ہاسٹل کی زندگی عجب داستان ساز ہوتی ہے ۔
آنکھوں میں مستقبل کے خواب بھرے ملک کے مختلف کونوں، کناروں سے آۓ ہوۓ بے شمار نئے چہرے ۔کشادہ پیشانی والے سندھی ، سرخ و سفید کشمیری ،نیلی آنکھوں اور پتلی ناکوں والے گلگتی ، اپنی تہذیب کے امین بلوچ بھائی ، محبت سے معمور سرائیکی اور بڑی بڑی روشن آنکھوں والے پٹھان ،سب ایک دوسرے سے قطعی اجنبی اور انجان۔رات گئے تک محفلیں جمتی ہیں ، چاۓ کے ایک پیالے پر گھنٹوں مباحثے ہوتے ہیں ۔ اُلخ ملخ کی باتیں اور ہِند سندھ کے قصے ۔ اجنبیت کی دیوار دھیرے دھیرے گرتی رہتی ہے اور بے نام تعلق کے پھول چاروں اور کھلنے لگتے ہیں ۔
ہم ایک کمرے کے چار مکین تھے ۔
تعلیم کے نام پر دن بھر بستر کی سلوٹوں میں اضافہ ہوتا رہتا اور صبح کی اذانوں تک باتوں کی برق رفتار گاڑیاں دنیا جہان کی منازل طے کرنے میں ہلکان رہتیں ۔
بات بے بات میرے تینوں روم میٹس کے قہقہے دیواروں سے سر ٹکراتے پھرتے ، میں کم گو تھا زیادہ وقت ناول ، کتابیں پڑھتا یا پھر ڈائری کے اوراق کالے کرتا رہتا۔
چار سالوں میں کوئی ایک مہینہ بھی ایسا یاد نہیں جو ہم نے آسودہ حالی میں گزارا ہو ۔
گھر سے پیسے ملتے ہی ہمارے اندر کے مغل بادشاہ اچانک جاگ جاتے اور مہینے کے آخری دن تک شکم سیری کو پھوٹی کوڑی تک نہ بچتی ۔
انہی سالوں میں ہم چاروں نے ایک عادت بنا لی ۔کھانے پینے یا خریداری کے بعد جو بھی دو ، چار یا پانچ روپے ریزگاری کی صورت بچ جاتے ، انہیں جمع کر لیا جاتا ۔
دو تین ماہ میں ہم چاروں کی جمع کی ہوئی یہ ریزگاری،سو ، ڈیڑھ سو تک پہنچ جاتی تو کسی مشکل دن کی عیاشی کیلئے یہ بچت کام آ جاتی ۔
تعلیم مکمل ہوئی ، ہاسٹل کی زندگی اختتام کو پہنچی ، دوستوں کی سمتیں بدل گئیں، تعلقات کو فاصلے اور غمِ روزگار کھا گئے ، ہم الگ الگ ہو گئے لیکن ریزگاری جمع کرنے کی میری یہ عادت زندہ رہی ۔
گاؤں پہنچ کر بھی میں اپنی عادت مطابق ریزگاری جوڑتا رہتا ۔ پھر ہر دو تین ماہ بعد یہ تھوڑے سے جمع شدہ پیسے اپنے خاندان کے بچوں میں بانٹ دیا کرتا ۔
اللہ نے رزق کا سبب جوڑ دیا تو وہ ہوسٹل والی معاشی تنگی جاتی رہی لیکن ریزگاری جمع کرنے کی میری یہ عادت بدستور قائم رہی ۔
کتاب کے ٹائٹل کیلئے میں نے ڈھائی سال پہلے دو نام منتخب کر رکھے تھے ۔
“کنول کا پھول اور ریزگاری”
دونوں میرے پسندیدہ افسانے ہیں ۔
اوّل الذکر کوٹھے کے خدمت گزار کنول کی کہانی اور دوم ایک نوجوان کی داستان جو وقت سے پہلے اچانک بوڑھا ہو جاتا ہے ۔
اس دوران ملکی ڈائجسٹوں اور اپنی کتاب کیلئے مزید افسانے بھی لکھے گئے ۔اُن دنوں میں میرا دل بھی کتاب کے ٹائٹل کیلئے کنول کا پھول منتخب کر چکا تھا ، سرورق کیلئے تصویر بھی محفوظ کر رکھی تھی اور اس کے پیچھے یہی ایک سوچ کارفرما تھی کہ کوئی اپنی بچگانی سی عادت (ریزگاری) کو کتاب کا ٹائٹل کیسے چُن سکتا ہے ؟
زندگی جاری رہی اور ریزگاری حسبِ عادت جمع ہوتی رہی۔ کسی تصرف میں نہ آنے کے سبب اب اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا ۔
افسانے زیادہ تھے اور صفحات کی گنجائش بہت کم ۔
مجبوراً دو افسانے نکالنے پڑ گئے ۔
آخری لمحوں میں نکالے گئے دو افسانوں میں ، عرصے سے ٹائٹل کیلئے منتخب شدہ کنول کا پھول بھی شامل تھا ۔
حیرت انگیز طور پر یہ افسانہ میں نے کتاب سے حذف کروا دیا اور ریزگاری کو چن لیا ۔
یہ بہت مشکل لیکن لمحاتی فیصلہ تھا ، اس بے اعتنائی پر کنول کا پھول مرجھا گیا لیکن اس کی جڑوں میں زندگی اب بھی باقی ہے۔
زندگی جاری رہی اور ریزگاری ہمیشہ کی طرح میرے دھن کی صورت جمع ہوتی رہی ۔
ایک دن گاؤں واپسی کے سفر پر بھوک بہت زیادہ تھی اور جیب میں پیسے بہت کم لیکن بیگ میں کئی مہینوں کی جمع شدہ ریزگاری موجود تھی ۔
مٹھی بھر کر سِکے نکالے تو خدا جانے کیوں دل بھاری ہونے لگا ، میں نے مٹھی کھول دی اور گھر تک بھوکا چلا گیا ۔
بارہا شدید ترین ضرورت کے باوجود بھی انہیں خرچ کرنے کیلئے میں اپنے دل کو آمادہ نہ کر سکا ۔
تصویر میں ، یکم جنوری 2023 سے چودہ اکتوبر 2023 بروز ہفتہ یعنی آج کے دن تک جمع کی گئی میری 288 دنوں کی ریزگاری موجود ہے ۔
گن کر دیکھا تو کل ملا کر 652 روپے جمع ہوۓ پڑے تھے ۔
اب کتاب شائع ہو گئی ہے ۔
ریزگاری ٹائٹل میری زندگی کا ایک انمٹ حصہ بن چکا ہے کہ یہ میری اور میری اولین کتاب کی پہچان ہے۔
آج ساری ریزگاری نکال کر بازار گیا ہوں ۔ دکانداروں سے ریزگاری کا تبادلہ کیا اور ساڑھے چھ سو روپے متبادل پیسے لے کر اللہ کے بندوں میں بانٹ دئیے ۔
میری جمع شدہ “ریزگاری” کا اس سے بہتر مصرف شاید اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں