کلکتہ شہرمیں دو برس/عاصم کلیار

تاریخ کا فانوس بھی کیا بازی گر ہوتا ہے، انسان اس سے پھوٹنے والی روشنی کو تو یادوں میں محفوظ رکھتا ہے مگر اس کے تاریک گوشوں کو بھلانے کی بے سود کوشش میں عمر گزار دیتا ہے کیا کسی بھی شہر کا احوال لکھتے ہوۓ ہم اس میں گزارے ہوۓ ماہ و سال کے علاوہ اس شہر کی تاریخ سے صرفِ نظر کر سکتے ہیں یہ سوال ہنوز تشنہ جواب ہے مگر ہمارے مصنف امیت چودھری نے کلکتہ کا تذکرہ ایک بے گھر عورت کے گیان سے کیا ہے جو تمام دن سڑکوں پر بھیک مانگتی اور شام کو بوسیدہ ساڑھی کے آنچل سے دن بھر کی کمائی گرہ سے کھولتے ہوۓ ایک پرچون کی دوکان سے کچھ چاول لے کر چھولہے پر چڑھا دیتی، سڑک کنارے ابھرنے والا دھواں چند اور بے گھر افراد کو اس جانب جانے پر مجبور کرتا وہ گیانی عورت چاول پکانے کے بعد ان بے گھر افراد میں تقسیم کر کے خود ہنڈیا کے تلوے سے کھرچ کر بھوک کی آگ بجھاتی ایک روز ایک راہگیر نے اس سے کسی محلے کا پتہ پوچھا اس نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوۓ کہا او بابو ہمیں کیا معلوم کہ پتہ کیا ہوتا ہے جہاں سو جائیں ہمارا وہی گھر ہے بابو نے ماتھے پر تیوری چڑھاتے ہوۓ کہا پاگل!
بوڑھی بی نے ساڑھی کے آنچل کو لہراتے ہوۓ دھیمی اور افسردہ آواز میں کہا ہم بے گھر ضرور ہیں مگر پاگل نہیں۔
یہ لمحہ تفکر ہے۔
یہ انسانی بصیرت کے  لییے  ایک پہیلی ہے۔
کہ کیا پاگل پن اور بے گھر افراد میں سمندروں سے زیادہ فاصلہ ہے؟
یا پھر بے گھر اور بے عقل ہمارے لیے ہم معنی الفاظ ہیں؟
زندگی کے تعاقب میں انسان بے گھر ہونے کے علاوہ ہجرتوں کو بھی گوارا کر لیتا ہے مصنف کے والد نے کئی بار کلکتہ میں بسیرا کیا اور کئی بار ہجرت مگر ذاتی زندگی کے اہم واقعات کو انہوں نے تاریخی واقعات کی نسبت سے شائد صرف اس  لیے  یاد رکھا کہ ان کو یقین تھا کہ ان کی اپنی ذات سمیت آنے والی نسلیں بھی امیت چودھری کے والد کی سرگزشت سے بے خبر ہوں گی وہ کلکتہ پہلی بار اس سال وآرد ہوۓ جس برس ٹیگور فوت ہوا تھا اور اس سال انہوں نے شہر کو الوداع کہا جب جاپان نے کلکتہ پر دوسری عالمی جنگ کے دوران بم داغے تھے روایت سے بغاوت اگر گستاخی اور بد تمیزی کے زمرے میں نہ آۓ تو ترقی پسند سوچ اور زمانے کے ساتھ قدم ملانے کا دوسرا نام ہے امیت کے والد انگلستان تعلیم کے  لیے گئے  شادی کی ہوک دل کے ساتھ بدن بھی توڑنے لگی تو بارات دلہن کے گھر  لیے  جانے کی بجاۓ ہونے والی بیوی کو انگلستان آنے کا تار دے بھیجا نہ جہیز نہ ڈھول تاشے شادی کی رسم انگلستان میں بیغیر ماں باپ اور سسرال کے ادا ہوئی شائد ایسے باغیانہ اقدام نے ہی پورے ہندونستان کی نسبت بنگال کے سماج کو تہذیب و تمدن،سیاسی اور دماغی طور پر ہمیشہ برتر ثابت کیا۔
کلکتہ شہر کی سماجی تاریخ میں انگریز صاحب بہادر کے علاوہ بنگالی طبقہ اشرافیہ نے بھی سیاسی تحریکوں اور تہذیبی طور پر اہم کردار ادا کیا ادھر ہگلی دریا پر سورج کی پہلی کرن نارنجی رنگ بچھاتی ادھر شدھ موسیقی کی تانیں ہر گھر سے فضا کو معطر کر دیتں painting سے دلچسپی بھی تو پورے بنگال کا ہمیشہ سے خاصا رہا ہے انگریز بہادر نے کلکتہ کو مرکزی شہر کے طور پر منتخب کیا اہل بنگال نے سرکار انگلشیہ کی آمد پر نئی تہذیب کا خیر مقدم ضرور کیا مگر بنگالی کلچر سے اپنی وابستگی کو بھی کسی طور فراموش نہ کیا کالونیل طرز تعمیر نے پورے ہندونستان کو متاثر کیا مگر کلکتہ شہر نے سبز رنگ کی فرانسیسی کھڑکھیوں کو شہر کی پہچان بنا دیا(بر سبیل تذکرہ میری لائبریری میں کلکتہ اور پیرس کی حیرت انگیز حد تک مماثلت پر مشتمل عمارات کی تصویروں پر مبنی ایک کتاب موجود ہے)۔
شہر کا احوال رقم کرتے ہوۓ ہمارے چوہدری نے ذاتی یاداشتوں کو شامل تحریر کر کے کتاب کو نیم سوانحی بنا دیا ہے چوہدری کا بچپن کلتکتہ میں گزرا پورے شہر میں ہر سو آتے جاتے اسے سبز فرنچ کھڑکھیاں نظر آتیں شکم کی آگ اسے ملکوں ملکوں لے گئی برسوں بعد جب وہ کلکتہ آیا تو شہر کی تہذیب کے ساتھ حلیہ بھی بدلا ہوا پایا بنگالی طبقہ اشرافیہ کے  لیے  جب بھرم رکھنا بھی مشکل ہوا تو حویلیوں اور بنگلوں کو بیچنے کا رواج شروع ہوا اس حوالے سے برسوں پہلے پڑھے تارا شنکر بنر جی کا افسانہ جلسہ گھر اور اس افسانے پر ستیہ جیت راۓ کا عمدہ مضمون جلسہ گھر کا پرُپیچ راستہ بے طرح یاد آۓ۔
زمین کی قیمت کیا سے کیا ہوئی حویلی کی جگہ کئی منزلہ فلیٹ بنے سبز کھڑکھیوں کے ساتھ تلسی کے درخت غائب ہوۓ اور فلیٹوں کی بالکونیوں پر کپڑے سوکھنے کے  لیے  لٹکاۓ جانے لگے۔
تنویر سپرا نے کہا تھا
دیہات کے وجود کو قصبہ نگل گیا
قصبے کا جسم شہر کی بنیاد کھا گئی
مگر دوستوں اب عالم مزید ابتر ہے شہر کے اندر کئی شہر آباد ہیں مکان اور مکین کا ناطہ تمام ہوا سو دیواریں اور چھت بھی بے وفا ہوئیں شہر جنگل ٹھہرا اور گھر میں وحشت نے آن دبوچا ہے کیسا محلہ اور کہاں کے پڑوسی مگر امیت چوہدری شہر میں چہار سو نظر آنے والی سبز کھڑکھیوں کا جن دنوں نوحہ لکھنے میں مصروف تھا ایک حویلی انہی دنوں ملبے میں بدل کر کئی منزلہ عمارت کی بنیاد ڈالنے کے  لیے  ہموار کی جاری رہی تھی حویلی کے منتشر ملبے میں فرانسیسی طرز کی سبز کھڑکھیوں سے چوہدری نے ایک کھڑکھی خرید کر اپنے فلیٹ کی ایک دیوار کے ساتھ رکھ دی شہر کی تہذیب کو فلیٹوں میں کھڑکی رکھ کر مقید کرنے والے بھی اب پیارے چوہدری کے علاوہ کتنے لوگ اور رہ گئے  ہیں۔

ہر شہر کی زندگی کا ایک ثقافتی مرکز ہوتا ہے اور اس کے  لیے  بھلا چاۓخانہ سے بہتر کیا ٹھکانہ ہو سکتا ہے فری سکول اسٹریٹ میں مدتوں پہلے ایک سوئس باشندے کی قائم کردہ fluyer tea shop میں مصنف ساٹھ کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں پہلی بار گیا تھا اس ٹی شاپ سے ملنے والے لمبوترے بن میں مکھن کے ساتھ مرغ کے ٹکڑوں کا ذائقہ نصف صدی بعد بھی چوہدری کی زبان پر ٹھہرا ہوا تھا بیضوی میزوں کے گرد اسی کے عشرے تک اینگلو انڈین اور چینی باشندے ٹی شاپ میں چاۓ کی چسکیاں لیتے ہوۓ دن بھر سرگوشیاں کرتے رہتے جو آنے والے برسوں اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے  لیے  آسٹریلیا اور یورپ کوچ کر  گئے  fluyer کے ساتھ پرانی کتابوں اور ریکارڈوں کی دوکانیں سی۔ڈی ہاوس میں بدل چکی تھیں ساتھ کے ریسٹورینٹ میں لوگوں کا رش بڑھ گیا تھا ٹی شاپ کی شیشے کی دیوار کے پار سڑک کنارے کھانے کے ٹھیلے کی دنیا کلکتہ شہر کا ایک اور چہرہ پیش کر رہی تھی دو وقت ترکاری کی پلیٹ کی جستجو میں ٹھیلے پر ایک لڑکا بغیر معاوضے کے کام کرتا ساتھ فٹ پاتھ پر ایک بے گھر لڑکا دوا نہ ہونے کی وجہ سے درد سے مسلسل کراہے جا رہا تھا نہ صرف ساٹھ سال پہلےfluyer سے ملنے والے لمبوترے بن مینو سے غائب ہو چکے تھے بلکہ شہر کا مزاج بھی بدل چکا تھا اس نے شیشے کے اس پار دیکھا ٹریفک لائٹ بند ہونے پر لوگوں کی ایک اور لہر شہر میں موجود افراد کے سمندر میں اپنی ذات سے بے خبر آرزؤں کی اسیر کہیں کھو جاتی۔

بنگال کا کلچر آخری ہچکیاں لے رہا ہے مادری زبان کی جگہ انگریزی رائج ہو چکی ہے بنگال کلب میں بدیسی کھانوں کی فروانی ہے انگریز کے دور حکومت میں کلب میں کتوں اور ہندونستانیوں کا داخلہ ممنوع تھا کتے تو انگریزوں کے ساتھ انگلستان  گئے  مگر ہندونستانیوں کے  لیے  ٹائی اور کوٹ پہن کر کلب میں جانا لازم ٹھہرا سکائی روم میں کبھی ستیہ جیت راۓ دوستوں کے ساتھ چوکڑی جماتے تھے اب اس ریسٹورینٹ کی جگہ بھی ایک پلازے نے لے لی بنگال کی تہذیب معدوم ہونے کے باوجود آج بھی کلکتہ کے بنگالی بابو ہر لحاظ سے اپنے آپ کو بہاریوں سے قابل سمجھتے ہیں۔

کلکتہ سرکار انگلشیہ کے زمانے سے ہی کرسمس کی شام اور سال نو کی رات کے حوالے سے اپنی علیحدہ  شان اور سج دھج رکھتا تھا اہل بنگال صدیوں سے سال نو کا جشن پہلی بیساکھ کو مناتے تھے کمپنی کی حکومت کے بعد ہمارا وقت اور کلینڈر بھی ان کے تابع ہوا 1857 سے بھی چند سال پہلے بنگال کے ایک شاعر ایسور گپتا نے انگریز کے سال نو کے حوالے سے نظم لکھی جس میں کئی الفاظ انگریزی کے تھے وقت اور کلینڈر کے ساتھ ہماری ماں بولی پر بھی انگریز قابض ہوا صدیوں سے رائج پہلی بیساکھ کی مناسبت سے مناۓ جانے والے سالِ نو کے جشن کو لوگوں نے یکسر فراموش کر کے توجہ اکتیس دسمبر کی رات کے بارے بجے کے گھنٹے پر مرکوز کر دی سو ہمارے روایتی و تہذیبی میلے ٹھیلے بھی وقت،کلینڈر اور ماں بولی کے ساتھ غارت ہوۓ اور اب کرسمس و سالِ نو کے موقع پر لوگ یورپ اور امریکہ سے کلکتہ آتے ہیں ان دنوں بے گھر افراد کسی بھی فٹ پاتھ پر سونے کی بجاۓ رات دن راہگیروں کا دامن تھام کر مانگنے میں مصروف رہتے ہیں مسلمان عورتیں ہندوؤں کا نام رکھ کر کاسہ گدائی اٹھا لیتی ہیں شبنم نام کی کمسن لڑکی جو پوجا کے نام سے ٹریفک سگنل کے بند ہونے پر راہ چلتی گاڑی یا کسی پیدل بابو کے سامنے اداس آنکھوں کے ساتھ خاموشی سے ہاتھوں کا کشکول پھیلا دیتی ایک سڑک پرچند سکوں کی آس میں وہ مصنف کے ساتھ دور تک چلتی گئی ایک اور مانگنے والی عورت نے امیت چوہدری سے کہا صاحب کیسی کرسمس اور کیا اکتیس دسمبر کی رات کے ہنگامے ایک بات یاد رکھنا ہم کھانا نہیں کھاتے بلکہ کھانا ہمیں کھا جاتا ہے۔

مصنف کو آکسفورڈ میں پڑھنے کے دوران اندازہ ہوا کہ دہلی شہر صرف ہندونستان کی طاقت اور سیاست کا ہی مرکز نہیں بلکہ ذرائع اور اختیارات کی غیر منصفانہ تقسیم بھی دہلی میں موجود کارِسرکار کی غلام گردشوں کا طرہ امتیاز ہے کیونکہ دہلی کے اسٹیفن کالج کے طالبعلموں کو ہی ہندونستان بھر سے آکسفورڈ جانے کے  لیے  وظائف دیۓ جاتے تھے وہ قابل بچے یقیناً کسی سیکرٹری یا وزیر کے رشتےدار بھی ہوتے ہوں گے مگر مصنف دہلی میں چند پرانی وضع کے بچ جانے والے گھروں میں موجود آتش دانوں کو شہر کی شناخت سمجھتا ہے۔

ہمارا چوہدری اس کتاب سے پہلے تین ناول کلکتہ پر لکھ چکا تھا مگر پھر بھی اس کو کلکتہ کی یاد انگلستان میں ہمہ وقت ستاتی حلانکہ امیت نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ بمبئ اسے کلکتہ کی نسبت ہمیشہ سے ہی زیادہ پُر کشش لگتا تھا ہندونستان کی معشیت کے غبارے کے چرچے ان دنوں ہر طرف کیۓ جا رہے تھے مگر اکھنڈ بھارت کے غرور نے جلد ہی اس غبارے سے ہوا نکال دی اس کے ساتھ ہی گلوبلیزیشن کے تصور نے پورے بھارت کے کلچر کے ساتھ کلکتہ شہر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا بنگالیوں کے ڈرائنگ روم کی گفتگو کی بجاۓ لوگ رات دن ٹی۔وی کے ہنگامہ خیز خبر ناموں کو قابل توجہ سمجھنے لگے مصنف اس کتاب کو لکھنے کے سلسلے میں جب کلکتہ آیا تو براہمو سماج ٹیگور اور مدرٹریسا کا شہر عہد رفتہ کی داستان میں بدل چکا تھا اب مہذہب بنگالیوں کی بجاۓ شہر پر مارواڑیوں کا راج تھا۔
افسوس!

Advertisements
julia rana solicitors london

کولکتہ جیسے جدید اور وسیع وعریض شہر میں ہمارے امیت چوہدری کو کئی کشٹ اُٹھانے کے باوجود ڈھونڈے سے بھی کلکتہ نامی شہر کی پرچھائی تک نہ مل سکی۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply