• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(چوالیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(چوالیسواں دن)۔۔گوتم حیات

چھتیس گڑھ کے اس غریب خاندان پر کیسا کڑا وقت آیا ہو گا کہ انہوں نے اپنی کم عمر اکلوتی لڑکی سینکڑوں کلو میٹر دور مرچوں کے کھیت میں کام کرنے کے لیے بھیج دی اور پھر کرونا کے سبب ہونے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ زندہ سلامت گھر نہیں پہنچ سکی۔ گھر پہنچنے کے لیے کٹھن راستوں میں مستقل پیدل چلتی ہوئی “جمالو” اپنی جسمانی توانائی جب کھو چکی تو اچانک لڑکھڑا کر گر پڑی اور یوں اس کی زندگی اختتام پذیر ہوئی۔

جمالو اور اس جیسے کروڑوں پاکستانی اور ہندوستانی بچے اٹھارہ سال سے کم عمر ہونے کے باوجود اپنے کنبے کی کفالت کر رہے ہیں۔ غریب والدین کے یہ مزدور بچے روزانہ کی معمولی اُجرت کے عوض اپنی سکت سے بڑھ کر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کا بچپن عام بچوں کی طرح اپنے والدین سے کہانیاں سنتے ہوئے نہیں بلکہ مشقت کی بھٹی میں گھومتے ہوئے، کربناک کہانیاں تخلیق کرتے ہوئے گزرتا ہے۔ یہ وہ کہانیاں ہیں جو کہیں نہیں سنائی جا سکتیں کیونکہ ان کے تخلیق کار دن بھر کی مشقت سے تھک ہار کر جب اپنے گھروں میں پہنچتے  ہیں تو اس قابل نہیں ہوتے کہ کوئی کہانی سنا سکیں، لیکن ہم ان کہانیوں کے جیتے جاگتے کرداروں کو اپنے اردگرد باآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ اسی لیے یہ ہم پر فرض ہے کہ ان بچوں کی کہانیاں لکھیں اور انہیں دوسروں تک پہنچائیں۔
اس وقت مجھے “اللہ  والی کالونی” میں چپلی کباب فروش کی دکان پر کام کرنے والا ایک کم عمر لڑکا یاد آرہا ہے۔
لاک ڈاؤن سے پہلے میں تقریباً روز ہی شام کے وقت اس کالونی میں بنے ہوئے چائے کے ہوٹل میں جایا کرتا تھا۔ وہاں پر کوئٹہ شاہین ہوٹل کے نام سے بنا ہوا چائے کا ہوٹل میری پسندیدہ جگہ تھی (ہے)۔ اس ہوٹل کو میں اپنا دوسرا گھر بھی کہتا ہوں۔ پچھلے کچھ سالوں کے دوران مجھے وہ جگہ اتنی زیادہ پسند آئی کہ میں نے مختلف اوقات میں وہاں پر جانا شروع کر دیا۔ جب بھی کام سے فارغ ہوتا تو گھنٹے، دو گھنٹے کی مسافت طے کر کے وہاں پہنچ جاتا اور گھنٹوں وہیں پر گزار دیتا تھا۔
ایک دن میں دوپہر کے وقت کام سے جلدی فارغ ہو گیا تو اپنے دوست دانیال کو فون کر کے کہا کہ تم اللّہ والی کالونی کے ہوٹل آجاؤ، آج دوپہر کو ہم وہاں پر چپلی کباب کھائیں گے۔ دانیال میری کباب والی بات پر کافی خوش ہوا، اس خوشی کی ایک وجہ تھی وہ یہ کہ بنیادی طور پر میں 80 فیصد ویجیڑیرین ہوں اور عموماً گوشت سے پرہیز کرتا ہوں لیکن کبھی کبھی کھا بھی لیتا ہوں۔ اس دوپہر میں دانیال کے ساتھ کوئٹہ شاہین ہوٹل کے سامنے بنے ہوئے چپلی کباب کی دکان پر کباب کھانے گیا۔
وہاں ایک بوڑھا سا آدمی دن کے اوقات میں بڑی سی کڑاہی میں کباب تل رہا ہوتا ہے اور اس کے قریب ہی تین چھوٹے چھوٹے بنچ رکھے ہوتے ہیں جن پر بیٹھ کر گاہک کباب کھاتے ہیں۔ وہ لوگ کباب کے ساتھ چٹنی، سلاد اور روٹی بھی فراہم کرتے ہیں۔ روٹی وہ خود نہیں بناتے بلکہ قریب کے نان فروش سے لے کر آتے ہیں۔ اس دکان میں صرف دو ہی فرد ہیں ایک وہ بوڑھا آدمی جو کباب تلتا ہے اور دوسرا فرد جو بھاگ بھاگ کر گاہکوں کو پلیٹوں میں یہ لوازمات ڈال کر دیتا ہے، ایک کم عمر سا بچہ ہے۔
اس بچے نے جب ہمارے سامنے کباب لا کر رکھے تو ہم نے اس سے پوچھا کہ یہ کباب تلنے والا بوڑھا آدمی کیا آپ کا والد ہے؟ اس نے ہمیں بتایا، نہیں وہ میرا کچھ نہیں لگتا، میں اس کے پاس کام کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے ہمیں مطلع کیا کہ اگر کچھ اور چاہیے ہو تو بتائیے گا، پھر وہ اس آدمی کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ اس کے انداز سے ہم سمجھ گئے تھے کہ وہ اپنے مالک کے ڈر کی وجہ سے ہم سے بات کرنے سے کترا رہا ہے۔ ہم کباب کھانے میں مصروف ہو گئے اور چپکے چپکے  اس کی طرف بھی دیکھتے رہے۔
میں اور دانیال اس بچے کے لیے فکرمند سے ہو گئے۔ دانیال نے کہا کہ یہ بچہ اتنی سی عمر میں کتنا سمجھدار سا لگ رہا ہے اور میں نے دانیال کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے اسے کہا کہ ہمیں اس بچے سے اس کی عمر پوچھنی چاہیے اور یہ بھی پوچھنا چاہیے کہ وہ دن میں کتنے پیسے کماتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد ہم نے بہانے سے اس کو آواز دے کر اپنے پاس بلایا، آتے ساتھ ہی اس نے پوچھا کیا اور روٹی یا کباب لے کر آؤں۔۔۔ ہم نے کہا ہاں لے آؤ لیکن ایک بات بتاؤ تم کتنے سال کے ہو اور کتنی تنخواہ ہے تمہاری۔۔۔ وہ اچانک ان سوالوں سے پریشان ہو گیا اور کہنے لگا آٹھ، نو سال کا ہوں اور مجھے ہر روز مالک پیسے دیتا ہے۔۔۔ ہم نے پوچھا کتنے پیسے دیتا ہے مالک؟ اس نے کہا ہر روز شام کو جب کام ختم ہو جاتا ہے تو مالک مجھے ڈھائی سو روپے دیتا ہے۔ اس کے جواب پر میں اور دانیال حیرانگی کے ساتھ ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے لگے۔ ہم نے اس سے مزید پوچھا ،اچھا تم رہتے کہاں ہو اور پیسوں کا کیا کرتے ہو۔۔۔ اس نے کالونی سے دور ایک علاقے کا نام لیا اور بتایا کہ میں پیسے امّی کو جا کر دیتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ واپس اپنے مالک کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ اس دوپہر کباب فروش کے بینچ پر بیٹھے بیٹھے میں نے دانیال سے کہا تھا۔۔
“دیکھو دانیال کتنی تنگ دستی ہے ہمارے شہر میں۔۔۔ اب یہ چھوٹا بچہ ڈھائی سو روپے دیہاڑی پر صبح گیارہ بجے سے شام پانچ بجے تک کام کرتا ہے۔۔۔ مہنگائی کی وجہ سے کتنی مشکل سے گزارہ کرتی ہو گی اس کی فیملی۔ یہ بچہ جس کی ابھی کھیلنے کی عمر ہے لیکن غربت نے اس کو دیہاڑی دار مزدور بنا دیا ہے۔۔۔ اس جیسے لاکھوں بچے بنیادی تعلیم اور صحت کی سہولیات سے محروم مختلف جگہوں میں مشقت کر رہے ہیں”۔
آج وہ بچہ مجھے شدت سے یاد آ رہا ہے۔ لاک ڈاؤن کو اب تقریباً پینتالیس، چھیالیس دن بیت چکے ہیں۔ اس عرصے میں اس بچے کے گھر کا خرچہ کس طرح سے چل رہا ہو گا۔۔۔ کیا حکومت یا فلاحی اداروں کی طرف سے اس کے گھر پر راشن پہنچا ہو گا۔۔۔
نوے کی دہائی کے درمیانی سالوں میں اخبارات پر ایک بچے کی تصویر کا بہت چرچا تھا۔ کالے رنگ کا کمزور ناتواں سا بچہ (اصل میں وہ بچی کی تصویر تھی) زمین پر جھکا ہوا ہے، قریب ہی اس کے ایک بڑا سا گدھ بھی موجود ہے۔ “اپّی” نے ہمیں تصویر دکھاتے ہوئے افسردگی کے ساتھ بتایا تھا۔۔
“دیکھو یہ حالت ہے افریقہ میں بچوں کی، لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے، بچے راستوں میں بےیار و مددگار پڑے ہوئے ہیں، ذرا اس کالے بچے کو دیکھو کھانا نہ ملنے کی وجہ سے کتنا کمزور سا ہے اور یہ اس کے قریب جو پرندہ بیٹھا ہوا ہے اس کو گدھ کہتے ہیں، یہ ان کو کو کھاتا ہے جو مر جاتے ہیں، کسی زندہ انسان یا پرندے، جانور کو اس وقت تک نہیں کھاتا جب تک وہ مر نہ جائیں۔ شاید یہ کالا بچہ اب مرنے کے قریب ہے اس لیے گدھ قریب بیٹھ کر اس کی موت کا انتظار کر رہا ہے، جب یہ بچہ مر جائے گا تو گدھ اس کو کھائے گا۔۔۔ اس  تصویر میں  تو صرف ایک بچہ ہے لیکن اس جیسے لاکھوں بچوں کا یہی حال ہے”
ہم ڈر گئے تھے اس وقت وہ تصویر دیکھ کر۔۔۔ ایسا لگتا تھا کہ اس بچے کی جگہ میں زمین پر پڑا ہوا ہوں اور گدھ میری موت کے انتظار میں پاس ہی بیٹھا ہے۔
ہم بڑے ہوتے گئے اور وہ تصویر بھی ہمارے ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ میں نے کئی بار اس تصویر کو بعد کے سالوں میں بھی مختلف رسالوں میں دیکھا، پھر جب انٹرنیٹ کا زمانہ شروع ہوا تو وہ تصویر مختلف ویب سائیٹ پر نظر آئی، میں ہمیشہ اس تصویر کو دیکھ کر نظرانداز کر دیتا تھا۔ مجھے اُس گدھ سے نفرت ہو گئی تھی اور میں یہی سوچتا تھا کہ”وہ کمزور بچہ جلد ہی مر کر اس گدھ کے پیٹ میں چلا گیا ہو گا”۔
اس لیے میں نے اس بات کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ وہ بچہ کون تھا۔۔۔ کس فوٹوگرافر نے وہ تصویر بنائی تھی۔۔۔۔ افریقہ میں وہ تصویر کس علاقے میں کھینچی گئی۔۔۔ اور میں اس بات سے بھی لاعلم تھا کہ وہ ایوارڈ یافتہ تصویر تھی اور جس فوٹوگرافر نے اس تصویر کو اپنے کیمرے میں محفوظ کیا وہ بعد میں خودکشی کر لیتا ہے۔ گزشتہ رات یہ تمام سوالات میرے ذہن میں اچانک آئے۔ جب ان کے بارے میں تفصیلات دیکھیں تو مجھے اُس ناتواں بچی کے ساتھ ساتھ اُس فوٹوگرافر کی المناک موت پر بھی دکھ ہوا۔ کاش “کیوِن کارٹر” خودکشی نہ کرتا۔۔۔
کاش وہ زندہ رہ کر اس دنیا کے بےحس حکمرانوں کے مردہ ضمیروں کو جھنجوڑتا۔۔۔ (ان کا ضمیر تو اس وقت بھی نہیں جاگا تھا جب جنگ سے تباہ حال سیریا سے ہجرت کرنے والے ایک خاندان کے کمسن بچے کی لاش ساحل پر پڑی ہوئی ملی تھی۔ پچھلے کچھ سالوں میں ہزاروں کی تعداد میں شامی خاندان جنگ سے متاثر ہوئے، کئی بچے اپنے والدین سمیت بمباری کے دوران ہلاک کر دیے گئے، یمن میں بھی گزشتہ کچھ سالوں سے یہی کہانیاں دہرائی جا رہی ہیں) میرا ذاتی خیال ہے کہ وہ فوٹوگرافر (کیوِن کارٹر) بےقصور تھا جو محض اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے وہاں سے گزرا تھا اور اس نے وہ المناک مناظر اپنے کیمرے میں محفوظ کر لیے۔۔۔
وہ بچہ (بچی) اور اُس جیسے کئی کروڑوں بچوں کو اس دوراہے پر پہنچانے کی اوّلین ذمہ داری حکومتوں پر عائد ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ “اقوامِ متحدہ” بھی ان جرائم میں برابر کی قصور وار ہے۔
ویران راستوں اور جدید شہروں میں غربت کے سائے میں، جنگ و بربریت کی فضا میں پروان چڑھتے ان بچوں کی حالتِ زار پر حکومتی نمائندوں میں سے کوئی خودکشی نہیں کرتا۔۔۔ اگر کوئی ان معصوموں پر ترس کھاتا ہے تو وہ یہ بہادر فوٹوگرافر ہیں جو اپنی زندگی کو دوسروں کی خاطر قربان کر دینے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
“ابن انشاء” نے اس دنیا کے ایسے ہی بچوں کے لیے ایک شاہکار نظم تخلیق کی تھی۔ جس کا عنوان تھا”یہ بچہ کس کا بچہ ہے”، اس نظم میں درد کا علاج بھی وہ برسوں پہلے بتا کر رخصت ہوئے تھے۔ مگر افسوس کہ ابھی تک وہ روشن دن طلوع نہیں ہوا جب بھوک سے بلکتے ان بچوں کے آنسوؤں کو کوئی پونچھ سکے اور ان کے ننگے بدنوں کو کسی صاف شفاف اجلے لباس سے ڈھانپ سکے۔ یہ ایک طویل نظم ہے، یہاں پر میں اس کا منتخب حصہ شامل کر رہا ہوں۔۔۔ ابنِ انشاء فرماتے ہیں۔۔

یہ بچہ کالا کالا سا
یہ کالا سا مٹیالا سا
یہ بچہ بھوکا بھوکا سا
یہ بچہ سوکھا سوکھا سا
یہ بچہ کس کا بچہ ہے
جو ریت پہ تنہا بیٹھا ہے
نہ اس کے پیٹ میں روٹی ہے
نہ اس کے تن پر کپڑا ہے
یہ تنہا بچہ بیچارہ
یہ بچہ جو یہاں بیٹھا ہے
اِس بچے کی کہیں بھوک مِٹے
(کیا مشکل ہے، ہو سکتا ہے)
اِس بچے کو کہیں دُودھ ملے
(ہاں دُودھ یہاں بہتیرا ہے)
اِس بچے کا کوئی تن ڈھانکے
(کیا کپڑوں کا یہاں توڑا ہے؟)
اِس بچے کو کوئی گود میں لے
(انسان جو اب تک زندہ ہے)
پھر دیکھیے کیسا بچہ ہے
یہ کِتنا پیارا بچہ ہے!

اب ہم ماضی سے حال کی جانب آتے ہیں جہاں پر بہت کچھ بدل گیا ہے۔ صحافی حضرات ڈیوٹی کے دوران خراب سے خراب صورتحال میں بھی ناتواں لوگوں کی مدد کے لیے آگے بڑھ کر روشن مثالیں قائم کر رہے ہیں۔ اس دوران اگر کچھ نہیں بدلا تو وہ ہے حکومتی نمائندوں کا رویہ، جس میں بے حسی اور خودغرضی نمایاں ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوہے کی طرح یہ مضبوط سے مضبوط تر ہوئی ہے۔ کاش اس مضبوط لوہے کو کبھی زنگ لگ سکے۔۔۔
پچھلے دو، چار دنوں سے “پولٹزر پرائز” ایوارڈ کا تذکرہ سوشل میڈیا پر زوروشور سے چل رہا ہے۔ صحافیوں کے لیے یہ ایک اہم ایوارڈ ہے۔ “پُولٹزر پرائز” امریکہ میں جرنلزم کا ایک معتبر ایوارڈ مانا جاتا ہے۔ پہلی بار اس ایوارڈ کا اجراء 1917 میں اخبار کی اشاعت کرنے والے مسٹر جوزف پولٹزر کی خواہش پر ہوا۔ یہ ایوارڈ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔
اس سال دوہزار بیس کا “پولٹزر پرائز ایوارڈ” برائے فیچر فوٹوگرافی کے لیے ایسوسی ایٹڈ پریس کے چنی آنند، مختار احمد اور ڈار یاسین کو دیا گیا۔
ڈار یاسین کی کہانی کچھ یوں ہے کہ آج سے کچھ عرصہ پہلے وہ اپنی روزمرہ ڈیوٹی کی انجام دہی کے لیے سرینگر میں ہونے والے ایک احتجاج کو کور کر رہا تھا۔ ہائی  سکول طالبات کی طرف سے سکیورٹی اہلکاروں کے خلاف ہونے والے احتجاج میں بہت سی لڑکیاں شامل تھیں۔ نعروں کے شور میں یہ لڑکیاں اپنے مطالبات کے حق میں آگے بڑھ رہی تھیں کہ اچانک ایک پتھر کسی لڑکی کی پیشانی پر آکر لگتا ہے، اس لڑکی کا اسکارف اور سفید یونیفارم خون سے داغدار ہو جاتا ہے، بارہویں جماعت کی وہ لڑکی جس کا نام خوشبو جان ہے، پیشانی پر لگنے والے پتھر کے زخم سے نڈھال ہو چکی ہے۔ قریب کوئی ایسا نہیں جو فوری طور پر اس کی مدد کو آئے۔ وہاں موجود “ڈار یاسین” اس کیفیت میں احتجاج کی کوریج کو نظرانداز کرتے ہوئے زخمی لڑکی کی مدد کو آگے بڑھتا ہے، وہ اپنا کیمرہ ایک دوسرے کولیگ کو دے کر زخمی لڑکی کو اپنی بانہوں میں اٹھا کر گاڑی کی طرف بھاگتا ہے۔ “ڈار یاسین” کے ساتھ ہی دوسری طالبات جن میں اس لڑکی کی دوستیں بھی شامل ہیں بھاگ رہی ہیں۔۔۔ آخر وہ لوگ بروقت ہسپتال پہنچ کر “زخمی لڑکی” کی زندگی بچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
اس واقعے کے بعد “ڈار یاسین” اپنے ایک انٹرویو میں کہتا ہے کہ
“میں نے اُس لڑکی کی دوستوں کو بتایا کہ میری دو بیٹیاں ہیں۔ یہ لڑکی ان ہی میں سے ایک ہے۔ اگر آپ دو لڑکیوں کے باپ ہو یا اگر آپ کسی بھی بچے کے باپ ہو تو آپ کسی بھی بچے کو اس حالت میں دیکھ کر بےیار و مددگار نہیں چھوڑو گے”
اب میں مختصر طور پر ڈار یاسین اور مختار احمد کی گزشتہ سال کھینچی گئی دو تصویروں کو علیحدہ علیحدہ بیان کر کے اپنی اس قسط کا اختتام کر رہا ہوں۔
سرینگر میں 31 مئی 2019 کے دن ہونے والے احتجاج میں چہرے پر نقاب لگائے ہوئے ایک آدمی پولیس کی بکتر بند گاڑی کے بونٹ پر اچھل کر پتھر مار رہا ہے۔ اس تصویر کو احتجاج کے دوران ڈار یاسین نے اپنے کیمرے میں محفوظ کیا۔
مختار خان کی کھینچی ہوئی تصویر میں سرینگر کی رہائشی “منیفہ نظیر” نامی چھ سالہ بچی اپنے گھر کے باہر کھڑی ہوئی تھی کہ پیراملٹری فورسس کی طرف سے ماری گئی ماربل گیند اس کی دائیں آنکھ پر آکر لگی جس کی وجہ سے اس کی آنکھ متاثر ہوئی۔
یہ دونوں تصاویر اور اس کے علاوہ ان تینوں فوٹو جرنلسٹوں (آنند، مختار اور ڈار) کی کھینچی ہوئی کچھ اور تصویریں پولٹزر کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں۔ جو دیکھنا چاہے وہ باآسانی ان کو سائٹ پر جا کر دیکھ سکتا ہے۔
میں اس قسط کی وساطت سے ان تمام بہادر جرنلسٹوں کو مبارک بار پیش کرتا ہوں، اور امید کرتا ہوں کہ یہ اسی حوصلے اور بلند ہمتی سے عوام تک حقائق پر مبنی تصاویر اور خبریں پہنچاتے رہیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply