میرٹھ چھاؤنی،کیمپ نمبر 28میں گزارے22ماہ(23)-گوہر تاج

ایسے انسان کی آپ بیتی  جنہوں نے باوجود صدمات کو جھیلنے  کے اپنی زندگی کے ان واقعات کو دہرانے کی خواہش ظاہر کی جس کے وہ عینی شاہد تھے تاکہ تاریخ کے صفحات پہ انکے سچ کا اضافہ ہوسکے۔یہ داستان ہے 64سالہ ڈاکٹر انور شکیل کی، جو آج کینیڈا کے شہری ہیں ۔ انہوں نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ایک اُردو زبان بولنے والے بہاری خاندان میں آنکھ کھولی ۔ اور سقوط ڈھاکہ کے سانحہ اور جنگ میں ہارنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ انڈیا کے شہر میرٹھ کی چھاؤنی کے کیمپ نمبر 28 میں زندگی کے 22 ماہ کی قید کاٹی۔

گُلوں میں رنگ بھرے باد ِنو بہار چلے!

ہم پورے دن لاہور شہر گھوم کے واپس آۓ اور لاہور کیمپ میں ایک رات قیام کے لیے رُکے تواس وقت سب کا ہی سوال تھا کہ کراچی پہنچ کے آخر پہلے کس کے گھر قیام ہو۔ اس سلسلے میں امی کی حتمی راۓ تھی کہ عمر کے حساب سے سب سے پہلے بڑے ماموں کومیزبانی کا حق ہے۔ میرے بڑے بھائی   پہلے ہی بڑے ماموں کے گھر رہ رہے تھے۔ ماموں کےدو بیٹے تھے ۔ جو ہمارے کزن ہی نہیں اچھے دوست بھی تھے۔بعد کے سالوں میں ایک کزن کا میڈیکل کالج میں داخلہ ہوگیا جبکہ بھائی  جان کا انجینئرنگ کالج میں ۔جس کےبعد بھائی  جان کے مقابلہ میں میری دوستی اپنے کزن سے زیادہ ہوگئی کیونکہ کچھ سال بعد میرا داخلہ بھی میڈیکل کالج میں ہوگیا تھا۔

اس طرح شرف آباد ، کراچی میں بڑے ماموں کی رہائش گاہ ہم سب کے لیے پہلا سائبان ثابت ہوئی ۔ ہمارے استقبال میں بہت پُراہتمام کھانا بنا تھامثلاًپلاؤ ، قورمہ اور اسکےعلاوہ بھی عمدہ قسم کے کھانے جو عرصے سے دیکھنے کو بھی نہیں ملے تھے۔ہم سب نے سَیر ہوکر کھانا کھایا۔پھر سونے کا وقت آگیا۔لیکن اتنے عرصے کیمپ میں رہنے کےبعد گھر کی پُرسکون فضا میں خوشی کے مارے نیند ہی نہیں آرہی تھی۔ سب تا دیرباتیں کرتے رہے اور ایک دوسرے کا احوال سنتے اور سناتے رہے۔پروگرام کے مطابق تین دن یہاں گزارنے کے بعد ہم منجھلے ماموں جان کے گھر سعود آباد ، ملیر منتقل ہوگئے۔ اس دن رمضان کی ۲۶ تاریخ تھی۔ اور تین چار دن بعد عیدالفطر تھی۔ لیکن کسمپرسی کے عالم میں کیسی عید کی تیاری ۔ ہمارے لیے تو یہی خوشی کیا کم تھی کہ دوسال  بعد ہم آزادفضا میں عید منا رہے تھے۔منجھلے ماموں کے گھر کچھ دن گزارنے کے بعد ہم سنجھلےماموں کے گھر رہنے چلے گئے۔

عید گزرنے کے بعد ابّی فکر مند ہوۓ کہ اب روزگار کا کچھ انتظام ہونا چاہیے۔ خوش قسمتی سے کراچی آنے کے دو ہفتہ بعد ہی ابّی کو ایک ٹریول ایجنسی میں بطوراکاؤنٹنٹ ملازمت مل گئی۔ جب ایک مناسب ٹھکانے اور روٹی کا سہارا ہوا تو اگلامرحلہ ہماری تعلیم کے انتظام کا تھا۔

ہمارے ماموں زاد بھائی   ظفر  ہمارے داخلے کے لیے اس اسکول لے گئے جہاں سےانہوں نے میٹرک کیا تھا۔اسکے بعد میٹرک بورڈ آفس سے جاکر نویں جماعت میں داخلےکی اجازت لی۔ اس طرح ظفر بھائی  کی کوششوں سے ہمارا داخلہ ملیر کے ایک سرکاری اسکول میں ہوگیا۔پھر دونوں چھوٹی بہنوں کا بھی قریبی اسکول میں داخلہ ہوگیا۔ یہ ابتدائی مراحل تھے ایک غیر مانوس شہر میں زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنے کے۔ دوسال بعد باقاعدہ اسکول شروع کرنا آسان نہ تھا ۔ جہاں میں خوف اور گھبراہٹ کی کیفیت سے گزر رہا تھا وہیں ایکبار پھر اسکول شروع کرنے کی خوشی بھی بہت تھی۔ہاتھ میں کتابیں کاپیاں لیے پیدل اسکول جاتے وقت ملے جلے جذبات کا ریلہ بھی میرےساتھ محو ِ سفر تھا۔

کراچی جیسے ماڈرن شہر میں رہنا ہمارے لیے اچنبھے کی بات نہ تھی۔ امی ہر سال دوسال پہ اپنے میکہ ملنے آتی  تھیں ۔اسی طرح ہمارے ماموں وغیرہ بھی اپنے خاندان سمیت مشرقی پاکستان آتے تو ہمارے گھر ہی رہتے۔ ہم سب میں ایک دوسرے سے یگانگت  اور  محبت تھی ۔ البتہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں خاصا فرق تھا۔ اونچی عمارتوں ، کشادہ سڑکوں اور روشنیوں کے شہر کراچی ، جسے آدھی رات کو بھی اونگھ نہیں آتی ، کے مقابلے میں ڈھاکہ سادہ مکانوں، پتلی سڑکوں، تنگ گلیوں اور جدیدیت سے دور لیکن فطرت کے حُسن سے قریب دلکش شہر تھا۔ اردو تو ہم بھی بولتے تھے لیکن ہمارا لہجہ کراچی کے اردو بولنے والوں سے واضح طور پہ جدا اور منفرد تھا۔ “میں”کےبجاۓ “ہم” کا صیغہ ہی منہ سے ادا ہوتا۔ الفاظ کی ادائیگی میں جو خاص لہک تھی وہ اس بات کی چغلی کھاتی کہ ہم مشرقی پاکستان سے آنے والے بہاری ہیں۔ ہمارا مذاق اُڑاتے وقت غالباً کسی کے گمان میں بھی نہ ہوتا ہوگا کہ ہم کن حالات سے گزر کے یہاں پہنچے ہیں۔ ان کی حالات سے لاعلمی میں میڈیا کا بھی کردار رہا ہوگا کہ جس نے کبھی اس سانحہ کی حقیقی اور مکمل تصویر مغربی پاکستان کی عوام کے سامنے پیش نہ کی۔ ریڈیو ، ٹی وی اور اخبارات کے لب سیاسی مفادات کی نذر ہو گئے تھے۔ حقائق کوبیان کرنا تلخی اور شرمساری کا باعث بنتا ،لہذا سچ کا گلا گھونٹ کر تاریخ سے منہ چرایا گیا۔

شروع شروع میں کلاس کے چند لڑکوں نے ہمارے بولنے کے انداز اور تلفظ کا مذاق اُڑایا۔سب کہتے تھے یہ تو لٹے پٹے مہاجر ہیں۔ غریب اور مسکین ۔مجھے آج بھی چار نومبر۱۹۷۳ء کی تاریخ یاد ہے جب اسی کلاس میں میرے ایک دوست بن گئے جن کا نام اصغرصدیقی تھا اور جو میرے  دفاع میں اِن مذاق اڑانے والے لڑکوں سے لڑ پڑے تھے۔ انہوں نےان لڑکوں کو اپنے رویے سے باز رہنے کو کہا اور پھر جب وہ نہ مانے تو وہ لڑ پڑے۔ میرےلیے یہ اس وقت ان کی بہت بڑی سپورٹ تھی۔

جلد ہی اس کلاس میں جہاں ہمارا بہت مذاق اڑایا جاتا تھا ،وہاں   ہماری پڑھای کا رعب بھی پڑ گیا۔ کیونکہ ہم پڑھائی  میں ، خاص کر انگریزی میں بہت اچھےتھے۔مشرقی پاکستان میں پڑھائی  کا معیار یقیناً  بہت بہتر تھا۔اب اساتذہ بھی ہمیں بہت پسند کرنے لگے ۔ لیکن محلے میں ابھی بھی خاصا مذاق اڑتا تھا۔ایک دفعہ میں نے دکان پہ جا کر کہا” چار ٹھو انڈے دے دو۔” جس پر دکاندار نے تمسخر انہ انداز میں کہا۔ “انڈےتو ہیں لیکن ٹھو نہیں ہے ہمارے پاس۔”

تین ہفتے گزرنے کے بعد ابّی نے سعود آباد میں ایک گھر خرید لیا ۔ اس معاشی دگر گوں حالت میں اسٹیٹ لائف انشورنس کے وہی کاغذات کام آۓ جو ہم دو سال اپنے پا جامے کےنیفے  میں چھپا کر بچا لاۓ تھے۔ان کاغذات سے 14  ہزار روپے ملے تھے جس سے اس زمانے میں گھر خریدا جا سکتا تھا۔یہ نومبر ۱۹۷۳ء کی بات ہے۔ اس وقت امی کی دانشمندی آج ہمارے کام آرہی تھی۔

ابّی اپنی ملازمت میں مصروف ہوگئے تھے ۔ انکی آمدنی محدود تھی اور اخراجات بڑھ رہے تھے۔ بھائی  جان کا داخلہ این ای ڈی یونیورسٹی میں ہوگیا تھا ۔ وہ ٹیوشنز پڑھاکے اپنے فاضل اخراجات پورے کر رہے تھے۔ میرا داخلہ اسکول کی دوپہر کی شفٹ میں ہُوا تھا۔ اسکول میں اچھی کارکردگی کی وجہ سے حوصلہ افزائی  ہورہی تھی۔ بھائی جان کے نقش قدم پہ چلتے ہوۓ میں نے بھی ایک ٹیوشن پکڑ لی تھی۔ جو میں اسکول کے بعد پڑھاتے ہوۓ گھر واپس آتا تھا۔

نویں کے بورڈ کے امتحان کی تیاری شروع ہوگئی تھی ۔ اسکول میں بورڈ کی طرف سےامتحانی فارم ملے تھے۔ کیمپ میں رہنے کی وجہ سے فارم بھرنے اور فہرستیں بنانے کااچھا تجربہ ہوچکا تھا۔ لہٰذا میں نے دس منٹ ہی میں فارم پُر کر لیاتھا۔ اسکے بعد کلاس روم ٹیچر نے پوری کلاس کے فارم بھرنے کی ذمہ داری مجھے ہی دے دی ۔اب وہ لڑکے بھی جو میری اُردو اور بہاری لہجے کا مذاق اڑاتے تھے، مجھ سے فارم بھروانےآرہے تھے۔

ابّی نوکری تو کر رہے تھے لیکن ہم تنگدستی کا شکار تھے۔ اکثر ہمارے پاس اتنے پیسےنہیں ہوتے تھے کہ کاپیاں خرید سکیں۔ اس زمانے میں ڈبل روٹی کاغذ کے لفافے میں آتی تھی جس کے اندر کا حصہ سادہ ہوتا تھا۔ اسکے علاوہ اور بھی چیزیں کاغذ کے لفافےمیں ملتی تھیں۔ پلاسٹک شاپر کا رواج نہ تھا۔ہم ان لفافوں کو جمع کر کے کاپی کے طورپہ استعمال کرتے تھے۔نویں جماعت میں بیالوجی کا مضمون لیا تھا ۔میں اس کی ڈائیگرام (اشکال) کی مشق گھر کے دروازوں پہ چاک سے کیا کرتا تھا۔

اپریل ۱۹۷۴ء میں جب نویں جماعت کا نتیجہ نکلا تو میں اسکول میں سب سے زیادہ یعنی ۷۹ فی صد نمبر لے کو اوّل آیا تھا۔ابھی دسویں جماعت کی پڑھائی  میں کافی وقت تھا لہٰذا میں نے کچھ اور ٹیوشنز پڑھانی  شروع کردیں۔ لوگوں کی میری قابلیت پہ اعتبار آنے لگا تھا جبکہ خود میرا اپنی ذات پہ اعتماد بڑھ گیا تھا۔ زندگی بتدریج اپنےمعمول پہ آنے لگی تھی۔ امّی  اسی تنگدستی میں کنبہ کی خانہ داری کو پوری ذمہ داری سے ادا کرنے میں مصروف تھیں۔

۱۹۷۵ء میں ، مَیں نے میڑک کا امتحان پورے اسکول میں سب سے زیادہ نمبر لے کے پہلی پوزیشن میں پاس کیا۔ جبکہ دوسری پوزیشن میرے دوست اصغر کی تھی جس نے ہمیشہ میرا بہت ساتھ دیا تھا۔

اب انٹر میں داخلے کا مرحلہ آیا۔لیکن چونکہ مارکس اچھے تھے لہٰذا داخلہ میں کوئی مشکل نہ ہوئی ۔ بھائی  جان اس مرحلے سے پہلے ہی گذر چکے تھے لہٰذا انہوں  نے مجھےبہت اچھی طرح ساری باتیں سمجھا دیں تھیں۔ان کا مشورہ تھا کہ چونکہ وہ انجینئرنگ پڑھ رہے ہیں لہٰذا میں میڈیکل سائیڈ پہ جاؤں اور ڈاکٹر بنوں۔ میں نے انکی ہدایت پہ عمل کیا۔ اور داخلے کے لیے اپلائی کردیا۔ گو میرا کسی بھی کالج میں داخلہ ہوسکتا تھا، میں نے گھر کے نزدیک ڈرگ کالونی میں واقع سپیرئیر سائنس کالج میں داخلہ لے لیا۔ جب داخلہ ملنے والوں کی لسٹ لگی تو اس میں ایک شناسا نام سراج انورکا بھی تھا۔ جو کہ نہ صرف میرے ڈھاکہ کے اسکول کے ساتھی تھے بلکہ کیمپ نمبر ۲۸میں ہمارے ساتھ جنگی قیدی بھی تھے۔

اب میری انٹر کی پڑھائی  اور ساتھ ہی ٹیوشنز بھی زور وشور سے جاری تھیں ، لیکن ساتھ ہی ملکی سیاست میں بھی الیکشن کی وجہ سے گرمی آگئی تھی۔ سات مارچ۱۹۷۷ ء میں پاکستان میں عام انتخابات ہوۓ ۔ اس انتخابات میں برسر اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے مقابل تمام سیاسی جماعتوں نے اتحاد کرلیا تھا ۔ الیکشن میں بہت سے دوسرےسنجیدہ نعروں کے ساتھ “نو ستارے بھائی  بھٹو ان کا دولہا بھائی “ کا نعرہ بھی عام تھا۔ اس متحدہ تحریک کو تحریک نظام مصطفٰی کا نام دیا گیا تھا۔ جب الیکشن کےنتائج سامنے آۓ تو مخالف جماعتوں نے بھٹو کی حکومت پہ بد عنوانی کا الزام لگا یااور یوں بظاہر جیتنے والی پیپلزپارٹی  کے خلاف ہنگامہ اور شورشیں بڑھتی ہی گئیں۔ نتیجتاً پانچ جولائی  ۱۹۷۷ء کو ملک میں ایک اور مارشل لاء لگ گیا تھا۔

اس ہنگامے کا نتیجہ یہ ہوا کہ جولائی  ۱۹۷۷ میں ہونے والے انٹر کے امتحانات ہنگاموں کی وجہ سے التواء  کا شکار ہوکر ستمبر ۱۹۷۷ء میں انجام پاۓ۔ ان امتحانات کے نتائج کا اعلان ۸ جنوری ۱۹۷۸ء کو ہوا ۔لیکن چونکہ نتائج کا ضمیمہ نہیں شائع ہوا تھا ، ہم دوستوں نے وہ رات ، اگلی صبح کے انتظار میں ، اپنے ایک دوست کے گھر بے چینی سےگزار دی۔ اگلے دن جب نتیجہ دیکھا تو میری فرسٹ کلاس تھی اور اتنے نمبر تھے کہ باآسانی میرٹ پہ ڈاؤ میڈیکل کالج میں داخلہ ہوگیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply