اور میں نم دیدہ نم دیدہ (8)-ابوبکر قدوسی

یہ کوہ صفا ہے ۔۔۔۔۔اس سے اور بھی بہت یادیں جڑی ہوئی ہیں ۔ رسولِ اکرم و مکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس روز کوہ صفا کے پاس سے ہی گزر رہے تھے کہ ابوجہل کا سامنا ہو گیا ۔ حسبِ معمول اس نے مکرم و معظم نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے بدزبانی کرنا شروع کی ، اتنی کہ شدتِ احساس سے آپ کے چہرے پر اثرات طاری تھے ۔ اس نے مگر آج اس بدزبانی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ آپ کے سر پر پتھر دے مارا ۔ آپ کا سر زخمی تھا لیکن آپ چلے آئے ۔
میں جب جب بھی رسول مکرم پر قریش اور خاص طور پر ابو جہل کے ڈھائے ستم پڑھتا ہوں تو دل کی عجب کیفیت ہو جاتی ہے ۔ آج ہم گرمیوں میں ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم کمروں میں بیٹھ کر مسلمانوں کے گھر میں جنم لے کر اور ہزار سہولتوں والی زندگی گزار کر سمجھتے ہیں کہ مسلمان ہونا اتنا ہی آسان تھا ۔ یہ ہمارے لیے آسان ہوا وگرنہ ہمارے رسول نے اسلام کی دعوت پھیلانے کے لیے جو مشکلیں برداشت کیں وہ اس قدر زیادہ تھی کہ پہاڑوں پر آتیں تو وہ ڈھے جاتے ۔
یہ تصور ہی آنکھوں سے برسات کر دیتا ہے کہ ہمارے حضور ادھر ہی کہیں بیٹھے تھے ، ادھر ہی کسی روز گزرے تھے ، ادھر کسی جگہ نماز پڑھ رہے تھے ۔۔۔۔
کوئی بدبخت سجدے میں غلاظت ڈال گیا ، کسی نے آواز لگائی کہ مجنون ہے ، کسی نے ساحر کی پھبتی کسی ۔۔۔ شاعر کا اتہام تو جیسے روز کی بات تھی ،
کیا کیا نہ دل پر گزری ہو گی ۔۔۔۔
ہم میں سے کوئی معمولی سا معاشرتی معیار سے بلند ہو جائے اور اسے کوئی ” اوئے” کہہ جائے تو اسے رات بھر نیند نہیں آتی ۔۔۔۔
اور وہ جو کائنات کے معزز ترین آدمی تھے
جو ایک پلڑے میں تھے تو زمین و آسمان اپنے مشمولات سمیت بھی بےوزن و حیثیت ہو گیا ۔
ایسے معزز اور بلند مقام !
ان کے دل پر کیا کیا نہ گزری ہو گی ؟
لیکن !
ایسا کمال بھی آسمان نے نہ دیکھا ہو گا کہ برسوں یہ سب سہا اور ہونٹوں پر کبھی حرف شکایت نہ آیا ۔۔۔۔
یہ تصور ہی آنکھوں کو برسات کر دیتا ہے ، کہ یہیں کہیں ، اسی فضا میں ، اسی مٹی میں زخموں کی گواہی ملی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔اس روز بھی ابو جہل نے کوہ صفا پر آپ کے سر پر پتھر مارا اور آپ کا سر زخمی ہو گیا۔
کچھ دیر میں سیدنا حمزہ ادھر سے گزرے تو عبداللہ بن جدعان کی لونڈی نے انہیں روکا کہ جو تمام تر ماجرا اپنے مکان سے دیکھ رہی تھی ۔ اس نے سیدنا حمزہ سے تمام قصہ کہہ سنایا ۔ وہ کہہ رہی تھی:
” اے ابو عمارہ ! کاش آپ نے اپنے بھتیجے کے ساتھ ابو الحکم عمرو بن ہشام کی بد زبانی دیکھی ہوتی ، وہ یہاں بیٹھے تھے کہ ابو الحکم نے ان کو گالیاں دیں ، بہت اذیت پہنچائی لیکن محمد نے ان سے کوئی بات نہیں کی اور چل دیے”
یہ سب کچھ سیدنا حمزہ کے لیے بہت تکلیف دہ ہوا ۔ سیدھے حرم کعبہ میں پہنچے ۔ ادھر ابوجہل اپنے ساتھیوں میں گھرا بیٹھا تھا ۔ کسی کو کیا معلوم کہ سیدنا حمزہ کے دل میں کیا طوفان بپا تھا ۔ سیدھے ابوجہل کے پاس پہنچے اور کچھ کہے سنے بنا اپنے ہاتھ میں پکڑی کمان اس کے سر پر دے ماری ۔ خون کا فوارہ ابلا تو بنی مخزوم کے کچھ ابوجہل کو بچانے آگے بڑھے اور ساتھ سیدنا حمزہ سے تلخ و ترش ہوئے ۔ کہنے لگے کہ :
“لگتا ہے حمزہ آپ بھی اپنے بھتیجے کے پیچھے لگ کر بے دین ہو چلے ہیں ۔”
اس پر سیدنا حمزہ ترش رو ہو کر بولے :
” کسے جرات ہے کہ اگر میں مسلمان ہوتا ہوں تو روک سکے ۔۔۔ ہاں میں محمد کے دین کو قبول کرتا ہوں ۔۔
یہ الفاظ گو شدت غضب اور بدلے کی آگ میں نکلے تھے لیکن آسمانوں پر قبولیت پا گئے۔۔
بنو مخزوم کے لوگ سیدنا حمزہ سے الجھنا چاہ رہے تھے کہ خود ابو جہل نے ان کو روکا اور کہا :
“لوگو ! تم ابو عمارہ کی بات سے درگزر کرو اس لیے کہ واقعی آج میں نے اس کے بھتیجے کو بہت بری گالیاں دی ہیں ”
سیدنا حمزہ کا یہ موقف بلا شبہ اپنی خاندانی غیرت اور بھتیجے کی محبت کے سبب تھا لیکن اس کے بعد انہوں نے دل سے اسلام قبول کیا اور رسول مکرم کی طرف چل دیے ۔
ان تمام تر تصورات کے ساتھ ہم بھی مقام ابراہیم سے صفا پر کھڑے تھے ۔۔۔۔
کوہ صفا اور کوہ مروہ دو پہاڑیاں ہیں ، ہوا اس روز کچھ یوں تھا کہ کچھ اناج اور ایک مشکیزہ پانی سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے رکھا اور اپنی عزیز از جان اہلیہ حاجر اور پہلوٹھی کے بچے اسماعیل کو اس وادی غیر ذی الزرع میں چھوڑا اور چل دیے سیدہ حاجر کہ کئی روز سے سوچ و بچار میں تھی کہ یہ کیسا سفر اور کس جانب سفر اب جو منزل آئی تو چٹیل پہاڑ اور خرابہ کے دیکھ کر بھی ہول آئے اور عمر بھر کے شفیق مہربان میاں اس خرابے میں ان ماں بیٹے کو چھوڑ کے وآپس پلٹ رہے تھے ۔
سیدہ نے پوچھا :
“ابراہیم ہمیں یہاں کس کے سہارے چھوڑ کے چل دیے”
ابراہیم نے پلٹے بنا جواب دیا کہ:
” اللہ کے سہارے ”
سیدہ نے پھر پوچھا :
” کیا یہ خود کا فیصلہ ہے یا اللہ کا حکم ”
ابراہیم علیہ السلام نے پھر کہا کہ :
“اللہ کا حکم ہے”
سیدہ ہاجر کے لہجے میں ایک دم جیسے اطمینان اتر آیا ، اضطراب ایک گہرے سکون میں بدل گیا اور جیسے کچھ بے نیاز سی ہو کے کہنے لگیں :
” پھر ٹھیک ہے آپ جائیے ، اگر یہ اللہ کا حکم ہے تو وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا ”
ابراہیم علیہ السلام کہ بابل سے آئے تھے اور بابل کو چل دیے ۔ لمبا سفر تھا اور دل بیٹے کی دوری سے کچھ کچھ مضطرب مضطرب ۔۔۔۔ اتنی دور چلے گئے کہ یہ یقین ہو گیا سیدہ حاجر دیکھ پائیں گی ان کو نہ سن پائیں گے ، تو ابراہیم رک دیے ۔نگاہ آسمان کو بلند کی ، ہاتھ اٹھا لیے ، ساری کائنات اس باپ کے اٹھے ہاتھوں میں سمٹ آئی ۔ دل کی ساری محبتیں ابراہیم کے ہونٹوں پر پھول بن کے اترنے لگی ابراہیم کہہ رہے تھے ، اپنے اللہ سے مناجات کر رہے تھے:
(رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ)
الہ العالمین ! میں نے اپنے بال بچوں کو ایک غیر آباد جنگل میں تیرے برگزیدہ گھر کے پاس چھوڑا ہے تاکہ وہ نماز قائم کریں تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکا دے اور انہیں پھلوں کی روزیاں دے شاید وہ شکر گزاری کریں ۔۔
پھر یہ دعا یوں قبول ہوئی کہ میں دیکھ رہا تھا کہ اس خرابے میں اب سہولیات ، سنگ مرمر کا ٹھنڈا فرش ، برقی مشینوں کی ٹھنڈی ہوائیں اور پھر اگر طبع نازک کچھ برہم ہے تو برقی گاڑیاں اور ہتھ ریڑھیاں کہ جن کو خادم دھکیلتے ۔۔۔۔ سب ہی آسان تو ہے ،
لیکن ہماری اماں کے لیے تو ایسا آسان نہ تھا ۔ بیابانی اور خوف کا سناٹا تو دونی مصیبت تھی جو تھی ، بچہ بھی پیاسا تھا اور پانی ندارد !
ماں بےچین ہو کر اٹھی ، ہاں ہماری ماں حاجر !
بیٹے کو زمیں پر لٹایا اور دل کی بےچینی کے ہاتھوں قریبی پہاڑی صفا پر چڑھیں کہ امید کی کوئئ کرن چمکے ۔
آسماں آس لیے ہے کہ یہ جادو ٹوٹے
چپ کی زنجیر کٹے، وقت کا دامن چھوٹے
معلوم تھا اور ہزار بار معلوم کہ دور تک کوئی نہیں ہے کہ
اب یہاں کوئی نہیں ، کوئی نہیں آئے گا
لیکن !
ممتا ایسی مایوس کن باتوں کو حیلہ جو کی کٹ حجتیوں سے بڑھ کر کچھ نہیں جانتی ۔۔۔ سو صفا سے اتری تو پورب کو بھاگی ، مروہ کی پہاڑی آدھ میل کی دوری پر تو رہی ہو گی۔۔۔۔ کچھ چلی ، کچھ بھاگی ، لیکن مروہ کے پیچھے بھی آس ، امید کی کوئی بتی نہ جلی ، پچھم کو پلٹی اور صفا کو آئی ۔۔۔
سات بار یہ آنا اور جانا ، امیدوں کا اترنا اور چڑھنا رہا اور پھر امید کا زمزم اترا ۔ اسماعیل ہی نہیں ہم سب بھی سیراب ہوئے اور نسلوں کی پیاس بجھی ۔
سوچا تو دل بھر آیا ، اپنا آپ بہت حقیر اور کمزور لگا ۔۔۔ برقی مشینوں کی ٹھنڈی ہوائوں میں ، سنگ مرمر کی مہربان ٹھنڈی سلوں پر ، خدام کے ہجوم میں سایہ دار راستے پر ، مجھے اماں حاجر کی مشقت میں زمانے بھر کی ممتا دکھائی دی تو دل یوں بھر آیا کہ مسلسل اپنی ماں بارے رحمتوں کے نزول کی اور اضافے کی دعا کی ۔۔ کہ یہ ماں کا حق تھا ۔۔۔
پھر صفا اور مروہ کے بیچ میں ہماری ماں نے جو ممتا کی بے چینیوں کے ساتھ سائی کی وہ ہمارے لیے لازم ہو گئی ہم صفا سے مروہ اور مرفہ سے صفا کی طرف سات بار آنے اور جانے کے پابند ہوئے ۔ اس روز بی بی صاحبہ جب مروہ سے واپس اتریں تو پھر جیسے آواز آئی کہ کوئی ہے ، آواز کی طرف بڑھیں تو ایک شخص کھڑا پایا ،وہ جبرائیل تھے۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں صفا مروہ کی سعی جو حاجی کرتے ہیں اس کی ابتدا یہی سے ساتویں مرتبہ جب حضرت ہاجرہ مروہ پر آتی ہیں تو کچھ آواز کان میں پڑتی ہے آپ خاموش ہو کر احتیاط کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتی ہیں کہ یہ آواز کیسی ؟ آواز پھر آتی ہے اور اس مرتبہ صاف سنائی دیتی ہے تو آپ آواز کی طرف لپک کر آتی ہیں اور اب جہاں زمزم ہے وہاں حضرت جبرائیل کو پاتی ہیں حضرت جبرائیل پوچھتے ہیں تم کون ہو ؟ آپ جواب دیتی ہیں میں ہاجرہ ہوں میں حضرت ابراہیم کے لڑکے کی ماں ہوں فرشتہ پوچھتا ہے ابراہیم تمہیں اس سنسان بیابان میں کسے سونپ گئے ہیں ؟ آپ فرماتی ہیں اللہ کو فرمایا پھر تو وہ کافی ہے حضرت ہاجرہ نے فرمایا اے غیبی شخص آواز تو میں نے سن لی کیا کچھ میرا کام بھی نکلے گا ؟ حضرت جبرائیل ؑ نے اپنی ایڑی زمین رگڑی وہیں زمین سے ایک چشمہ پانی کا ابلنے لگا۔ حضرت ہاجرہ (علیہما السلام) نے ہاتھ سے اس پانی کو مشک میں بھرنا شروع کیا مشک بھر کر پھر اس خیال سے کہ پانی ادھر ادھر بہ کر نکل نہ جائے آس پاس باڑ باندھنی شروع کردی رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں اللہ ام اسماعیل پر رحم کرے اگر وہ اس طرح پانی کو نہ روکتیں تو زم زم کنویں کی مثل میں نہ ہوتا بلکہ وہ ایک جاری نہر کی صورت میں ہوتا ۔۔۔
میں کہ جیسے تنہا ، صفا پر کھڑا ، اور میرے پیش منظر میں بیت اللہ ، دائیں بائیں جیسے چٹیل میدان دور تک نہ کوئی انسان نہ یہ تعمیرات۔ ۔۔ بس ایک خاتون اپنے بچے کے ساتھ پانی کی تلاش میں کبھی اس پہاڑ سے کبھی اس پہاڑ کبھی اس پہاڑ سے کبھی اس پہاڑ۔۔۔۔۔۔۔۔دیر تک میں کھڑا رہا کبھی یہ بیابان تھا اور اب یہاں پر انسان کہ شمار نہیں کیے جا سکتے ۔ سنگلاخ زمین کی جگہ پر سنگ مرمر کا شاندار فرش بچھا ہوا صفا پہاڑی کے بالائی حصے کو سعودی حکومت نے اس کی اصل صورت میں باقی رکھا ہوا ہے لیکن اس کے گرد شیشے کی تقریبا تین فٹ اونچی ریلنگ لگا رکھی ہے پہاڑی کا تھوڑا سا حصہ جو نظر آتا ہے وہ بھی صاف شفاف ۔ جانے میں کتنے دیر تک کھڑا رہا پھر سعی کا آغاز کیا سعی کے آغاز میں قران کریم کی یہ آیات پڑھی جاتی ہیں
﴿ ۞ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ﴾
اس کے بعد من مرضی کی حاجات طلب کیجئے اور انہی نقوش ائے قدم کو کھوجتے ہوئے چل نکلے کہ شائد کوئی قدم ، کوئی ایک قدم ، ہاں کوئی ایک قدم ماں حاجرہ کے نقش قدم کو چھو جائے اور امر ہو جائے ۔۔۔۔
کچھ آگے بڑھیں تو وہ حصہ آتا ہے کہ جہاں سیدہ حاجرہ چلتے چلتے دوڑتی ہیں ، اس مقام پر ان کے تتبع میں زائرین بھی تھوڑا دوڑتے ہوئے جاتے ہیں ، جبکہ خواتین کو ایسا حکم نہیں وہ معمول سے چلتی ہیں ۔۔ اسی طرح بزرگ اور مریض بھی اس حکم سے آزاد ہیں ۔ صفا اور مروہ کا آپس میں فاصلہ تین سو نوے میٹر ہے ۔ مروہ پر رک کر بھی آپ دعا کر کے واپس چل پڑتے ہیں ۔ اس طرح سات پھیرے لگانے ہوتے ہیں ۔ ہمارے یہ آٹھ چکر تھے کہ واپس کوہ صفا کی طرف آنا تھا ، کہ رہائش اسی طرف تھی ۔
باہر نکلے تو کتنے ہی پاکستانی حجاموں کے ” نمائندے ” تاک میں تھے ۔۔۔ ایک نے نسبتاً زیادہ ہی مسکرا کر بات کی تو ہم نے اسی کو منتخب کیا ۔ پندرہ ریال مانگ کر فوراً ہی دس ریال پر آ گیا ۔۔۔ وہ ہمیں کلاک ٹاور کے نیچے بنی ایک بڑی مارکیٹ میں لے گیا جہاں اکثر دوکانیں پاکستانی حجاموں کی ہی تھیں ۔۔۔ میں نے بال منڈوائے ۔
یہ آخری کام ہوتا ہے اور اس کے بعد انسان احرام کی پابندی سے آزاد ہو جاتا ہے ۔ مجھے اب بھوک لگ رہی تھی سو کلاک ٹاور کے نیچے بنے ایک ہوٹل میں گھس گئے ۔
ابھی تو یہ پہلا دن تھا سو ضرب تقسیم زوروں سے شروع تھی ، انسان جو بھی خریدتا ہے یا کھاتا ہے اسے روپوں سے ضرب دیتا ہے ، پھر پاکستان میں اسی چیز کا نرخ یاد کرتا ہے اور پھر ” لاہور لاہور اے ” کہہ کر ایک ٹھنڈی آہ بھرتا ہے ۔۔۔ اور کھانا کھاتا ہے ساتھ یہ ڈائیلاگ چلتا رہتا ہے کہ ” یار پاکستان ابھی بھی بہت سستا ہے ”
ہمارے ایک دوست کا ” قول زریں” ہے کہ کیلکولیٹر غریبوں کی کلاشنکوف ہوتی ہے ، سو ایسے سفر میں ہر حاجی کے دماغ میں یہی کلاشنکوف چل رہی ہوتی ہے اور” معسکر” آباد رہتے ہیں۔ ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply