میرٹھ چھاؤنی،کیمپ نمبر 28میں گزارے22ماہ(24)-گوہر تاج

ایسے انسان کی آپ بیتی  جنہوں نے باوجود صدمات کو جھیلنے  کے اپنی زندگی کے ان واقعات کو دہرانے کی خواہش ظاہر کی جس کے وہ عینی شاہد تھے تاکہ تاریخ کے صفحات پہ انکے سچ کا اضافہ ہوسکے۔یہ داستان ہے 64سالہ ڈاکٹر انور شکیل کی، جو آج کینیڈا کے شہری ہیں ۔ انہوں نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ایک اُردو زبان بولنے والے بہاری خاندان میں آنکھ کھولی ۔ اور سقوط ڈھاکہ کے سانحہ اور جنگ میں ہارنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ انڈیا کے شہر میرٹھ کی چھاؤنی کے کیمپ نمبر 28 میں زندگی کے 22 ماہ کی قید کاٹی۔

23ویں قسط کا لنک

قسط24

میڈیکل کالج سے مسیحائی  تک

وہ ستر کی دہائی  کا پاکستان تھا جب دو مخصوص تعلیمی شعبوں میں داخلے کاحصول زندگی میں کام یابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ میڈیسن اور انجینئرنگ ۔قطع نظر اس کے کہ آپکا فطری رجحان کیا ہے پورا سماج اس بات پہ یقین رکھتا تھا کہ محض ڈاکٹر اور انجینئر ہی ذہانت کے معیار پہ پورے اُترتے ہیں۔گو آج یہ سوچ کچھ بدل گئی ہے اور بچے مختلف شعبوں میں اپنی فطری صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں  اورپیسے کما رہے ہیں۔ ایسٹ پاکستان سے لُٹے پُٹے آنے کے بعد اپنے حالات بدلنے کا ہمارےپاس ایک ہی حربہ تھا۔ تعلیم، بھائی  جان انجینئر نگ کی تعلیم کے لیے این ای ڈی میں داخل ہوچکے تھے اور میرا داخلہ ۱۹۷۸ء میں ڈاؤ میڈیکل کالج میں ہوگیا تھا۔ اس لحاظ سے مجھے ۱۹۸۳ء میڈیکل کی تعلیم مکمل کر لینی چاہیے تھی  لیکن سیاسی حالات دگرگوں ہونے کے باعث امتحانات ملتوی ہوتے رہے۔ اس طرح میڈیکل کی تعلیم ہم نے۱۹۸۵ء میں مکمل کی۔

ڈاؤ میڈیکل کالج جو اس وقت کی بہترین درسگاہ سمجھی جاتی تھی آج ڈاؤیونیورسٹی آف ہیلتھ سائینسز میں تبدیل ہوچکی ہے۔ وہاں مشرقی پاکستان سےآنے والے طالب علموں کی خاصی تعداد تھی۔تعداد اور قابلیت کی وجہ سے ایک دھاک سی بن گئی تھی لہٰذا پہلے کی طرح اپنے بہاری ہونے پہ کسی قسم کی تمسخر کاسامنا نہ تھا۔میں اپنی تعلیم اور ٹیوشنز میں مصروف رہتا تھا ۔ یہ ضیاالحق کا دورتھا۔  اس زمانے میں ہماری ایک تنظیم” ایسٹ پاکستانی اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی”(EPSAC) بنی تھی جس کا میں پہلے ممبر اور پھربعد میں صدر منتخب ہوگیا تھا۔تنظیم کے مقاصد میں مشرقی پاکستان میں پھنسے ہوۓ طلباء کو واپس لانا اور ان کی مدد کرنا شامل تھا۔اس سلسلے میں مظاہرے اور جلوس نکلتے۔ ایسے ہی ایک مظاہرےمیں میرا ایک ڈھاکہ کے زمانے کا دوست سراج انور اور دوسرا تنویر دونوں کو گرفتارکرلیا گیا تھا۔ جنہیں ہم چھڑوا کر پھولوں کے  ہار پہنائے  ہوۓ ڈی ایم سی لے کر آۓ تھے۔

ہمارا بقیہ وقت تعلیم میں محنت کرنے اور اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ٹیوشنزپڑھانے میں کٹ جاتا۔میرے تعلیمی دور کے پسندیدہ استاد کشف الدجٰی تھے ،جواناٹومی پڑھاتے تھے ۔ جن کے لیکچر کو سننے کے لیے سو فی صد حاضری ہوتی تھی۔اتفاق سے وہ بھی بہاری تھے۔

ہمارا ملیر کا گھر چھوٹا تھا قدرے مشکل ہوتی ،پڑھائی  کرنے میں اب دِقت ہونے لگی تھی۔لہٰذا اپنے دوست رضوان الحق کے مشورے پہ میں نے ہوسٹل منتقل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ہوسٹل کا فاضل خرچہ بھائی  جان نے اٹھایا۔ معاشی تگ ودو میں کچھ بہتر ی اُس وقت ہوئی  جب بھائی  جان نے ۱۹۷۹ء میں این ای ڈی سے بی ای کے بعد ملازمت شروع کی۔یوں اب ابّی کے ساتھ بھائی  جان کی ملازمت کی وجہ سے گھر میں بتدریج مالی آسودگی آنے لگی۔ میں نے بھی ۱۹۸۵ء ایم بی بی ایس کے بعد ہاؤس جاب اورپرائیویٹ ہسپتال میں نوکری شروع کردی تھی۔جونیجو پروگرام کے تحت سرکاری نوکری ہوئی  ،لیکن پوسٹنگ دادؤ سندھ میں ہوئی ۔ اندرون سندھ کے حالات کی وجہ سےاس ملازمت کو قبول نہ کیا۔ کراچی میں بغیر اثرورسوخ کے کسی بڑے ادارے میں ملازمت ایک دیوانے کا خواب ہی تھی۔

اپریل ۱۹۸۷ء میں ملیر سعود آباد میں اپنی کلینک شروع کی۔ دن کو کلینک میں پریکٹس اور رات کو سٹی ہاسپٹل ملیر میں رات کی شفٹ کرتا۔

ادھر ہم نے اپنے اقتصادی حالات کو مزید بہتر کرنے کی جدوجہد کا آغاز کیا تو ادھر ملک میں کوٹہ نظام کے خلاف اردو بولنے والے مہاجروں نے ۱۴ اگست ۱۹۸۶ء کو ایک سیاسی جماعت “مہاجر قومی موومنٹ” کے قیام کا اعلان کیا ۔جو مہاجروں کی حقوق کی علمبردار کی داعی اور ان کی حق تلفی کے خلاف ملک گیر تحریک کا عزم رکھتی تھی۔

۱۹۸۷ء میں ملکی سیاست اپنے زوروں پہ تھی۔سندھی ، مہاجرین، پٹھان ، پنجابی غرض سبھوں کے مابین فسادات ہونے لگے۔خاص کر کراچی ہنگاموں اور شورشوں کی زدمیں تھا۔اسی دوران سترہ اگست ۱۹۸۸ء میں پاکستان کے صدر جنرل ضیاالحق ایک فضائی  حادثے میں جاں بحق ہوگئے جس کے بعد ملک میں سالوں سے نافذ مارشل لاءکاخاتمہ ہوا۔ یہ جمہوری فضا ملکی انتخابات کے لیے زرخیز تھی۔ لہٰذا نومبر ۱۹۸۸میں الیکشن ہوۓ ۔ کراچی میں مہاجر قومی موومنٹ جس کے روح رواں اسک ے بانی الطاف حسین تھے، انکی پارٹی تواتر سے انتخابات جیتتی رہی۔۱۹۹۰ء میں حالات بظاہرسمٹتے نظر آرہے تھے۔

میری شادی جنوری ۱۹۹۰ء میں ہوئی ۔ میری اہلیہ بھی عائشہ بھی ڈاکٹر تھیں اورانہوں نے سندھ میڈیکل کالج سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی تھی۔ ہماری پہلی بیٹی کی ولادت اکتوبر ۱۹۹۱ میں ہوئی۔اب زندگی کی گاڑی قدرے سکون سے چل رہی تھی۔میری بیگم صاحبہ نے ہرگام پہ میرا ساتھ دیا۔اس طرح ہماری سخت محنت سے کلینک بہت اچھی طرح سیٹ ہو گئی۔ مجھ سے پہلے بھائی  جان اور دو بہنوں کی شادیاں بالترتیب ۱۹۸۴ء ، ۱۹۸۵ء اور ۱۹۸۸ء میں ہوچکی تھیں۔ ہم لوگ ملیر سے فیڈرل بی ایریامیں ۱۹۸۴ء میں اور ۱۹۹۱ء میں فیڈرل بی ایریا سے گلشن اقبال کے علاقے میں منتقل ہوگئے۔اس دوران بھائی جان ۱۹۹۱ء میں سعودی عرب ملازمت کرنے جا چکے تھے۔ اب ہمارے گھر میں والدین ، ایک چھوٹی بہن اور بھائی  ہی تھے۔ ظاہر ہے اس میں اب ہماراننھا سا خاندان بھی شامل تھا۔ بعد میں ایک اور بیٹی کا اضافہ ہوگیا تھا۔میری بچیوں کے نام رابعہ انور اور دانیہ انور ہیں۔

مشرقی پاکستان سے لٹ پٹ کے آۓ کے بعد

اب ایک بار پھر ہمارا گھر معاشی طور پہ آسودہ تھا۔ سخت محنت اور تعلیمی کامیابی سے ہم وہاں پہنچ گئے تھے جو ہمارا ہدف تھا۔اب ہمارے بچے اچھے اسکولوں میں پڑھ رہے تھے۔ سب والدین کی طرح ہمارا خواب بھی بچوں کی تعلیم اور روشن مستقبل تھا۔

لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہم بس ایک حد  تک ہی اپنی تقدیر بنا سکتے ہیں۔ اسکے بعد لگتا ہے کہ بے بس ہیں۔ ہمیں کچھ ایسا ہی ہوتا نظر آرہا تھا۔دسمبر۱۹۹۶ء میں ابّی ملازمت سےسبکدوش ہوگئے لیکن ایک بار پھر ہنگاموں نے ملک میں پڑاؤ ڈال دیا۔ آۓ دن کے ہنگامے،ہڑتال ، اسکول بند ، کاروبار اور سرکاری کاروبار میں تعطل عام ہوچکی تھی ۔ ظاہر ہے ان حالات میں کلینک بھی بند ہوجاتا۔

دگرگوں ملکی حالات کے پیش نظر ایک بار پھر ملک میں جنرل مشرف کا مارشل لاء نافذہوگیا۔ جس کے بعد ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۵ء تک قدرے سکون رہا۔ لیکن مسائل اگر جڑ سے نہ حل کیے جائیں تو مکمل بہتری کی توقع کس طرح رکھی جاسکتی ہے۔ یہ جزوی سکون تھا۔ اسکے بعد بھتہ، چندہ اور اسی قسم کے جرائم عام ہو چکے تھے۔ کوئی  خوش قسمتی سے  بچ سکا تھا،ان شہر میں دندناتے مجرموں کی زد سے۔غرض کوئی  شہری بھی خود کو محفوظ نہیں محسوس کرتا تھا۔لا قانونونیت اپنے عروج پہ تھی۔ منصفوں کے ہاتھ بندھے ہوۓ تھے ، مجرموں نے دستانے پہنے ہوۓ تھے۔اور جو جانتا بھی تھا وہ مخبری کے سبب اپنی  جان کے جانے کے خوف سے سچ کے آگے سینہ سُپر نہ ہو پاتا۔

سبھی کوجان تھی پیاری سبھی تھے لب بستہ

بس اک فراز تھا ظالم سے چپ رہا نہ گیا

فروری میں میری بیگم عائشہ انور نے کالج آف فزیشن اینڈ سرجن سے اسکن کی بیماریوں کا سرٹیفیکٹ حاصل کرلیا ۔ اسکے بعد ۱۹۹۸ء میں ہم نے گلستان جوہر میں ایک اور کلینک شکیل اسکن اینڈ جنرل کلینک کے نام سے شروع کردی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply