​ایک نظم کی خود نوشت سوانح۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

بانجھ کہاوت کی اس بنجر کوکھ کوجب میں
چیر کے باہر نکلی تو میں نےکیا دیکھا؟
میں تو اپنے جیسے
کئی ہزاروں، آدھےمُردہ، آدھے ِزندہ
بچوں کی زنجیر میں خود بھی پڑی ہوئی تھی
یہ بچے جو اپنی پیدائش کی تیزی، طراری
یا بےعملی میں
ڈگمگ ڈکمگ پھنسے ہوئے تھے

پوچھا خود سے ۔۔۔
کیا ساری نظمیں ہی مجھ جیسی بے دم پیدا ہوتی ہیں؟
کاغذ پر ان کے جیون کی پہلی گھڑیاں کیا ہوتی ہیں؟
زندہ رہنے یا مرنے کی دوڑ دھوپ میں
ان کے جسم کا کیا کچھ باقی رہ جاتا ہے؟
خود سے کچھ تاویل کی خاطر میری کوشش
جب ناکام ہوئی تو میں نے
آگے بڑھ کر اپنے سارے اعضا جوڑے
انضمام و انتداب سے، اُدھڑی، بکھری
اور ادھوری، اندھی تشبیہوںکو چھانٹا
لنگڑی، لولی، گھسٹ گھسٹ کربجتی آوازوں کو
اُن کے اغل بغل سے لفظ جوڑ کر
ایک مسلسل راگ میں ڈھالا

Advertisements
julia rana solicitors

کیا کرتی میں؟
آدھے، ادھور گرتے پڑتے لفظوں کو کس کر باندھا
اندھی تشبیہوں کواُن کی آنکھیں دے کر
اُن کے جسم کی تاریکی سے یکدم باہر کھینچ نکالا
ہم پیکر الفاظ جواب تک گھسٹ رہے تھے
کھینچ نہیں پاتے تھے اپنے اعضا کاغذ کی تختی پر
سب کو جوڑا
اور پھرحاضر ہوں میں آج اس صفحے پر، میرے خالق!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply