بیچنا ہمارا مرغیوں کا۔راشد احمد

 یوسفی صاحب فرماتے ہیں کہ مرغیوں کا صحیح مقام پیٹ یا پلیٹ ہے لیکن غم روزگار کا کیا کیجئے کہ مرغیاں بیچنے کی نوبت بھی یار لوگوں پہ آجایا کرتی ہے۔بات ہے آج سے بارہ پندرہ سال   ادھر کی جب ہم گاؤں میں مقیم تھے اور زمانہ تھا ہمارے اسکول کا۔گھر میں مرغیاں وافر تھیں، سودا سلف کی کمی ہوئی تو اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ایک عدد مرغی بیچ کر گلشن کا کاروبار چلایا جائے۔اب دیسی مرغی کو پکڑنا بھی اچھا خاصا کام ہے۔خیر رات کو ہی اس محاذ پہ کامیابی حاصل کرکے مرغی کو پابہ زنجیر کرکے کمرے میں بند کردیا گیا تاکہ صبح دم شہر جانے والی واحد گاڑی پہ شہر جاکر اسے بیچا جا سکے۔ گاؤں سے شہر جانے والی واحد گاڑی صبح منزل پہ منزل مارتی شہر پہنچتی اور شام ڈھلے واپس آتی۔ گاؤں والے اسی بس پر شہرجاتے اوردس روپے کا سودا خریدنے کے لئے پورا دن شہر میں گزارکر واپس آتے تو کھانا نہ ملنے پر بیویوں کی تواضع کرتے۔
خیر سے ہم نے بھی چھت پہ جگہ بنائی اور اکڑوں بیٹھ گئے۔چھت پہ اس لئے کہ گاڑی کے اندر موجود چند نشستیں خواتین کے لئے مخصوص تھیں جن پر بڑا سا ’’لیڈیز‘‘ لکھا ہوتا۔یہ سیٹیں اگر خالی بھی ہوتیں تب بھی مردوں کو اس پہ بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی اور جواز یہ پیش کیا جاتا کہ دیکھ نہیں رہے ان پہ ’’لیڈیز‘‘ لکھا ہوا ہے۔حقوق نسواں کے پرچارک کہاں ہیں!۔انہی ناگزیر وجوہات کی بنا پہ ہم نے چھت پہ ہی جگہ حاصل کرنے میں ہی عافیت جانی۔اپنی عمر کا فائدہ اٹھا کر لیڈیز سیٹ پہ جگہ حاصل تو کی جا سکتی تھی، لیکن ایک تو یہ خدشہ تھا کہ راستے میں اگر کوئی خاتون سوار ہوئیں تو بے آبرو ہوکر اس کوچہ سے نکلنا پڑے گا اور ہمارے ساتھ ہمسفر مرغی سے بھی ڈرائیور صاحب بدک رہے تھے۔
بقول یوسفی مرغیوں سے ہمارے تعلقات ہمیشہ کشیدہ ہی رہے ہیں۔ کشیدہ تعلقات میں قصور فریقین کا ہے۔کبھی مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے تحفظات دور کرنے کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی۔ چھت پہ بیٹھنے کو جگہ مل تو گئی لیکن سارے مسافر بدک رہے تھے کہ ہمارے ساتھ نہیں بیٹھنا ۔اس بے اعتبار جانور کا کوئی اعتبار نہیں نجانے کب حوائج ضروریہ سے فارغ ہونے کی ٹھان لے،خواہ مخواہ ہمارا لباس ناپاک ہوگا۔اس امتیازی سلوک کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمیں ایک کونے میں دھکیل دیا گیا اور پابند کیا گیا کہ مرغی کو اس پوزیشن پہ پکڑے رکھیں کہ اس کی پشت باہر کی جانب ہو۔ایک معصوم بے زبان کے ساتھ یہ سلوک دیکھ کر دل بھر آیا لیکن بعد میں آنے والے واقعات نے ثابت کردیا کہ مسافر صحیح کہہ رہے تھے۔
آخرکار گاڑی چل پڑی۔کنڈکٹر صاحب کرایہ طلب کرنے آئے تو ہم نے ایک ادائے بے نیازی سے کہا ’’سٹوڈنٹ‘‘۔کنڈکٹر سمیت دیگر مسافر بھی دیدے پھاڑ کر ہمیں تاکنے لگے کہ یہ کیسا طالب علم ہے جو مرغی لے کر اسکول چلا ہے۔یہی سوچ کر چپ ہورہے ہوں گے کہ کسی استاد کی فرمائش پوری کرنے کے لئے مرغی لیجا رہاہوگا۔ ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم شہر پہنچے ۔گاڑی سے اتر نے کے بعد لیکن سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب کیا کرنا ہے۔کبھی کچھ بیچنے کی نوبت ہی نہیں آئی تھی خاص کر مرغی بیچنے کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں تھا۔سوچ بیچار میں غلطاں خراماں خراماں یہ سوچ کر چل پڑا کہ دیکھی جائے گی۔
چند قدم چلنے کے بعد ایک بڑھئی نے آواز دے کر بلایا۔کہنے لگے بیچو گے؟ میں نے کہا نہیں ذبح کروانے لایا ہوں۔حیران ہوکر کہنے لگا تو یہاں کیوں آئے ہو؟میں نے کہا قبلہ بیچنے ہی لایا ہوں اور کون سا یہاں مرغیوں کی کیٹ واک ہوتی ہے۔کہنے لگے کتنے میں بیچو گے؟ ’’پورے دو سو روپے میں۔‘‘ روز کے دو انڈے دیتی ہے کیا؟ ’’پورا ڈیڑھ کلو وزن ہے۔ ’’اسی روپے لے لو۔‘‘ میں نے کہا سائیں چوری کی نہیں ہے۔گھر کی مرغی ہے ،روزانہ انڈہ دیتی ہے،لیکن بڑھئی صاحب نوے روپے سے زیادہ قیمت دینے پہ تیار نہیں تھے۔ الغرض یہ سودا ناکام ہوا اور ہم ایک بار پھر چل پڑے۔
اچانک محسوس ہوا کہ کوئی نمی سی کپڑوں میں آگئی ہے۔آس پاس دیکھا کوئی میر کا شعر بھی نہیں پڑھ رہا تھا۔اچانک جو قمیض پہ نظر پڑی تو منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔بیچ شہر بھرے بازار میں مرغی نے وہی کارروائی ڈال دی جس کا خدشہ گاڑی کے مسافر ظاہر کرچکے تھے۔مرغی نے ’’فطرت کی آواز‘‘ پہ لبیک کہتے ہوئے ہمارے لباس پہ سر راہ سیاہی مل دی تھی۔نہ کوئی جان نہ پہچان بندہ جائے تو کدھر جائے اور کرے تو کیا کرے۔اس وقت اس بات کی سمجھ آئی کہ مرغیوں سے ابنائے آدم کے تعلقات بلا وجہ کشیدہ نہیں ہیں۔ایک راہگیر کو ترلہ کیا کہ بھائی ذرا ہماری مرغی کو پکڑیے گا ہم ذرا اپنے کپڑےدھو لیں۔راہگیر کو مرغی پکڑا کر کپڑے دھوکر باہر نکلا تو راہگیر ندارد۔
خدایا یہ ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ہمارے پاس تو واپسی کا کرایہ بھی نہیں۔شام سمے اسکول کا بہا نہ بھی نہیں چلے گا۔ ابھی انہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ راہگیر صاحب سامنے کسی سے گفت و شنید کرتے نظر آئے۔بادی النظر میں انہیں مرغی بیچنے کی کوشش کررہے تھے۔ہم نے موقع پہ جا لیا تو کہنے لگے آپ کا سودا طے کروا رہا ہوں۔پوچھا کتنے کی بیچو گے؟ہم نے ’’ایک دام‘‘ کے اصول کے تحت دو سو روپے سکہ رائج الوقت پاکستانی کا مطالبہ کیا۔وہ صاحب ایک سو روپیہ دینے پہ راضی تھے۔ہم نے کہا دو صد سے کم ایک روپیہ بھی نہیں لیں گے۔قصہ مختصر کہ مختصر ہی بھلا بازار کے دس چکر لگانے کے بعد بھی کوئی ایک سو بیس روپے سے زیادہ دینے پہ آمادہ نہ ہوا۔کچھ ناکامی کی تھکاوٹ اور کچھ مرغی کی اوچھی حرکت سے دلبرداشتہ ہوکر بالآخر مرغی کو ایک سو بیس روپے میں ہی ایک کریانہ والے کو بیچ ڈالا۔
پہلی ہی تجارت میں مطلوبہ نتائج نہ ملنے پہ ہم افسردہ سے ایک چائے خانے میں جا بیٹھے۔مشروب مشرق کے جرعوں سے طبعیت بحال ہوئی تو خریداری کی طرف توجہ کی۔ اس کے بعد کی روایات میں اختلاف ہے۔حاشا وکلا ہمیں تو یاد نہیں لیکن کہنے والے کہتے ہیں اس کے بعد گاؤں والوں کو ایک کامیاب مرغی فروش مل گیا۔گاؤں میں مرغیوں کی کون سی کمی تھی۔انڈوں اور گوشت کے ساتھ پندرہ بیس دن بعد ایک صد روپے نقد ہاتھ لگ جائیں تو اور کیا چاہیے۔طے یہ پایا کہ ایک سو روپے سے زائد جتنی آمد ہوگی وہ مرغی فروش بطور کمیشن لیں گے۔بیس روپے ہم کما چکے تھے اس لئے یہ کوئی مہنگا سودا معلوم نہیں ہوتا تھا،لیکن بعد کے واقعات نے ثابت کردیا کہ یہ سودا بہت مہنگا تھا۔ہر دفعہ لباس کا ’’گلنار‘‘ ہونا یقینی تھا۔
گاڑی والے کو بھی معلوم پڑگیا کہ یہ اسکول کی آڑ میں ’’غیر قانونی‘‘ سرگرمیاں کی جارہی ہیں اس نے کرایہ لینا شروع کردیا۔بے دید اتنا تھا کہ مرغی کا کرایہ بھی طلب کرتا۔مرغی اگر دیدہ بینا رکھتی تو گاڑی سے چھلانگ لگانے میں ہی عافیت جانتی۔شہر والے جان گئے تھے کہ یہ مجبوراسو روپیہ میں بھی مرغی بیچ دے گا۔ظالم یہ نہیں جانتے تھے کہ اس طرح تو   ہمیں ایک روپیہ دیہاڑی بھی نہیں ملنی تھی۔آخرکار ہم نے احتجاجا اس کام سے استعفی دے دیا۔گاؤں والوں کی نقد آمدنی بند ہوئی تو انہوں نے مذاکرات کرکے مرغی فروش کا کمیشن بیس فیصد مقرر کردیا۔مرغی فروش کو بھی بعد کے تجارب سے متعدد سبق حاصل ہوئے۔مرغی کی ’’گولہ باری‘‘ سے بچنے کے لئے اسے شاپر میں ڈال کر لے جانے کا تجربہ بھی اسی عرصہ میں حاصل ہوا۔
بقول یوسفی مرغیوں کی نسل مٹائے نہیں مٹتی۔یہ دو جمع دو چار نہیں چالیس ہوتے ہیں۔کچھ یہی حال گاوں کی مرغیوں کا تھا۔ہم نے بہتیری بیچیں،مگر ان کا لشکر بڑھتا ہی رہا جسے کنٹرول میں رکھنے کے لئے ہی شاید قدرت رانی کھیت کو ٹاسک دیتی۔جو سر بکف مرغیاں رانی کھیت سے بھی بچ رہتیں وہ کتوں کا شکار بنتیں،لیکن نجانے کس درویش کی دعا ہے اس نسل کو کہ چھ مہینے بعد اسی طرح دھرتی کے سینے پہ مونگ دلتی پھرتیں۔ہمارا حقہ پانی ختم ہوتا تو اگلے دن ایک مرغی شاپر میں ڈال عازم شہر ہوتے اور یوں گلشن کا کاروبار جاری رہتا۔
 

Facebook Comments

راشداحمد
صحرا نشیں فقیر۔ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply