اٹلی ہے دیکھنے کی چیز(قسط15)۔۔سلمیٰ اعوان

پیسا اور لوکا

o آئرش ٹولے کی پھُرتیاں سمجھانے کے لئے کافی تھیں کہ خیر سے اُن کاساتھ میرے گٹے گوڈوں کو کسی ہو چھے کی یاری کی طرح تڑاخ
سے دوٹوٹے کرتے ہوئے وہیں کسی سڑک پر لم لیٹ کر سکتا ہے۔
o پیسا کا جھکاؤ دار ٹاور دنیا کا ساتواں عجوبہ جسے دیکھنا ایک تحیر آمیز مسرت تھی۔
o پرانے پیسا کی گلیاں اور بڑے بڑے پتھروں سے بنے گھر تعمیراتی شاہکار کے نمونے تھے۔
o لوکا کی دیوار، رومن ایمفی تھیٹر اورگونوجی ٹاور اس کے لینڈ مارک ہیں۔

روم میں تین دن کا قیام تھا۔آخری دن نقشے نے مجھے بڑی ترغیب دی کہ پیسا جو Ligurian Sea کے دہانے اور بارہ سو بعد مسیح کا وینس کی طرح ہی ماضی میں سمندری کاروباری مرکز کا گھر رہا ہے۔ دنیا میں اپنے ساتویں عجوبے Leaning Tower اور قدیم ترین یونیورسٹی کی وجہ سے بڑی شہرت کا حامل ہے۔ تو اُسے دیکھنے کاکتنا اچھا موقع ہے؟ فائدہ اٹھا۔ اور ہاں لوکا بھی نرا دو قد م پر ہے اور مزے کی بات فلورنس دونوں کے ہمسائے میں بیٹھاہے۔ ایک ٹکٹ میں کتنے ہی مزے لوٹے جاسکتے ہیں۔
مگر نہیں۔
صبح سے شام تک آنکھوں اور ٹانگوں کی اِس مشقت نے تھکا دیا تھا۔ میں واپس جانا چاہتی تھی۔ مگر ہوا کیا؟ صرف ایک دن کے آرام نے مجھے بے چین کر دیا۔اندر نے جیسے بلبلا کر کہا تھا۔
”تو کیا منجیاں توڑنے یہاں آئی ہے۔یوں تیرے گلے شکوے دور نہیں ہوتے۔ اوپر والے نے تجھے یہ نہیں دکھایا۔ وہ نہیں دکھایا۔ اب کیا مسئلہ ہے؟ ہل جل تو تو نے ہی کرنی ہے۔روٹیاں تو تجھے مل گئی ہیں۔ اب تو چاہتی ہے کوئی نوالے توڑ کر تیرے منہ میں بھی ڈالے۔ شرم کر کچھ۔ ایسا ہوتا ہے کبھی؟“
”ارے ہاں۔“ اند رنے جیسے مسَکہ لگایا۔
”وہ تیرے رومان بھرے خوابوں کا سوئزرلینڈ بھی تو بس ذرا پاؤں بڑھائے تو اُسے بھی چھولے جیسا معاملہ ہے۔“
ویسے سچی بات ہے سوئزرلینڈ کے لئے دل مچل رہا تھا۔ پیسا اورفلورنس کے لئے بھی ”مری جا رہی ہوں“ والی بات تھی۔
سوئزرلینڈ کے لئے تو اقبال بھی کمپنی دینے کے لئے تیار تھا۔ مگر میں اپنے مزاج کی عجیب سی مردانہ بیزاری کے ہاتھوں مجبور۔ اس کے ساتھ کوقبولنے سے انکاری۔
مجھے بھی تپ چڑھی۔خوب بک بک جھک جھک کی۔
”لا یا ہی اب جب دانے مکنے کے قریب ہیں۔ جوانی میں لاتا نہ۔ ایک ایک جگہ پر شکرانے سے بھرا ماتھا ٹیکتی اور اٹلی کے رَوم رَوم میں تیری وحدانیت کے رنگ بھرتی۔“
ہائے انٹرنیٹ میں بھی نری کوری ہوں۔ ہوٹل کی بکنگ ہوتی تب بھی آسانی رہتی۔ویسے آپس کی بات ہے۔ خود کا تجزیہ کروں تو یہ سب باتیں میری بہانے بازیوں اور دل کو بہلانے اور مطمئن کرنے کے زمرے میں ہی آتی ہیں۔ کوئی پوچھے جب طبیعت ہی خود پر فراخ دلی سے خرچ کرنے اور اُسے تھوڑی سی عیاشی میں گیلا سوکھا کرنے سے گریزاں ہوگی تو یہی بہانے ہوں گے۔
روم کے ہوٹل سے سیدھی بکنگ ہوتی۔ اسٹیشن پر کارڈ اٹھائے ہوٹل والوں کا بندہ موجود اور باہر گاڑی شوفر کے ساتھ حاضر۔ مسئلہ تھا کوئی۔ مگر نہیں جی۔ دام بنائے کام والا فارمولا ہم نے نہیں اپنانا۔ موت (پیشاب) میں سے مچھیاں (مچھلیاں) پکڑنی ہیں۔ جان بے چاری کو اذیت کی سولی پر ہی چڑھائے رکھنا ہے۔
”چلو پیسا تو دیکھوں۔“
اقبال نے دن کی طوالت کا ذکر کرتے ہوے گائیڈ کیا تھا کہ اگر سویرے نکلتی ہیں تو شام کو دونوں تینوں جگہیں دیکھ کر واپس آسکتی ہیں۔ تو شام کو صبح سات بجے کی ٹرین سے پیسا کے لئے بکنگ کروا آئی۔
قدرت کبھی کبھی مہربان ہو جاتی ہے۔ آپ کے خیال اور توقع کے مطابق ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے جیسا محاورہ ہمیشہ نہیں تو کبھی کبھی آپ کو نہال کر دیتا ہے۔
اور وہ صبح ایسی ہی تھی اور وہ لمحے ایسے ہی تھے جب میں نے یہ سب سوچا تھا۔
گاڑی میں داخل ہوتے ہی میرا ٹکراؤ اُن آئرش لوگوں سے ہوا جو مجھے وینس کے اسٹیشن پر ملے تھے۔ آمنے سامنے کی سیٹوں پر تین تو وہی تھے۔ چوتھی میں تھی۔ باقی دائیں بائیں پھیلے ہوئے تھے۔ سبھوں کو میں یاد تھی اور مجھے بھی اُن کا جتھہ یاد تھا۔
میرے اندر باہر سرشاری کی لہریں رقصاں تھیں جس کا اظہار میں نے بھنے ہوئے باداموں کے پیکٹ کو پھاڑ اور اٹھ کر اُن میں سے ہر ایک کو خصوصی طور پر پیش کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے بھی میری پذیرائی کو قبولیت بخشی اور میر ی اس درخواست کہ پیسا کے لئے بس میں بیٹھنے کے لئے مجھ سے کرایہ لے کر ذرا ساتھ نتھی کرنا ہے۔چیزیں میں اکیلے ہی دیکھوں گی۔
فلورنس انہوں نے نہیں جانا تھا۔ دو بجے کی روم کے لئے ٹرین پکڑنی تھی۔
ہائے اتنے قریب آکر فلورنس نہ جاؤں۔ میں نے خود سے کہا۔
”چلو جو دیکھنا ہے وہ تو دیکھوں۔ اندیشہ ہائے دور دراز میں گھلنے کا فائدہ۔“
وہ سب کم و بیش تھے تو میری عمروں کے ہی۔ کوئی چار چھ سال چھوٹے بڑے ہو سکتے تھے۔برمودا اور ٹی شرٹوں میں ملبوس۔ مگر کیا توانائی تھی اُن میں۔ پارے کی طرح متحرک۔ ٹرین پیسا کے اسٹیشن پر ابھی رکی تھی کہ جب برقی انداز میں انہوں نے اپنے رُک سیک اپنے کندھوں پر لادے اور باہر آئے۔
اُن میں کچھ بھاگتے ہوئے پلیٹ فارم کے آخری کونے پر گئے۔پتہ چلا کہ سامان خانے میں سامان رکھنے گئے ہیں۔ جو دو تین میرے پاس کھڑ ے تھے ان میں سے ایک کو میں نے بیس(20) یورو دیتے ہوئے کہا کہ بس یا ٹیکسی کے لئے میرا ٹکٹ بھی لے لیں۔ ٹرین اسٹیشن کی بک شاپ سے انہوں نے بس کے لئے ٹکٹ خریدے اور نقشے لئے۔ مار دھاڑ کرتے ہوئے باہر نکلے۔ اسٹیشن کے قریب ہی جولی ہوٹل کے سامنے بسیں کھڑی تھیں۔
میں کسی مسکین پلے کی طرح اُن کے پیچھے پیچھے دم ہلاتی ہوئی ضرور چلی۔تاہم بس میں بیٹھنے تک کے وقفے میں مجھے گاڑی سے اُترنے اور یہاں بس تک آنے میں اُن کی پھرتیوں اور اِدھر جانے، اُدھر جانے کی جو جو تیزیاں دیکھنے میں آئیں انہوں نے مجھے بلند آہنگ آواز میں سمجھا دیا تھا کہ خیر سے اگر تو نے ان کے ساتھ چلنے کی کوشش کی تو گٹھے گوڈے کسی ہوچھے کی یاری کی طرح تڑاخ سے ٹوٹتے ہوئے تجھے یہیں کہیں پیسا کی کسی سڑک پر لم لیٹ کر سکتے ہیں۔
میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ رُل کھُل کر مجھے خو د ہی سب اپنی مرضی اور سہولت سے دیکھنا ہے۔ اُن کا ساتھ دینے کی نہ مجھ میں تاب ہے اور نہ ہی مجال۔
یوں مطمئن سی ہو کر میں نے باہر منظروں کو دیکھا۔
میرے سامنے پیسا کا خوبصورت شہراپنے البیلے رنگوں کے ساتھ موجود تھا۔
گائیڈ کی آواز صاف اور تلفظ سمجھ آتا تھا۔
پیازہvittorio میں وکٹر ایمونیل دوم کے مجسمے پر نظر پڑتے ہی میں نے مسز سمتھ سے وعدے کے مطابق اُسے دل میں سیلوٹ مارا۔ مدھم سے لہجے میں سراہا۔ اس وقت گو ماڈرن لوگوں کے مطابق ابھی صبح ہی تھی تاہم پیازہ میں لوگوں کے پرے یہاں وہاں چہلیں کرتے اور موج مستی کی سی ترنگ میں ڈوبے نظر آتے تھے۔ خوبصورت رنگوں کی حامل بلند وبالا عمارتیں، شفاف شیشوں کے اندر سے جھلملاتے منظر اور بند شیشوں میں سے ہواؤں کی درختوں کی ٹہنیوں سے اٹھکھیلیاں کتنی خوبصورت لگی تھیں۔ ماڈرن دکانیں اور ان میں گھسے لوگوں کے انبوہ سب کچھ بہت ہی مسرور کن تھا۔
دریائے آرنوArno کے پانیوں نے مسکرا کر دیکھا۔ آگے ایک اور جگہ کے بارے تاریخی پہلوؤں سے روشنی ڈالی جا رہی تھی۔ عین دریا کے ساتھ کہ جب رومنوں نے دریا پر پل بنایا تو یہ جگہ پیسا کا مرکز اور ان کے تہواروں کو منانے کے لئے بڑی معتبر ٹھہری۔
دوسری طرف پیازہ دانتے تھا۔
بس کی رفتار جتنی مدھم تھی نظاروں کی بہتات اتنی ہی تیز تھی۔ ایک منظر نظروں کی گرفت میں آتا تو اس سے بھی خوبصورت دوسرا اُسے دھکیل کرخود آگے آجاتا۔
تاہم پیازہ کیولری Cavalieri نے شاد کیا۔ نہال کیا۔ تھوڑی سی تاریخ جانی۔ تھوڑی سی نظر بازی کا چکر چلا۔ قدیم ترین کلاک، خوبصورت رنگوں سے سجے لشکارے مارتے محل اور کوسیمو Cosimo کے مجسمے کو دیکھتے ہوئے جانا۔ کوسیموڈی میڈیسی سولہویں صدی میں پیسا کا حکمران تھا۔ سکوائرکی یہ عمارتیں اپنے وقتوں میں فریسکو کے کام سے سجی تھیں جنہیں سمندر کی نمکین ہواؤں نے سخت نقصان پہنچایا۔
بس کہاں کہاں رخ بدل رہی تھی کچھ پتہ نہیں چلتا تھا۔ گائیڈ کی زبان کی تیزی اپنے عروج پر تھی۔ چرچ آف سان سستو san sisto دیکھا۔ اینٹوں کی بڑی موٹی موٹی دیواروں اور مختصر کھڑکیوں والا یوں پل جھپکتے نظروں سے اوجھل ہو گیاتھا۔
اِس سے بھی برا حال سانتا ماریا کے ساتھ ہوا۔ گائیڈبیچارہ” دیکھیئے دیکھیئے” کرتا رہ گیا تھا۔ سانتا ماریاکی بابت گلے کی پوری توانائیاں جھونک رہا تھا۔ تاریخ کا سینہ چھلنی کر رہا تھا۔پیسا کی مشہور یونیورسٹی کا سُنا۔ ہائے پیسا یونیورسٹی۔ میں خود سے بولی تھی۔
”مجھے یورپ کی اس قدیم ترین یونیورسٹی کو صرف دیکھنا ہی نہیں بلکہ کچھ وقت بھی وہاں گزارنا ہے۔ جس کی فضاؤں میں سولہویں صدی کے وسط تک گرما گرم متنازعہ نظریاتی بحثوں میں اُس فطین ذہین پروفیسر گلیلیو گلیلی کا تیا پانچہ ہوا۔سچی بات ہے اُس کے شمسی نظریات نے چرچ کے اندھے طاقتورنظریات کو چیلنج کر دیا تھا۔“
میرے اندر نے تنتاتے ہوئے مجھے خبردار کیا تھا۔
”ضرور دیکھنا ہے۔ رات رکنا پڑے تو رکو۔ اوکھلی میں سر دیتی ہو تو موسلوں سے مت ڈرو۔ خو د کو کمزور اور بوڑھا سمجھنا چھوڑو۔“
گاڑی نے فراٹے بھرے۔ابھی ڈھنگ سے کچھ دیکھ بھی نہ پائی تھی کہ ایک خوبصورت میدان پیازہ مانن Manin میں بس آکر رک گئی تھی۔
میرے ساتھیوں کی چھلانگیں اور تیزیاں دیکھنے والی تھیں۔ میں نے انہیں جانے دیا۔ دو تین نے دوستی نبھائی۔ میں نے گوڈوں کی طرف جھکتے ہوئے اشارہ کیا کہ آرام آرام
سے چلنا ہے مجھے۔
سڑ ک پر چلنا شروع کیا۔ آسمان کی نیلاہٹوں پر واری صدقے ہونے کو جی چاہتا تھا۔ اتنا نیلاکچور تھا کہ زندگی میں کبھی کم ہی ایسا نظر آیا ہوگا۔ دھوپ چمکیلی مگر تیز ہواؤں کی سرمستی میں ڈوبی ہوئی جسم اور چہرے سے ٹکراتی بڑا لطیف سا تاثر پیدا کر تی تھی۔
داخلی گذرگاہ نے خوش آمدید کہا۔ جب اندر داخل ہوئی تو ہریالیوں اور سفیدیوں کا ایک جہاں مسکراتا ہوا دکھائی دیا۔ میں چلتی جا رہی تھی۔ کہیں قرون وسطیٰ کے عہد کی موٹی گنگری دار دیوار، کہیں آنکھوں کو طراوت بخشتے گھاس کے میدان، اسی دور کی عمارتیں اور دنیا کا ساتواں عجوبہ جھکا ہوا پیسا ٹاور۔
کشادہ سڑک پر دائیں بائیں نظارے بکھر ے ہوئے تھے۔ نوجوان، بوڑھے،بچے، عورتیں، مرد سب ہنستے مسکراتے تصویریں بناتے کہیں گھاس کے قطعوں پر بیٹھے،کہیں لیٹے سرمستیوں میں مگن تھے۔ ایسی تھوڑی سی مستی کرنے کو میرا بھی دل چاہا۔
ٹکٹ کہاں سے لینا ہے؟ معلوم نہیں تھا۔ سوچا دفع کرو۔ وہ بھی مل جائے گا۔ پہلے دل کا رانجھا تو راضی کروں۔دو چار لوٹنیاں لگاؤں۔ تھکاوٹ کو اُڑنچھو کروں۔
اب دیکھتی ہوں کہ تاحدّ نظر بچھے سبز قالینوں تک جانے کا راستہ یا ذرا پیچھے جا کر اِن قطعوں کو چیرتے ہوئے اسفالٹ کی سڑک پر سے ہوتے ہوئے آتا ہے۔یا پھر اس کے گردا گرد لگی ڈھیلی سی خم کھاتی آ ہنی زنجیر کو پاٹنے سے تھا۔ بس تو پاکستانی ذہنیت کا مظاہرہ کیا۔ شارٹ کٹ ڈھونڈا۔ بیگ گھاس پر پھینکا۔ پہلے بیٹھی۔تھوڑی دیر بعد لم لیٹ ہوگئی۔ مزے سے ٹانگیں سیدھی کیں۔ تین چار پلسٹے مارے۔
”ہائے کتنا مزہ آرہا ہے۔“
اُٹھ کر بیٹھی۔ بادام نکالے۔ تھوڑی منہ ماری کی۔دیکھا تو ایک نوخیز سا جوڑا چہکتا مہکتا قریب سے گزرا۔ آواز دے کر روکا ”اور ٹکٹ کہاں سے ملے گا؟“اور کچھ بروشرز وغیر ہ کا پوچھا۔ خدا کااحسان کہ انگریزی بولنے والے تھے۔
لڑکی نے میٹھے سے لہجے میں بتایا کہ ٹکٹ کے لئے یا تو آگے جائیے۔ ٹاور کے عین پیچھے بائیں طرف پیلے سے رنگ کی عمارت ہے۔وہاں ملیں گے یا پچھلی جانب داخلی گیٹ سے آگے جہاں میوزیم افsinopiasہے وہاں ٹکٹ گھر ہے۔ یہ سووینزز کی دوکانوں کے ذرا پیچھے ہے۔
پندرہ بیس صفحات کا کتابچہ انہوں نے کمال مہربانی سے اپنا میرے حوالہ کر دیا۔
اور جب پوچھا کہ ان خوبصورت عمارتوں کا پس منظر کیا ہے؟ کچھ رہنمائی ہوسکتی ہے؟جوڑے نے کندھے اُچکائے اور بولے۔
”اِسے پڑھ لیں۔ کچھ زیادہ تو ہمیں بھی نہیں معلوم۔ ٹاور کے پاس ہی ایک جانب پیسا یونیورسٹی ہے۔ ڈوما کھیتڈرل بھی ساتھ ہے۔ یونیورسٹی ہم نے دیکھی ہے مگر کھیتڈرل کے اندر نہیں گئے۔“
اب پیسا ٹاور پر چڑھنے کے تجربے کا پوچھ لیا۔
لڑکی جو ہیلن تھی۔ اِس تجربے سے بہت لطف اندوز ہوئی تھی۔ فوراً چہک کر بولی۔
”اُف بڑا لطف آیا۔ویسے سیڑھیاں جھکاؤ دار ہیں اور اوپر تک اسی انداز میں جاتی ہیں۔ انہیں چڑھنے اور ٹاپ پر جا کر نیچے دیکھنا بلا شبہ ایک حیرت انگیز تجربہ ہے۔ اترائی بھی مجھے تو بہت دلچسپ لگی۔“
بائے کرتے ہوئے جوڑا تو چلا گیا۔
میں نے کتابچہ کھولا۔ پہلا صفحہ فیلڈ آف ماریکلزField of Miracles کے بارے تھا۔ ڈوموDuomo بیپٹسٹری Baptistery، کمپوسنتو قبرستان Composanto cemetery، میوزیم آف سنوپسزMueseum of the Sinopiasتو اِس منظرنامے کو جگمگانے والی یہ عمارتیں کسی طرح بھی نظر انداز کئے جانے والی نہیں۔
کتاب کی تحریر کہتی تھی کہ آپ ٹاور دیکھ کر ہی نہ کھسک جائیں۔ باقی جگہیں بھی بہت اہم ہیں۔ٹکٹ کی بھی تفصیلات درج تھیں۔ ایک دیکھو۔یا پھر تین چار تو ٹکٹ میں رعایت ہوگی۔
میں نے اٹھتے ہوئے کہا تھا۔ ”لودیہاڑی تو انہی میں گل ہوئی۔“
خاصا چلنا پڑا۔ٹاور سے تھوڑے فاصلے پر مجسموں سے سجے کالم کے کٹاؤدار چبوترے پر بیٹھ کر سستاتے ہوئے میں نے ٹاور کو پھر دیکھاتھا۔ اس کی آخری بالکونی کی چھت پر اٹلی کا جھنڈاتیز ہواؤں میں پھڑپھڑاتا تھا۔تھوڑی سی اس کی تاریخ بھی جانی۔
200 فٹ لمبا۔ 55فٹ چوڑا، پانچ ڈگری زاویے پر یہ جھکا ؤدار آٹھ منزلوں والا ٹاور کوئی دو صدیاں پہلے بنایا گیاتھا۔ بنانے والا بھی کوئی ایک نہیں تین تھے۔ جھکاؤ کیوں پیدا ہوا۔ زمیں کی مضبوطی کا خیال نہیں کیا۔ دلدلی اور غیر مستحکم زمین اہم وجہ تھی۔ پہلی تعمیر بونینوBonanno کے ہاتھوں کوئی 1173ء سے1178ء تک ہوئی۔ خرابی کا اندازہ تو تبھی ہوگیا تھاکہ بنیادیں گہری نہیں۔ 1272ء میں ممکنہ کوششیں ہوئیں۔ حتیٰ کہ 1990ء میں جدید ترین ٹیکنالوجی سے اسے ادھیڑ پُدھیڑ کر اس کی تکّا بوٹی کرتے ہوئے کافی حد تک مستحکم کر دیا گیا۔ اب دیکھیں سینکڑوں ٹن سیسہ نگل جانے والایہ کب تک زندہ رہے گا؟
ٹکٹ پندر ہ یور و کا ملا۔ تیس کے ٹولے کے ساتھ نتھی کر دیا گیا۔ ہدایات مل گئیں کہ بہت دھیان رکھنا ہے خود کا۔ چکر آسکتے ہیں۔ ٹاپ پر جا کر صرف پندرہ منٹ ٹھہرنے کی اجازت ہے۔ ٹکٹ تو میں نے لے لیا۔ لمبی قطار میں لگ کر کھڑی بھی ہوگئی۔ دروازے سے اندر داخل ہو کرچند سیڑھیاں بھی چڑھ گئی۔ پھر ذرا کمر دیوار سے ٹکاتے ہوئے خود سے پوچھا۔
”او بڑی ابن بطوطہ کی بھتیجی۔ یہ294سیڑھیاں چڑھنے اور اُترنے کی کشٹ کیا تو سہہ سکے گی؟ چکر آگیا۔بلڈ پریشر شوٹ کر گیا تو بنے گا کیا تیرا؟“
اسپتال کا سین بڑا خوفنا ک سا تھا۔ پل نہیں لگایا اور نیچے اُتر آئی۔
پندرہ یورو میری جان کا صدقہ گیا۔ واہ کیا خوبصورت تاویل۔ دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔
نظریں بھرکر دائیں بائیں دیکھتی ہوں۔ یہاں و ہاں ایک اژدہام بکھرا پڑا تھا۔
پہلی بسم اللہ غلط ہوئی۔چرخے کی پہلی پونی کاتی ہی نہیں گئی۔ قلق اور دکھ کا گہرا احساس کچوکے دے رہا تھا۔ نیچے کھڑی حسرت بھر ی آنکھوں سے تیسری چوتھی اور آخری منزل پر کھڑے لوگوں کو حسرت سے تکتی اُن کے شاداں ومسرور چہرے دیکھ کر رشک و حسد سے جلتی بھنتی جاتی تھی۔ پندرہ یورو تو نالی میں رُڑ گئے تھے۔
اب ڈومہ کھتیڈرل اور یونیورسٹی کی طرف گئی۔ پیسا کے مخصوص رومن سٹائل کے اِس کھتیڈرل کے کانسی کے دروازے اور اس پر کندہ کاری کی مذہبی آئی کونک شخصیات اور کہانیوں کا اپنا حسن تھا۔ تاہم میں تو ناواقف تھی۔ بس فن کے حوالے سے میرے یہاں گہرا جذباتی اظہار ضرور تھا۔خصوصی طور پر بازنطینی دور کی بابت۔
میری محویت پر گائیڈ کی آواز آئی تھی۔ یہ دروازے اصلی نہیں نقلی ہیں۔ اصلی تو اندر سنبھالے ہوئے ہیں۔وہ تو خاص الخاص موقعوں پر نمائش کئے جاتے ہیں۔
اندر کی دنیا بھی کیا دنیا تھی؟ تعمیر کی محراب در محراب تہوں میں گھلی، دیواروں پر شاہکاروں سے سجی اورکندہ کاری میں گھتی۔ واہ مزہ آیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کی کہانی شبیہوں میں بیان ہوتی ہوئی کسی دلچسپ کہانی سے کم نہ تھی۔
مذہبی لحاظ سے کہہ لیں۔دینیاتی حوالے سے سوچ لیں کہ فیلڈ آف ماریکلزmiracles کی حیثیت پیسا کے ایک شہری کی زندگی میں چارلحاظ سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ بیپسٹٹری Baptistry میں اُسے عیسائی بنایا جاتا ہے۔ ڈومہ میں اُس کی شادی ہوتی ہے۔ یونیورسٹی کی تقریبات میں اُسے دنیاوی اعزازات سے نوازا جاتا ہے اور کمنپٹو قبرستان میں وہ دفن ہوتا ہے۔
لیجیئے پیسا اور اہل پیسا کی کہانی تو ہوگئی مکمل۔
اب میں اپنی کہانی کا کیا کروں؟
میں نے تو رومن شہنشاہ ہنری ہفتم کا مقبر ہ دیکھا ہی نہیں تھا۔ بس تھوڑا سا کتاب میں سے پڑھا۔جرمن بادشاہ جس نے اٹلی پر حملہ کیا۔ پیسا کے لوگوں نے تو شاہ کا بڑ ے کھلے دل سے استقبال کیا۔ امن اور اتحاد کے علمبردار کی حیثیت سے اُسے سراہا۔ مگر بدقسمتی یا شہر والوں کی ہوگی یا پھر شہنشاہ کی کہ بیچارہ بیمار ہوا اور مر بھی گیا۔تو اہل پیسا نے محبت کے اظہارئیے میں مقبرہ بنا دیا۔
باقی جگہوں کو میں نے صرف باہر سے دیکھا۔Baptisteryکے حُسن کو سراہا۔ یونیورسٹی کے سامنے کچھ وقت گزارا۔سونیئرز کی دکانوں پر جا کر چیزیں دیکھیں۔فروٹ اور ویجی پیزا کھایا، کافی پی اور سوچا کہ اب آگے کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟
ڈومہ کتھیڈرل میں جب میں ایپسApse کو دیکھتی تھی۔ ایک سانولی سلونی رنگت والی حسینہ نے مجھے مخاطب کیا۔ کینیڈا کی سکھنی۔
”سوہنیو تسی کھتوں او؟“
ہائے پنجابی زبان کی خوشبو سارے میں پھیل گئی تھی۔ معلوم ہوا تھا کہ وہ اور اس کا شوہر یہاں سے قریب ہی ہوٹل ولاکنزقاkinzica میں ٹھہرے ہیں۔ بہت اچھا ہوٹل ہے۔ سنگل بیڈ کا کرایہ 78یورو ہے۔لوکا اور فلورنس کا ان کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ آدھ گھنٹے کی گوڑھی بات چیت کے بعد میں نے ٹیکسی کے کرایے اور رات ٹھہرنے اور بسوں ٹرینوں سے جگہیں دیکھنے میں تقابلی اخراجات کا جائزہ لیا تو مجھے احساس ہواکہ خجل ہونے کا شوق ضرور پورا ہوگا۔ وگرنہ سودا گھاٹے کا ہی رہے گا۔
”ہٹاؤ یار ٹیکسی پکڑو۔ لوکا کی موٹی اور اہم چیزیں دیکھو اور گاڑی پر چڑھ جاؤ۔ اللہ اللہ خیر صلّا۔“
ڈومہ میوزیم کے پاس ہی ٹیکسی سٹینڈ تھا۔ اطالوی بھی ایک نمبر خرانٹ ہیں۔ خوب بھاؤ تھاؤکرتے ہیں۔ بہرحال سویورو پر مک مکاہوگیا۔
1343ء کی پیداوار یونیورسٹی قدامت کے رنگوں سے سجی سنوری اٹلی کی دس بہترین یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔اُس نے مجھے اس کے مختلف شعبے دکھائے۔ درختوں سے گھرے کشادہ راستوں سے سجے اس کابویٹنیکل گارڈن کا بھی دیکھنے سے تعلق تھا۔
ٹیکسی ڈرائیور کسی اچھی ماں اور باپ کا تخم تھا کہ اس نے پیسا ڈاؤن ٹاؤن کی بھی چند جھلکیاں مجھے دکھا دیں۔ شاید وجہ یہ بھی ہو کہ میں نے اُسے بتایا تھا کہ میں لکھنے والی ہوں اور اٹلی پر مجھے لکھنا ہے۔
میں تو اِن رنگوں کو دیکھ کر حیران سی حیران تھی۔ پرانے پیسا کی گلیوں میں بڑے بڑے پتھروں کے گھرتھے۔ کس خوبصورتی سے دیواروں کی چنائی تھی۔پتھر کی گلیاں، کہیں تنگ،کہیں کشادہ، گھروں پر پینٹ کے رنگ اور لوہے کی بالکونیاں۔ کیا حسن تھا۔ میں گاڑی سے اُتر کر رکتی اور حسرت سے انہیں دیکھتے ہوئے اپنے ملک کا موازنہ کرتے ہوئے سوچتی چلی جاتی۔
اِس حصّے کے پیازے یعنی میدان یا چوراہے بھی کیا کمال کے تھے۔ محرابی صورت والی چھتوں کے برآمدے پھیلتے چلے جاتے جن میں دکانوں کے ان گنت سلسلے پھیلے ہوئے تھے۔
مڈل برج سے اس نے گاڑی گزاری۔ یہ پرانے شہر کا پل تھا۔ واہ بھئی واہ مزہ آیا۔
لوکا کا راستہ خوبصورت تھا۔ پہلا تعارف تو اس کی اہم لینڈ مارک دیواروں سے ہواجن کی تہوں میں تاریخ گھسی بیٹھی تھی۔ مستطیل صورت کی پہلی رومن دیوار، دوسری قرون وسطیٰ عہد کی اور تیسری سولہویں صدی کے احیائے علوم کی دیوار۔ واہ دیواروں کی بھی بڑی شان ہے۔ ان کے بھی رنگ ہیں اور تاریخ ان کے بغیر بھی نامکمل ہے۔
رومن سٹائل کے چرچوں کی بھی بڑی بہتات تھی۔ تھوک کے حساب سے پیداوار تھی۔ یہ ہر گلی کوچے میں ہماری مسجدوں کی طرح جھانکتے پھرتے تھے۔
یہاں جس مشکل اور مصیبت سے دوچار ہونا پڑا تھا وہ پارکنگ تھی۔ بیچارے کو جگہ ہی نہیں ملتی تھی۔ یوں بھی سارا جوش وجذبہ پیسا نے نگل لیا تھا۔ تھکی ہوئی تھی۔ چیزوں کو دیکھنے کی اب قطعی تمنا نہیں رہی۔
”جو دکھانا ہے بس باہر سے ہی دکھا دو۔“
چلو اس کی بھی موجیں ہوگئیں۔ ایسی ٹُٹی پجھی(خستہ حال) سواری تو کہیں مقدروں سے ملتی ہے۔ رومن ایمفی تھیٹر دیکھا۔ بس باہر باہر سے ہی۔ تعمیراتی جن تھا۔ Guinigi Tower دیکھنے کی چیز تھی۔ مزہ آیا۔ اُتری۔ کچھ کچھ بابل کے معلق باغ کا سا تاثر دیتا تھا۔ چھت گل وگلزار ہوئی پڑی تھی۔
اب ہمت تو تھی نہیں کہ دو سو سے بھی زیادہ سیڑھیاں چڑھ کر جاتی اور پھر باغ باغیچے کانظارہ کرتی اور دیکھتی کہ درختوں سے پھوٹتی خوشبو نے ماحول کتنا معطر کر رکھا ہے اور اردگرد کے نظارے حشر سا مانیاں سی لئے ہوئے ہیں۔
میں نے ڈرائیور سے کہا۔
”تم نے جو کچھ کہا میں نے آنکھیں بند کر کے اس پر یقین کیا۔مگر داستان طلسم ہوش ربا کو اتنا نہ بڑھا کہ میں دامن چاک کر بیٹھوں۔ اگر میری ٹانگوں نے میرے سلوک کے خلاف احتجاجی دھرنا دے دیا تو بولو کیا کرو گے؟ دور دیسوں کی ایک بھاری گٹھٹری کو کہاں کہاں اٹھائے پھرو گے؟
بہرحال لوکا کی گلیوں کی خوب خوب سیر کی۔ ڈرائیور نے لوکا کا اسپیشل سنیکGarbanzo bean Crepe کھلایا۔ جس محبت سے مجھے کھلایامیں نے کھا لیا۔ غیر مشروط شرطوں کے ساتھ۔
لوکا کی تاریخ سے بھی تھوڑی سی شناسائی کروائی۔ جو بتایا اُسے توجہ اور شوق سے سنا اور جانا کہ ہر جگہ ہر شہر ہر اہم مقام کے کھُرے کہیں نہ کہیں یا بازنطینوں سے جا جڑتے ہیں یا پھر رومنوں سے۔ تو یہ شہر بھی ابتدا میں رومنوں کی نو آبادی ہی تھا۔
دائیں بائیں نکلتی اور آگے پیچھے مڑتی گلیوں کا جال اور ایمفی تھیٹر اسی دور اور ان ہی کی یادگاریں ہیں۔ یوں عیسائیت بھی اپنے آغاز سے ہی یہاں چلی آئی تھی۔ تو اب رومن سٹائل چرچوں سے شہر کو تو سجنا ہی سجنا تھا۔
لوگ ذہین،ہوشیار اور سمجھ دار تھے۔ جوڑ توڑ سے اسے ہر صورت ایک آزا د اور خودمختار ریاست کی حیثیت سے قائم رکھتے تھے۔ سِلک انڈسٹری بھی اس کی ایک پہچان رہی۔
ہاں ایک بڑی دلچسپ چیز جو سننے کو ملی کہ اپنے عروج کے زمانوں میں شہرمیں ٹاوروں کی بڑی بھرمار تھی۔ ہر ٹاور ایک امیر اور صاحب ثروت آدمی کی ملکیت اور رہائش گاہ ہوتی۔ اس میں زیر زمین کمرے، گراؤنڈ فلورپر دکانیں، بالائی منزلوں پر رہائش گاہیں،چھت پر باغ باغیچہ، کچن گارڈن اور درخت سائے کے لئے لگائے جاتے۔ سبزی ترکاری کی ضرورت پڑتی۔ چوبی سیڑھیوں جن سے سارا گھر جڑا ہوتا کوئی بھی اوپر جا کر ٹوکری بھر ترکاری اور پھل لے آتا۔
واہ کیابات تھی ایسے خوبصورت گھروں کی۔ میری دیکھنے کی خواہش پر ڈرائیور نے بتایا کہ ایسے گھر اب شہر میں نہیں۔ ایک آدھ کونونٹ کی صورت موجود ہے۔ اس کے اندر جانے کی اجازت نہیں۔
تاریخی حوالے سے دلچسپ بات جو سننے کو ملی وہ1799ء میں نپولین جب طوفانی آندھی کی طرح اٹلی میں آیا اس کے لئے لوکا کی حد درجہ پسندیدگی تھی۔ یہ اتنی زیادہ تھی کہ اس نے اس پیارے سے مال غنیمت کوبہن کو تحفے کے طور پر دے دیا۔ واہ شاہوں کے تحفوں کا بھی کیا کہنا۔ بعد میں نپولین کی بیوہ کو یہ سوغات ملی۔
کوئی پانچ بجے اس نے مجھے ٹرین اسٹیشن چھوڑا۔
اوررات کے نو بجے چیزاتے پہنچ کر اس فقیر کی طرح جو بڑی اعلیٰ ظرفی کا اظہار کرتے ہوئے ہانک لگاتا ہے۔
”جو دے اس کا بھی بھلا اور جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔“
میں نے بھی اوپر والے کو دیکھتے ہوئے صدا لگائی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

”جو دکھایا اس عنایت پر شکریہ اور جو نہیں دکھایا اس پر بھی شکریہ۔“
اب لاکھ زبان نہ کھولوں۔ لاکھ گلہ نہ کروں مگر کہیں میرے دل میں فلورنس نہ دیکھ سکنے کا دکھ تو تھا نا۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply