتویٰ دینے والے کے پاس کیا اختیار ہے کہ وہ یہ کہے کہ یہ معاہدہ ٹوٹ گیا ہے ۔ معاہدے کی ضامن حکومت ہے جس نے معاہدے کو اپنے پاس رجسٹر کیا ہے تو توڑنے کےلیے بھی آپ کو اسی کے پاس جانا ہوگا ۔ گھر بیٹھے آپ کیسے توڑ رہے ہیں ۔ جیسے جیسے منطقی انداز میں مسئلے کو سوچا جائے ویسے ویسے یہ فتوے بس کھیل تماشہ ہی محسوس ہوتے تھے یا دھونس دھاندلی ۔ پھر دوسرے شخص سے شادی اس عورت کےلیے لازم ہے جو پہلے شوہر سے طلاق خریدتی ہے یعنی خلع لیتی ہے ، اب اسے کہا جا رہا ہے کہ دوسرے گھر سے ہو آؤ تو تمہیں پہلے کی اچھائیاں بھی نظر آجائیں گی ۔ لیکن یہ بھی شرعی طریقے سے ہے نا  کہ پلاننگ سے نکاح کرے اور اگلے دن طلاق لے لی جائے ۔

اللہ اسے جزائے  خیر دے جس نے انٹرنیٹ ، فیس بک اور پھر وی پی این (VPN ) ایجاد کیا ورنہ اس کے بغیر تو ہم چائنا کے اندر کیمونسٹ پارٹی کا پروپیگنڈہ  ہی سن رہے ہوتے اور ان کے ٹی وی ڈراموں میں ان کے تصوف والے بابے ہی ہواؤں میں اڑتے اور پانی پر چلتے دیکھ رہے ہوتے ۔ تمنا عمادی صاحب کی ( e book ) میں نے محترم قاری صاحب کو اور انگلینڈ میں موجود مفتی فاروق صاحب کو بھیجی کہ اسے دیکھیں اور مجھے سمجھائیں کہ یہ کہنا کیا چاہتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ انہی کی کتاب طبری اور زہری پر تنقید نے حوصلہ دیا کہ وہ روایات جو شکوک و شبہات پیدا کر دیتی ہیں اور جو پیغمبر کے کردار کو داغدار کرنے کی کوشش ہیں ان کے راوی کے قد کاٹھ کے رعب میں آئے بغیر رد کیا جا سکتا ہے ۔

میری بیوی جو سب سے بڑے اعتراض پیش کر سکتی تھی وہ ایک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ کی شادی کی عمر اور دوسرے جادو کی روایات تھیں ۔ مسائل میں طلاق کا مسئلہ تھے جو میرا اپنا ذہن قبول کرنے سے قاصر تھا ۔ پہلی دو روایات کے راوی ابن شہاب زہری تھے جن پر تمنا عمادی کی شدید تنقید نے مجھے زندوں میں لا کھڑا کیا اور دوسرے مسئلے کو بھی تمناء عمادی صاحب ہی نے حل کرنے کی کوشش کی تھی ۔

اس دوران انہی مسائل پر محترم قاری صاحب نے آسان الفاظ میں فیس بک پر لکھنا شروع کیا تو بہت کچھ کلیر ہو گیا ۔ وہ سب کچھ میں نے اپنے پاس محفوظ رکھا اور بار بار اسے پڑھتا اور خود ہی اس پر سوال اٹھاتا رہتا ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوتا کہ جو سوالات میں اٹھاتا کچھ ہی دنوں میں ان کے جوابات قاری صاحب یا کسی اور کی طرف سے وال پر آ جاتے ۔ یہ ایسا ہی تھا کہ خدا مجھے انگلی پکڑ کر راستہ چلا رہا تھا یہ اس کا کرم تھا کہ مجھ جیسے اندھے کو روشنی دے رہا تھا ۔

میری بیٹی حنا کی عمر اس وقت اڑھائی پونے تین سال کی تھی اور اس نے سکول جانے کی رٹ لگا دی ۔ چھاو تونگ ( xiao dong ) میں ایک چھن ہائی ( Qing hai ) کی مسلمان خاتون کا مونٹیسری سکول کافی عرصے سے قائم تھا ۔ لیکن میری بیوی کو اس پر اعتراضات تھے اس لیے میں نے زیادہ زور نہیں دیا ۔ پھر میری بیوی ہی کی ایک سہیلی نے ایک اور چھوٹے سے سکول کا بتایا جسے ( Henan ) ہائنان کے مسلمان نے ابھی حال ہی میں شروع کیا تھا ۔ ان کے پاس ایک کیری ڈبہ تھا صبح بچوں کو لے جاتے اور شام کو چھوڑ جاتے ۔ بیٹی حنا بھی شوق سے صبح میرے کندھے پر سوار ہو کر چوتھے فلور سے نیچے اتر کر کیری میں بیٹھتی اور واپسی پر بھی میرے کندھے پر سوار ہو کر پہلے فلور سے چوتھے فلور پر جاتی تھی ۔ پانچ چھ ماہ تک حنا بیٹی ایسے ہی سکول جاتی رہی ۔ ان دنوں میرے پاس بھی کوئی خاص کام نہیں تھا اس لیے زیادہ وقت مختلف کتابیں ڈاؤن لوڈ کرکے پڑھتا یا یوٹیوب پر لیکچر سننے میں گزرتا ۔

اللہ اسے بھی جزاء خیر دے جس نے راشد شاز صاحب کا ذکر کیا اور ان کی ایک چھوٹی سی دو چار سطروں کی تحریر اپنی وال پر لگائی جو تصوف کے متعلق تھی ۔ اس تصوف نے بھی میرے لیے ایک مصیبت کھڑی کی ہوئی تھی ۔ پاکستان سے لے کر چائنا تک اور مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک اسی کا راج تھا ۔ میں اس اسلامی تصوف میں اور ہندوؤں ، بدھ ازم ، تاؤ ازم وغیرہ کے تصوف کے عقائد نظریات اور کہانیوں میں کوئی فرق نہیں کر پا رہا تھا ۔ فرق صرف اصطلاحات اور ناموں کا تھا ۔ یہ نام اور اصطلاحات عربی میں تھے اور وہ ان کے نام اور اصطلاحات ان کی اپنی زبان میں ۔ ندیم بھائی نے اپنی ڈیجیٹل لائبریری کا ایڈریس دیا جس سے راشد شاز صاحب کی کتاب ” لستم پوخ ” ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھی ، پھر پڑھی اور پھر پڑھتا چلا گیا ۔

تاریخ اسلام کا مسئلہ بھی طہ حسین نے ادھورا سا حل کیا جن کی کتاب ” فتنہ الکبری ” بھی میں نے ندیم بھائی کی لائبریری سے ڈاؤن لوڈ کی ۔ یہ  حضرت عثمان غنی رضی اللہ کی شہادت کے واقعہ کا بیان ہے کہ اس واقعہ کے بعد امت تقسیم ہوئی اور آج تک تقسیم در تقسیم جاری ہے ۔ یہیں سے جب مرکزی حکومت کمزور ہوئی تو کہانیاں گھڑنے والوں کو کہانی گھڑنے اور انہیں پھیلانے کا موقع ملا ۔ اسی عرصے میں پیغمبر اسلام ﷺ کے کردار کو داغ دار کرنے کی کوشش کی گئی ۔ راشد شاز صاحب کی کتاب ” ادراک زوال امت ” جو مذہبی فکر پر تنقید ہے وہ بھی ڈاون لوڈ کر کے پڑھی اور اس نے بہت سے بنے بنائے بت توڑ کر رکھ دیے ۔ اب اسلاف کو بھی بات دلیل سے پیش کرنی اور منوانی پڑے گی اور مجھے بھی دلیل سے بات رد کرنی پڑے گی ۔ خیر یہ سلسلہ ایک مرتبہ چل پڑا تو بس پھر علم کی پیاس تھی کہ جو بجھ نہیں رہی تھی بلکہ بڑھتی جا رہی تھی ۔ ہر دن نئی بات سکھاتا تھا ۔ جو بات آج سمجھ نہیں آ رہی ہوتی دو چار دن بعد کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا کہ اس کے حوالے سے نہ سمجھ آنے والی بات سمجھ آنے لگتی ۔ جہلم کے ایک انجینئر صاحب کو دو چار بار یوٹیوب پر سنا لیکن مجھے مناظر ناز قسم سے لوگوں سے اکتاہٹ ہی ہوتی اس لیے دوری اختیار کر لی ۔

ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ جماعت اسلامی کے سارے جاننے والے جن کی کسی رائے پر میں تنقید کرتا وہ بھی باقیوں کی طرح فتوے ہی لے کر بیٹھے ہوتے ۔ یعنی یہ بھی بجائے اس کے کہ آپ کی رائے کا جواب دلیل سے دیں یا اس کا تنقیدی جائزہ لیں یہ بھی اب بس ملاں اور کلرک ہی ہو گئے ۔ لوگ جو انہیں علمی جماعت کے لوگ سمجھ تھے وہ اب اپنے خیال میں غلط ہیں ۔ یہ بھی بس لکیر کے فقیر ہی ہیں جیسے باقی ۔ پھر آہستہ آہستہ میں بھی ان سے دور ہوتا گیا بلکہ میں نے ایک ایک کو تاک کر الگ کر دیا ۔ سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ یہ میرے موضوع کے متعلق ہی نہیں تھے یہ خواب اور سراب کے پیچھے بھاگنے والے لوگ تھے ۔ اور میرے خیال میں انتہائی مایوسی کا شکار ، انہیں کوئی تنکے کا سہارا دے دے تو بھی لینے سے انکار نہ کریں ۔ جیسے امویوں کے دور میں علوی بغاوتیں کرتے اور ماریں کھاتے ۔ لیکن کب تک آخر ساتھیوں نے سوالات اٹھا نا شروع کر دیے کہ اگر ہم حق پر ہیں تو شکست ہی ہمارا مقدر کیوں ، ہمیں حکومت کب ملے گی کیونکہ بقول آپ کے آپ خاص نسل سے تعلق رکھتے ہیں خدا سے آپ کو خاص تعلق ہے اور یہ حکومت ، امامت کا منصب خدا نے آپ کےلیے خاص کیا ہے اور آپ کے پاس اس خاص نسبت اور تعلق اور حق کی روایات بھی موجود ہیں ۔ اس اعتراض کو دور کرنے کےلیے اور تقسیم در تقسیم سے بچنے کےلیے شیعہ فرقے نے مہدی کا اسطورہ کھڑا کیا پھر اسے غائب کر دیا کہ وہ قیامت کے نزدیک آ کر اس شکست کو فتح میں بھی تبدیل کرے گا اور ہمارے دشمنوں کو سزا دے گا ۔ یہ وہ اسطورہ تھا پھر جس نے تاریخ میں اس فرقے کے حوصلے کو قائم اور باقی رکھا ۔ ایسے ہی ہر الیکشن ہارنے کے بعد یہ بھی اخروی اور اخلاقی فتح کا نعرہ لگا کر کارکنوں کے حوصلے قائم رکھنے کی کوشش کرتے ۔

یہ سارے جوابات دین کے دائرے کے اندر کھڑے ہو کر قرآن سے دیے جا رہے تھے ۔ میرا مسئلہ اس دائرے سے باہر کھڑے ہو کر دین کو شروع سے سمجھنا تھا ۔ جس میں خالق کا تصور ۔ انسان کا وجود ، اس کی تخلیق کا مقصد ، قیامت کا تصور ، اس کی ضرورت اور شریعت کا مقصد جبکہ انسان نے خود بھی تجربات سے بہت سے قوانین بنائے اور چلائے ۔ مذہب اور فلسفے کا فرق اور خدا کی ضرورت ۔ یہ ساری باتیں مجھے عقلی دلائل سے جاننی تھیں کیونکہ میرے مقابل میں تقریباً الحاد کھڑا تھا جسے میں نے قرآن کے انسانی کلام سے ماوراء کسی اعلی ہستی کا کلام ہونے کو بھی ثابت کرنا تھا جس سے اسے علم کا ذریعہ بننا تھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ پاک کی عنایت ہوئی مجھ پر کہ محترم قاری صاحب نے مجھے اس شخصیت سے روشناس کرا دیا جس کا میں احسان کبھی نہیں بھلا سکتا اور وہ سارے دلائل جو مجھے اس امتحان کےلیے مجھے چاہئیں تھے مجھے مہیا کر دیے ۔ لیکن مجھے کچھ دیر ہو گئی اور ان کو دلائل کو سمجھنے والا میں اس وقت تک وہاں اکیلا ہی تھا ۔ انہیں بیان کرنے اور ان کا عملی مظاہرہ دیکھنے کا مجھے موقع ہی نہ مل سکا ۔ اردگرد مسلمانوں نے جو دائرہ گیارہ بارہ صدیوں میں بنا رکھا تھا وہ شاید بہت مضبوط تھا اسے توڑنے کی شاید مجھ میں ہمت حوصلہ نہ تھا ۔ لیکن یہ دائرہ ٹوٹ رہا ہے اور وہ سارے لوگ جو اس دائرے پر پہرے لگا کر بیٹھے ہیں یا دائرے کے محافظ بنے بیٹھے ہیں خود ان کے گھروں سے سوالات اٹھ رہے ہیں ۔جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply