جنت کی چھاؤں میں گزرتے ماہ و سال

اکتیس سال پہلے جب میں نے اس دنیا میں اپنی آنکھیں کھولیں تو شفقت و حلاوت کا ایک ایسا احساس مجھ سے ہمکلام ہوا جس سے میں، نو ماہ پہلے سے ہی آشنا تھی۔۔وہ تھی ماں۔۔۔نرم بوسوں سے میری روح میں توانائی بھرنے والی ماں، مجھے اپنی آغوش میں لیے گھنٹوں دیکھتی رہتی، میں ذرا سا کسمساتی تو ماں جان لیتی کہ اب مجھے بھوک لگی ہے۔ایک لمحے کی بھی دیر ہونے پر میں آسمان سر پر اٹھا لیتی اور مجھے چپ کروانے کی تگ و دو میں ماں ہلکان ہو جاتی اور جب میں ہنستی تو ماں ایسے خوش ہوتی جیسے دنیا بھر کے خزانے ہاتھ لگ گئے ہوں، رات کو جب سارا گھر سو رہا ہوتا ماں میرے ساتھ کھیل رہی ہوتی، میں تھوڑی دیر سوتی، تب بھی مجھے گود میں لیے بیٹھی رہتی اور صبح ہوتے ہی پھرمیرے چاؤ چونچلوں میں لگ جاتی۔ ماں میری ہر ضرورت بنا کہے جان لیتی، شاید اسی لیے اللہ کریم نے اپنی محبت کی مثال ماں کی محبت سے واضح کی ہے۔ میری خوشی کیلئے اپنی خواہشوں کی قربانی دینا جیسے اس کے لیئے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا تھا، اپنے منہ کا نوالہ میرے منہ میں ڈال کر بھوک کے احساس سے بے خبر ہو جاتی، ہر وقت میری پریشانی میں مبتلاء۔

مجھے چلنا سکھایا، اپنی ہتھیلیاں میرے پاؤ ں کے نیچے رکھ کر راستے کی صعوبتوں سے بچایا، دنیا کی بھیڑ میں لوگوں کی پہچان کروائی، تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ جب بھی مجھے کوئی مشکل درپیش ہوئی ماں نے دعا کیلئے ہا تھ اٹھائے اور مشکل آسان کرا دی، ایثار و قربانی کے اس مرقع نے زندگی سہل بنا دی، راحتوں سے بھر دی، میری خوشیوں کیلئے پے در پے مشقتیں برداشت کرنے والی اس ہستی نے کبھی مجھ سے کوئی خراج طلب نہیں کیا اور سچ تو یہ ہے کہ میں اس قابل ہوں بھی نہیں کہ اس کی بے لوث چاہتوں کا کوئی خراج ادا کر سکوں،میں تو صرف اس ایک رات کا بدلہ نہیں دے سکتی جب وہ میرے آرام کیلئے خود گیلے بستر پر سوئی۔
ماں کے بالوں میں اتری چاندی نے مجھے کندن بنا دیا اور خود اس عمر کو پہنچی کہ چلتی ہے تو تھک جاتی ہے، بیٹھتی ہے تو اٹھا نہیں جاتا، اس کی بھوک، پیاس، نیند سب مر چکا، پھر بھی میری زندگی میں ذرا سی بے ترتیبی پر ایسے حواس باختہ ہو جاتی ہے جیسے اس وقت ہوا کرتی تھی جب مجھے ان صبح و شام سے کوئی رغبت نہ تھی، ماں کی گود ہی بس کُل کائنات تھی۔ آج بھی جب دل اداس، طبیعت بوجھل ہو تو لوگوں کے سمندر میں ماں ہی آخری کنارہ معلوم ہوتی ہے۔ اللہ نے کہا کہ اے جن و انس اس زمین و آسمان کی حدود سے اگر نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ،اور جہاں جاؤ گے اسی کی سلطنت ہے۔ ماں کے وجود کی مثال بھی ایسی ہی ہے، ایک ایسی سلطنت کہ اس کا باسی اس کی حدود سے کبھی باہر نہیں نکل سکتا، اولاد ساری دنیا گھوم لے، جہاں مرضی چلی جائے لیکن ماں کا وجود ہی اس کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے، اس سکون کا کوئی مقابلہ نہیں جو ماں کی گود میں سر رکھ کر بہائے آنسوؤں سے ملتا ہے۔ جب میں گھر پر نہیں ہوتی تھی تو ماں میرے لیے کھانا بچا کر رکھتی آج بھی یہ عادت باقی ہے۔ جب تک میں کھانا نہیں کھا لیتی، اس وقت تک ہولتی رہتی ہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں چھوٹی تھی، تب حالات کچھ ساز گار نہ تھے۔ اس کے باوجود زندگی کا کسیلا پن کبھی محسوس نہ ہوا تھا کیوں کہ ماں نے کبھی محسوس ہونے ہی نہ دیا تھا۔بچپن میں بہت سے کھانے پسند نہ تھے۔ دال پکتی تو میں غصہ ہوتی کہ کیوں ہر دوسرے روز دال پکا لیتے ہیں، کوئی اچھی چیز نہیں گھر میں پک سکتی کیا۔ ماں میرا منہ دیکھتیں اور اٹھ کر کچن میں چلی جاتیں اور ایک انڈے کا آملیٹ بنا کر میرے سامنے رکھ دیتیں، سب دال کھا رہے ہوتے اور میں آملیٹ، سب دھنیے کی چٹنی کھا رہے ہوتے اور میں اس دیسی گھی کی چُوری جو ماں دودھ کی بالائی جمع کر کر کے بنایا کرتی تھیں۔ کریلے پکتے تو اس کے چھلکے دھوپ میں رکھ کر سکھاتیں اور بعد میں چنے کی دال میں وہ چھلکے ڈال کر لذیز سالن تیار کر لیتیں۔ رات کے کھانے کے بعد میٹھا ضرور بنتا، ماں آٹے کا حلیرہ بناتیں اور سب انگلیوں سے چاٹ چاٹ کر پیالیاں صاف کرتے۔ ماں کی صحت اب اجازت نہیں دیتی لیکن یہ منظر آج بھی اکثر اپنی چھب دکھلاتا ہے۔

میں نے اپنی ماں جیسی سگھڑ عورتیں بہت کم دیکھیں ہیں۔ماں کو یہ بات پسند نہیں کہ چیزیں بکھری پڑی رہیں، بے ترتیبی انہیں پریشان کر دیتی ہے۔ یہ الگ بات کہ زندگی کبھی ترتیب میں نہ آسکی، ستارے گردش میں رہے حالات کے چکر نے جوانی میں ہی بڑھاپے کی دہلیز پر لا کھڑا کیا اور میں نے دہلیز کے اس پار سوا نیزے پر چمکتے سور ج کو کبھی غروب ہوتے نہیں دیکھا۔ جہدِ مسلسل کا نا ختم ہونے والا سلسلہ۔

ایک روز میں نے پوچھا کہ آپ ذرا ذرا سی بات پر اتنی پریشان کیوں ہو جاتی ہیں؟ تو جواب ملا، ماں ہوں نا۔۔۔اور باقی الفاظ منہ میں ہی رہ گئے کہ آنکھیں آنسوؤ ں سے جھلملا گئیں تھیں۔ میں بس دیکھتی اور سوچتی ہی رہ گئی کہ کیا ہے ایسا جو ماں کے وجود میں نہیں۔ چاندنی راتوں کی ٹھنڈک، سورج سی گرمی، شہد سی مٹھاس، پھولوں سی نرمی، سمندروں سی گہرائی، ندیوں سی بے چینی، موجوں کا جوش، چکوری کی تڑپ، رم جھم برستی چاہت، کلیوں سی شفاف مسکراہٹ۔۔ ماں ہنستی ہے تو اسکی آنکھوں میں پرندوں جیسی معصومیت ہوتی ہے۔

کئی بار ایسا وقت بھی آیا جب میرے مزاج کی سختی نے ماں کے نازک شیشے جیسے دل کی ہزار کرچیاں کی لیکن مجھے پروا بھی نہیں ہوئی کہ میں نے کیا قیامت برپا کی ہے کیوں کہ میرے پاس وقت ہی نہیں تھا یہ اندازہ لگانے کا۔ دوست،احباب، میرا حلقہ وسیع ہو چکا تھا، ماں کی روک ٹوک پر کبھی کبھی ایسا لگتا کہ جیسے ماں دور کسی کہکشاں سے آئی ہے اور میں آج اکیسویں صدی کی پیداوار، ہمارے نظریے، سوچنے کا ڈھنگ سب کچھ ایک دوسرے سے مختلف، ہر بات پر ماں کو یہ کہہ کر خاموش کرا یتی کہ امی آپ کو نہیں پتا۔ اب خیال آتا ہے کہ یہ سب ماں نے ہی تو سکھایا تھا، یہ اسی کی تربیت تو ہے جو رگوں میں لہو کیساتھ گردش کر رہی ہے۔لیکن آج میں سارا کریڈٹ کالج اور یونیورسٹی کو دیتی ہوں۔

ہماری زندگی میں ماں ایک ایسا ہمراز ہے جو منتشر سانسوں سے دل کا بھید جان لیتی ہے،یہ ماں ہی ہے جس سے ہم اپنا ہر دکھ سکھ بانٹ لیتے ہیں ورنہ کسے اتنی فرصت کہ دوسرے کے زخموں پر مرہم رکھے۔
زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم
صحبتِ مادر میں طفل ِسادہ رہ جاتے ہیں ہم (اقبال)

ماں اور اولاد کی پریشانیوں میں بڑا فرق ہوتا ہے، بچے زمانہ دیکھتے ہیں اور ماں صرف بچوں کو۔ اسے کسی دوسرے کی پرواہ نہیں ہوتی،کبھی میری طبعیت میں کوئی چڑ چڑا پن آجاتا ہے،کسی بات کا ٹھیک سے جواب نہ دوں تو ناراض نہیں ہوتی بلکہ باقی بہن بھائیوں سے بار بار استفسار کرتی ہیں کہ کیا ہُوا اُسے، مجھے بتا نہیں رہی،شاید طبعیت ٹھیک نہیں یا کسی سہیلی سے لڑائی ہوگئی ہے۔ ان کا سارا وقت ایسے ہی قیاس کے گھوڑے دوڑاتے گزر جاتا ہے۔

ماں میری مصروفیات میں سے اپنے لیے دس منٹ مانگتی ہے اور میں صرف دو منٹ بھی دے دوں تو اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی۔ مجھے اپنی دوستیاں، ان کی خوشی کے دن یاد رہتے ہیں، انہیں وش کرنا بھی نہیں بھولتی لیکن یہ پوچھنا بھول جاتی ہوں کہ ماں کیسی طبعیت ہے، کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔

کچھ روز پہلے ماں نے ایک فرمائش کی کہ بیٹا آپ کو نوکری مل جائے تو وہ فلاں چیز مجھے لا کر دینا۔ میں نے دیکھا کہ کتنی بے بسی تھی ان آنسو بھری آنکھوں میں اور میں نے سنا کہ کتنی حسرت تھی اس لہجے میں، اس ماں نے اپنی ہر آرزو، چاہت میرے نام کردی، میرے لیے اپنا دل مارا۔ اتنی شفیق ہستی کہ مسکرائے اور اولاد پیار سے دیکھ لے تو ایک ہی پل میں اسے حج اکبر کروا دے، ایسی ماں کو لاکھوں سلام۔ میں دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں مجھے اس بات کا یقین رہتا ہے کہ ایک ہستی ایسی ہے جو ہر لمحہ دست دعا دراز کیے میری حفاظت اور بھلائی مانگ رہی ہے۔

ممتاز کڑے دور سے گذرے مگر اب تک
میں تیری دعاؤں سے ہوں آباد،بہت ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

اور ہم ایسے بد نصیب اور کج فہم کہ ہم نے ماں کی محبت کو ایک دن تک محدود کر دیا، اس کے حقوق کو فراموش کر کے اپنی دنیا میں مست ہوگئے۔ اللہ مجھے دس بار زندگی دے اور میں ماں کی خدمت کروں تب بھی اس کا حق ادا کرنے سے قاصر رہوں گی۔ نیا میں کوئی ایسی ڈکشنری نہیں جس میں ایسے الفاظ ہوں جو ماں کی محبت کو بیان کر سکیں اور کوئی ایسی کتاب نہیں جو ماں کے جذبات کی ترجمانی کر سکے اور ان جذبات کی ترجمانی تو دور کی بات ہے، ہم تو اس عظیم ہستی کی سوچ کو بھی نہیں پا سکتے، ہماری ہستی کا ادھورا پن
صرف ماں کے وجود سے مکمل ہے۔اللہ کریم ہماری ماؤں کو سداہنستا مسکراتا رکھے اور جن کی مائیں اس دارِ فانی سے پردہ کر چکی ہیں ان کو جنتِ الفردوس میں اعلیٰ درجات نصیب فرمائے۔آمین۔

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply