بھوک کے خلاف جہاد، رابن ہڈ آرمی۔منصور ندیم

چند  رو ز  قبل محترم ابن فاضل کا مضمون دیکھا جو کھانا یا  غذائی ضرورت پر تھا۔ مضمون فکاہیہ انداز میں تھا ، انہوں نے پوری دنیا کی مختلف تہذیبوں کے حوالے سے غذائی ضروریات  کا تذکرہ کیا تھا،بہت اچھا مضمون تھا لیکن میرا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ غذائی ضرورت  اور بھوک کے حوالے سے خاصا تکلیف دہ رہا ہے ۔

کچرے کے ڈھیر میں بیٹھے کچھ بچے ،گندے میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس,سڑے ہوئے پھل ڈھونڈھتے، انگور کے دانے، یا بچے ہوئے روٹی کے ٹکڑے، یا کھانے کے  پیکٹوں میں   بچی ہوئی کوئی چیز، آپ کو پورے پاکستان میں نظر آئیں گے، ہم یہ سب دیکھ دیکھ کر اتنا عادی ہوگئے ہیں کہ اب ہمیں یہ چیزیں عام سی لگتی ہیں ،ایسا لگتا ہے جیسے یہی زندگی ہے۔

لیکن ہم کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے  کہ ہم اپنے گھروں میں ہمیشہ کھانا اضافی ہی بناتے ہیں، ہوٹلوں میں بھی کھانا بچ جاتا ہے، ہمارے گھروں کا بچا ہوا کھانا اکثر گھریلو ملازماؤں کو دے دیا جاتا ہے، اور اچھے  ہوٹلوں کا بچا ہوا کھانا  بھی اکثر ضائع ہی کیا جاتا ہے اور یہی کھانا اس کچرے میں پہنچتا ہے۔اور کچرے سے بھی کچھ لوگ اس گندگی میں ملا جلا اسے  نکال کر اس    سے اپنی غذائی ضرورت پوری کرتے ہیں۔

عالمی  خوارک کے ادارے کے اعدادو شمار کے مطابق  دنیا میں ۹۰ کروڑ  لوگ رات کو بھوکے سوتے ہیں، دنیا کی  ۸ ارب کی کل  آبادی میں سے ۹۰ کروڑ لوگ روزانہ  رات کو بھوکے سوتے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر آٹھواں یا نواں آدمی  ہر روز بھوکا سوتا ہے۔

دوسری طرف پوری دنیا میں ۷ کروڑ روپے کی مالیت کا تیار کھانا ہر روز ضائع کیا جاتا ہے  اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے تیار کھانے کا تیسرا حصہ ہم ضائع کرتے ہیں۔اس سارے ضائع شدہ کھانے میں کتنے وسائل خرچ ہوچکے ہوتے ہیں۔ اسے بنانے کے لئے کتنی غذائی اجناس ، پانی اور ایندھن خرچ ہوتا ہے اس کا تخمینہ بھی بہت زیادہ ہے۔پاکستان میں ۵ برس سے کم عمر ہر چوتھا بچہ ناکافی غذائی ضرورت  کا شکار ہے، یعنی پاکستان کی کل آبادی کا ۲۲ فیصد حصہ غذا کی کمی کا شکار ہے ۔بدقسمتی سے یہ اب پاکستان میں ایک معمولی بات سمجھی  جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں غربت ہے۔ جبکہ پاکستان دنیا میں خوراک پیدا کرنے والا  آٹھواں بڑا ملک ہے ۔ کیا یہ ہماری جہالت نہیں ہے؟ کیا یہ ہماری لا علمی، ناشکری نہیں ہے؟پاکستان میں  یہ المیہ بد قسمتی سے  اس مذہب کے ماننے والوں کا ہے جس مذہب میں  پہلا حق بھوکے کا ہے۔

World Hunger Index کے مطابق دنیا کے دو حصوں میں بھوک موجود ہے ایک افریقہ اور دوسرا جنوبی ایشیا، یعنی پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش۔ان مالک میں تقریبا ۳۱  فیصد لوگ ایسے ہیں جو دو وقت کا کھانا با آسانی اپنے موجود وسائل پرنہیں کھا سکتے۔

 

 

 

 

لیکن دنیا میں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو اس ساری صورتحال کا ادراک رکھتے ہیں اور آگے بڑھ کر بھوک کے اس عفریت کو مٹانے کی کوشش کر تے ہیں۔ ہمارے سامنے ایسی ہی ایک مثال رابن ہڈ آرمی  نامی ادارہ ہے( یہ ایک Non Government  Organization  ہے)۔  جو پاکستان اور بھارت سمیت دنیا  بھر کے تقریباً   ۱۳   ممالک میں بھوک کے اس عفریت کے خلاف  جہاد کر رہے  ہیں ۔

بنیادی  طور پر اس ادارے   کی بنیاد کا سہرا لندن  سکول  آف  اکنامکس  کے طالب علم   نیل گھوش نامی نوجوان کے سر ہے جو پرتگال میں رہائش پذیر تھا۔ وہاں اس نے ایسے ہی ایک اور ادارے کو کام کرتے دیکھا  ، جیسے ضائع شدہ کھانے کی ری سائیکلنگ کے خیال پر اس ادارے کا نام  “ری فوڈ”  تھا،جس میں مختلف جگہوں پر بچے ہوئے کھانے کو ری پیک کرکے دوبارہ کارآمد بنانا تھا اور ان لوگوں تک پہنچانا تھا جو باآسانی کھانا Afford  نہیں کر سکتے،  اسی Concept سے متاثر ہو کر نیل نے ایسا ہی قدم بھارتی عوام کے لیے بھی اٹھانے کا سوچا۔

ابھی وہ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اسے فیس بک پر اپنے ہم خیال کچھ پاکستانی دوست جن میں سارہ آفریدی  سر فہرست ہیں ان کے ساتھ اس منصوبے کی بنیاد رکھی۔  اور پھر ان سب نے بیک وقت پاکستان اور بھارت میں بھوک مٹانے کے اس سفر کا آغاز کیا۔مستحق افراد کو کھانا پہنچانے اور بھوک کو ختم کرنے کا عزم لیے اس تحریک کا آغاز  اڑھائی برس  قبل اس دن سے کیا گیا جب ورلڈ کپ  جون  ۲۰۱۴سنہء میں پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ نئی دہلی اور کراچی میں۶ رضا کاروں نے مختلف ریستورانوں سے کھانا جمع کر کے کچی آبادی کے غریب افراد کا پیٹ بھرا، اور اس سلسلے کا آغاز ہو گیا ۔ان نوجوانوں کا مقصد اور طریقہ کار بہت سادہ تھا۔ مختلف ریستورانوں اور ہوٹلوں سے بچ جانے والا کھانا جمع کرنا اور انہیں نادار و مستحق افراد میں تقسیم کرنا۔۶رضا کاروں سے شروع ہونے والی یہ تحریک بھارت سےرابن ہڈ آرمی انڈیا کے نام سے  شروع ہوئی، ۲۰۱۵ میں سارہ آفریدی نے  بھی پاکستان میں آکر اس کی ابتدا کی اور اب     ڈھائی برس بعد اب  اس تنظیم کا دائرہ  ۱۳  ممالک کے ۴۱    شہروں میں پھیل چکا  ہے اور اس میں شامل رضاکاروں کی تعداد  ۸  ہزار سے تجاوز کر چکی ہے

اس تنظیم کا نام ایک مشہور زمانہ  انگریزی تخیلاتی کردار رابن ہڈ  کے نام پر ہے جو امیروں کو لوٹ کر غریبوں کو بخش دیا کرتا تھا۔لیکن یہ تنظیم کسی کو لوٹنے کے  بجائے لوگوں سے ان کا بچا ہوا کھانا مانگ کر   ضرورت مندوں میں تقسیم کرتا ہے ۔ریستوران، ہوٹل اور خصوصاً شادیوں میں جہاں بے تحاشہ کھانا ضائع کیا جاتا ہے جو ہزاروں افراد کا پیٹ بھر سکتا ہے۔خوشحال افراد کے ضائع شدہ اسی کھانے کو کام میں لا کر غریب اور مستحق افراد کے پیٹ بھرنے میں صرف کیا جائے،پاکستان اور انڈیا میں لاکھوں لوگ اپنی سفید پوشی کے بھرم میں بھوکے رہنے پر مجبور ہیں، اس تنظیم کے زیادہ تر رضاکار مختلف کالجز اور یونیورسٹیز کے طالب علم ہیں۔ان طالب علموں نے ایک ایسی اقدار  کو دوبارہ سے زندہ کیا ہے، جو فلاح انسانی کی خدمت کے جذبے کے تحت ہے اور اس کا بنیادی خیال بھی بہت ہی اعلی ہے کہ ممکنہ ضائع شدہ  کھانے کو ان افراد تک پہنچایا جائے جو عام حالات میں اچھا کھانا نہیں کھا سکتے۔

گزرتے وقت کے ساتھ مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگ اس تنظیم کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ہر علاقے کے رابن ہڈ  آرمی  سے وابستہ افراد  یا  ہر رضا کار کو کچھ مخصوص ریستوران اور اس کے مقامی علاقے کی قریبی غریب آبادیوں کا ذمہ دار بنادیا جاتاہے۔ہر رضا کار اکیلا، یا ۲  سے ۳  کی تعداد میں اپنے طے کردہ ریستوران  یا شادی لان سے کھانا جمع کرتے ہیں، (جو ان کے لیے پہلے سے تیار رکھا ہوتا ہے) اس کے بعد وہ انہیں قریب میں موجود مستحق افراد  کی بستیوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ وہاں سے کھانا    ملنے کے بعد اسے مقدار کے اعتبار سے  پیک کرکے وہ  مختلف غریب آبادی اور علاقوں میں  تقسیم کرتے ہیں۔رابن ہڈ  آرمی    کسی قسم کے  چندے یا عطیات پر نہیں بلکہ جذبے، اخلاص اور رضا کاروں  کے دیے  جانے والے وقت پر چل رہی ہے ۔رابن ہڈ آرمی پاکستان میں اس وقت کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں سرگرم ہے جبکہ بھارت کے کئی شہروں میں بھی  کام کر رہی ہے۔

 

 

 

 

 

ابتدا میں انہیں ریستورانوں اور ہوٹلوں کی انتظامیہ سے کھانا لینے  کے لیے بہت تگ و دو کرنی پڑی۔لیکن  اب کئی ریستوران   خود  ہی ان سے رابطہ کر لیتے ہیں کہ وہ اپنے بچے ہوئے کھانے کو مستحق افراد تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ کراچی اور لاہور میں بے شمار ریستوران ہیں جو اس کام میں ان کے ساتھ شامل ہوچکے ہیں۔

رابن ہڈ آرمی تنظیم  کے افراد کا کہنا ہے کہ ان کے رضا کار شادیوں سے بچ جانے والا کھانا جمع کرتے ہیں اور جن دنوں شادیوں کا سیزن ہو توان کی مصروفیات بے تحاشہ بڑھ جاتی ہیں ۔اس مقصد کے لیے ان کے رضا کار آدھی رات کو بھی کھانا جمع کرنے پہنچتے ہیں اور اسی وقت مستحق آبادیوں میں تقسیم بھی کر دیتے ہیں تاکہ صبح تک یہ کھانا خراب نہ ہوجائے۔

ہمارے ملک کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی دقیانوسی رسوم و رواج میں الجھی ہوئی ایک ایسی قوم ہے جہاں شادی، پیدائش سے لے کر جنازے تک پر خرچہ ہوتا ہے۔ شادی پر لاکھوں کے جہیز اور زیور،  پیدائش پر عقیقہ، اور موت بھی خرچے کے بغیر نہیں۔ اور ان مواقع  پر  مختلف انواع کے کھانے تیار کیے جاتے ہیں ۔ ، جہاں ۲۰۰ افراد کے کھانے کی ضرورت ہو وہاں ہم ۴۰۰  افراد کا کھانا بنوانا ضروری سمجھتے ہیں کہ  کہیں ہماری برادری میں ناک نہ کٹ جائے، چاہے اس کے لئے کتنا ہی قرضہ کیوں نہ لینا پڑے  ، ہمارے مقابلے میں دنیا میں ایسی بہت سی اقوام موجود ہیں جن میں شادی، موت اور پیدائش کو سادگی اور آسانی سے منا یا  جاتا ہے، پیسے اور کھانے کا ضیاع نہیں کیا جاتا ۔ لیکن ہم یہ بے جا اخراجات جو کھانوں کی مد میں کرتے ہیں انہیں کبھی ان غریبوں کو نہیں دیتے پاکستان میں افراد کا تعلق چاہے متوسط طبقے سے ہی کیوں نہ ہو عموماً بہت پر تعیش شادیاں منعقد کی جاتی ہیں اور ان میں ضائع ہونے والے کھانے کا شمار کرنا نا ممکن ہے۔ اس تنظیم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ  یہ لوگ ایسی ہی شادیوں اور تقاریب کا بچا ہوا کھانا لے کر انہیں مستحق افراد تک پہنچاتے  ہیں۔

رابن ہڈ  آرمی کے رضا کاروں کا کہنا ہے جب ہم ان بستیوں میں کھانا بانٹنے جاتے ہیں تو وہاں  انہیں ان لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع بھی ملتا ہے اور تب ان پر زندگی ایک نئے پہلو سے ظاہر ہوتی ہے۔کھانے کا انتظار کرنے والے غریب بچے بے حد خوشی، محبت اور شکر گزاری کا اظہار کرتے ہیں جبکہ بڑے انہیں دعاؤں سے نوازتے ہیں۔ یہ سب انہیں خوشی تو فراہم کرتا ہے لیکن وہ دنیا میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور انسانی غیر ذمہ داری اور ریاست کی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کے بارے میں سوچ کر افسردہ ہوجاتے ہیں ۔پاکستان میں موجود رابن ہڈ آرمی رضا کار اب ان غریب علاقوں میں چھوٹے پیمانے پر  سکول قائم کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں تاکہ یہ غریب بچے اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کے ساتھ ساتھ علم کی پیاس بھی بجھا سکیں ۔

 

 

 

 

ہمارے مقابلے میں دوسری قومیں آسان زندگی گزارتی ہیں، ان کی ریاستیں ان کو تعلیم، صحت اور انشورنس جیسی سہولیات فراہم کرتی ہیں، مانا ہماری ریاست اور ریاست کے تمام مقتدر حلقوں کو  ان مسائل کا  نہ ہی احساس ہے اور نہ ہی  مسقتبل کے لئے کوئی  لائحہ عمل ترتیب دیا گیا ہے،لیکن انفرادی حیثیت سے اور کچھ نہیں تو ہم میں  اتنی ہمت بھی نہیں کہ ہم  اپنی بد بختی کا پرچار خود کر سکیں کہ بحیثیت مسلمان ہی ہم اس بات کا ادراک کریں کیونکہ ہمارا خالق ‘اللہ  کریم    قرآن  میں ایسے شخص کو بدبخت کہتا ہے۔ جو مسکین کو کھانا کھلانے کی بھی  ترغیب نہیں دیتا۔کم سے کم ایسے لوگوں کو ان وقتوں میں ہی یاد رکھ لیں جب ہمارے پاس ہماری ضرورت سے اضافی کھانا  موجود ہو!

Save

Save

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply